Monday, September 16, 2024
homeاہم خبریں’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘ کے حقیقی تصور سے کنارہ کشی ۔ سماجی اور...

’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘ کے حقیقی تصور سے کنارہ کشی ۔ سماجی اور معاشی آزادی خاتمے کی راہ پر

نور اللہ جاوید

77برس قوموں کی اجتماعی شعور، ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان برسوں میں کئی قومیں عروج و زوال کی شکار ہوئیں اور کئی قوموں نے امیدوں سے زیادہ ترقی اور بہتر و منظم قوم ہونے کا ثبوت بھی پیش کیا ۔77برس قبل ہند و پاک اور بنگلہ دیش نے انگریزی استبداد اور استعماریت سے آزادی حاصل کی ۔اگرچہ یہ آزادی بر صغیر کے تین حصوں میں تقسیم اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کی بھاری قیمت پر حاصل ہوئی ۔تقسیم کی لکیریں اتنی گہری کھینچی گئی تھیں کہ آج بھی اس کےنشانات اپنی تمام تر قہرسامانیوں کے ساتھ موجوہیں۔ 77برس قبل بھارت تین حصوں میں تقسیم ضرور ہوا تھا لیکن دو ممالک کا قیام ہوا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ محض دو دہائی بعد ہی اسلام کے نام پر تشکیل پانے والا ملک تصادم اور خونریزی کا شکار ہوگیا اور ہزاروں افراد کے قتل کے بعد زبان کی بنیاد پر ایک اور ملک بنگلہ دیش کی تشکیل ہوئی۔اسلام کے نام پر تشکیل پانےوالا ملک کیوں تقسیم کا شکارہوا؟ کیا یہ نظریہ اسلام کی شکست تھی ؟ظاہر ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات نے ثابت کردیا ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام نظریہ اسلام کی شکست نہیں تھی بلکہ اسلام آباد کے ظالم ، تنگ نظر حکم رانوں کی کم ظرفی کا نتیجہ تھا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے اسلام آباد کے خلاف بغاوت کی تھی نہ کہ اسلام کے خلاف؟ اگر بنگلہ دیشی عوام کی جد وجہد اسلام کے خلاف تھی تو آج اسی بنگلہ دیش میں اس کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے مجسمہ کے ساتھ نفرت آمیز سلوک کے مناظر دنیا کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتے ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے متحدہ اور باشعور جمہوری قوم ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ جب نئے آزاد بھارت کی تشکیل ہورہی تھی تو اس وقت عالمی طاقتیں بالخصوص مغرب کو یقین تھا کہ بھارت اپنے موجودہ ڈھانچے کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سب سے بڑی کالونی کو آزادی دینے کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے ’’آزاد بھارت‘‘ کا یہ کہہ کر A geographical term no more a united nation than the equator’’ہندوستان ایک جغرافیائی اصطلاح … خط استوا سے زیادہ متحد قوم نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔

آج اگر تین دہائی نصف پیچھے مڑکر دیکھاجائے تو یہ حقیت سامنے آتی ہے کہ کثیرالنسل سابقہ یوگوسلاویہ ٹوٹ چکا ہے، سوویت یونین بکھر چکا ہے اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ کشمیر کے مستقبل جیسے چیلنجوں کے باوجود بھارت آج بھی متحدہ ریاست ہے۔آزاد بھارت میں 500سے زائد مختلف خود مختار ریاستوں کو اکھٹا کیا گیااوریہ ایک صدی کے تین چوتھائی سے زائد عرصے میں نہ صرف متحد و مضبوط ہے بلکہ خوراک میں بھی خود کفیل ملک بن چکا ہے۔ نیز یہ دنیا کے اہم معاشی پاور ہاؤس کا حصہ بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں جمہوری انتخابات کا انعقاد جاری رکھا گیاہے، یہاں تک کہ مبہم انتخابی نظام کے باوجود ملک میں عدلیہ ہے جو نظریہ کے لحاظ سے آزاد ہے۔فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔میڈیا تنقید کرنے کے لیے آزاد ہے، اگرچہ اس وقت زوال کا شکار ہے۔ان برسوں میں بھارت کو اندرونی اور خارجی سطح پر جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ آج زیادہ تر پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات نازک ہیں۔ آمدنی میں عدم مساوات کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ لیکن اب ملک کو قدرتی آفات جیسی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے غیر ملکی حکومتوں کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور وہ اب امیر ممالک سے رعایتی امداد کا خواہاں نہیں ہے۔ایمرجنسی کے مختصر مدت کو چھوڑ دیا جائے تو بھارت میں جمہوریت کبھی بھی پٹری سے نہیں اتری ہے۔جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں جمہوریت ابھی بھی اپنے قدم جمانے کے لیے تگ ودو کررہی ہے۔ان 77برسوں میں پاکستان آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکا ۔اس وقت جو حکومت ہے اس پر مینڈیٹ چوری کرنے کاالزام ہے اور اس سے قبل عمران خان کی حکومت پر بھی یہی الزامات تھے۔بنگلہ دیش میں طلباء تحریک کے نتیجے میں چوتھی مرتبہ نام نہاد انتخابی عمل کے ذریعہ کامیاب ہونے والی شیخ حسینہ اقتدار چھوڑ کربھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکی ہیں ۔یہ اس لیے ہوا کہ حسینہ کی جمہوریت میں اپوزیشن کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔اس نے اپنے نظریاتی مخالفین جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی عائد کردی تھی ۔اس کے رہنماؤں کو تختہ دار پر چڑھادیا تھا یا پابند سلاسل کردیا تھا اور پی این بی کی قیادت کو نظر بند اور انتخابی عمل سے دور کردیا تھا۔وہ ایک ایسی پارلیمنٹ میں تھی جہاں کوئی بھی ان کی پالیسیوں پر سوالا ت کھڑا کرنے والا نہیں تھا ۔چنانچہ جب جمہوریت میں جمہوری ادارے اپنے کردار ادا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔حسینہ نے بھی جمہوریت اور آزادی کے تمام تصور کو ہی پلٹ دیا تھا چنانچہ سڑکوں پر جمع طلباء نے ان کے مقدر کا ایسا فیصلہ کیا کہ بنگلہ دیش کی سڑکوں اور چوراہوں پرطویل قامت دیش بندھو شیخ مجیب الرحمن اور حسینہ واجد کے مجسمےجو مرکز عقیدت بنے ہوئے تھے انہیں ہجوم نے بے عزتی کے ساتھ منہدم کر دیا۔جبر اور استعماریت کے خلاف عوام کا یہ سخت انتہائی رد عمل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان برسوں میں بھارت نے ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ بہتر جمہوری ملک ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے مگرآزادی کا انحصار صرف کامیاب انتخابی عمل اور پرسکون ماحول میں اقتدار کی منتقلی پر نہیں ہے۔سوال’’ مکمل آزادی‘‘اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی انفرادی، اجتماعی، سماجی اور معاشی آزادی کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے ہر ایک شہری کو یکساں آزادی اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں؟اب بھارت کی جمہوریت کا پاکستان ،بنگلہ دیش ، میانمار اور سری لنکا کے تناظر میں تقابلی تجزیہ کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے بھارت کی آزادی اور جمہوریت کا تجزیہ آزادی کے مفاہیم اور اس کے فلسفیانہ تشریح کی روشنی میں کیا جائےکہ آزادی کا مفہوم کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ آزادی کے اصول وضوابط کیا ہیں اور اس کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں؟ اس کے بعد ہمیں غورو فکر کرنا چاہیے کہ کیا بھارت طے شدہ اصول و ضوابط اور مطالبات کے مطابق آزادی کی تکمیل کی طرف گامزن ہے یا نہیں ؟علاوہ ازیں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ آج جنوبی ایشائی ممالک میں جمہوریت کا تجربہ ناکام کیوں ہواہے؟ جن وجوہات اور بنیادوں پر مذکورہ ممالک میں جمہوریت پٹری سے اتر گئی ہے اور عوام مکمل آزادی کے لیے ترس رہے ہیں تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں بھارت میں بھی وہی غلطیاں تو نہیں دہرائی جارہی ہیں ۔آج سوال اس لیے اہم ہے کہ ملک سماجی و معاشی آزادی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔معاشی آزادی کے انڈیکس میں بھارت مسلسل پھسلتا جارہا ہے۔آج بھارت کی 90فیصد دولت محض دس فیصد آبادی کے پاس ہے جبکہ ملک کی اکثریت غربت ، پسماندگی اور محرومی کی شکار ہے۔

ارسطو نے کہا تھاکہ’’جمہوری ریاست کی بنیاد آزادی ہے‘‘۔ لیکن آزادی کا مطلب کیا ہے؟ جب ہم آزادی کی تشریح جمہوری قوم کی بنیاد کے طورپر کرتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ آزادی کے تصورکو و سیع تناظرمیں دیکھا جائے ۔کیوں کہ آزادی صرف جمہوری ریاست کی بنیادی ضرورت نہیں ہے بلکہ آزادی انسان کا بنیادی حق بھی ہے اور اس کے انسانی سفر کی پیشگی شرط ہے۔آزادی کے مفہوم اور تشریح سے متعلق مختلف آرائیں ملتی ہیں تاہم، آزادی کے صحیح مفہوم اور تشریح کو اس کے اضداد سے سمجھا جاسکتا ہے۔’’آزادی کی سب سے واضح ضد غلامی ہے یعنی کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی ملکیت بن جائے اس طور سے کہ وہ اس کو مویشیوں کی طرح اپنی خدمت میں استعمال کرے اور جب چاہے انہیں فروخت کرے یا کسی کو ہدیہ کردے۔ آزادی کی ایک اور اہم ضد استبداد ہے۔ اور استبداد کا مطلب کسی ایک فرد یا افراد کے ایک مجموعے کا بقیہ تمام انسانوں پر مسلط ہونا اور ان پر اپنی پسند کے مطابق قوانین تھوپناہے۔ مشہور اسلامی مفکر عبدالرحمان الکواکبی کے مطابق کسی بھی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ اس میں استبداد اور خصوصاً سیاسی استبداد کا ہونا ہے۔ کواکبی کے مطابق استبداد کا تعلق زندگی کے کئی اہم گوشوں سے ہے۔ سیاسی استبداد جہاں ملک کی سیاست پر ایک مخصوص گروہ قابض ہو، دینی استبداد جہاں کوئی مخصوص طبقہ دین پر اجارہ داری قائم کرلے اور اس کو اپنے مخصوص مصالح کے لیے استعمال کرے، علمی استبداد جہاں علمی دنیا میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کچھ با اثر افراد کے ہاتھ میں ہو۔مالی استبداد جہاں پوری دولت پر چند گنے چنے افراد ہی قابض ہوں وغیرہ۔آزادی کی ایک اہم ضد استعمار ہے یعنی کوئی قوم یا ملک دوسرے ملکوں اور قوموں پر زبردستی حکومت کرے جس کی بڑی مثالیں انگریزی استعماراور فرانسیسی استعمار ہیں، جنہوں نے ماضی قریب میں متعدد ممالک پر زبردستی اپنا تسلط قائم رکھا اور وہاں کی ثروت کا بڑا حصہ لوٹنے کے بعد کسی حد تک ہی ان کو آزاد کیا۔ آزادی کی ایک ضد اکراہ ہے یعنی زبردستی کرنا اور کسی چیز کو کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرنا‘‘(آزادی: ایک اہم اسلامی قدر اور شرف انسانی کا لازمی تقاضا:ذو القرنین حیدر سبحانی۔۔ماہنامہ زندگی نو)

ژاں ژاک روسو (1712ء 1778ء) نے آزادی کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ فطری آزادی یا نیچرل فریڈم، سیول آزادی یا سوشل فریڈم، سیاسی آزادی یا ڈیموکریٹک فریڈم اور اخلاقی آزادی یا مورل فریڈم۔ روسو کے مطابق آزادی کی پہلی قسم انسان کی اس حالت سے متعلق ہے جب کہ وہ سماج کا حصہ نہیں بنتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ انسانیت کے پورے مفہوم پر پورا نہیں اترتا ہے۔ یہ آزادی وہ ہے جس میں کوئی قید ہو نہ کوئی قانون اور نہ کوئی خلاقیات۔ چنانچہ یہ آزادی کا وہ تصور ہے جو کسی انسانی سماج میں قابل عمل ہے اور نہ ہی قابل قبول۔ بلکہ روسو نے یہ قسم اسی لیے بنائی ہے تاکہ انسانی سماج کو ایک باقاعدہ سماج کی شکل اختیار کرنے کے تاریخی عوامل اور وجوہات کو سمجھا جاسکے۔ گویا اس کی ضرورت اور معنویت محض فلسفیانہ سطح تک ہے۔ بقیہ تینوں قسمیں ہی دراصل اس موضوع سے متعلق ہیں اور الگ الگ پہلوؤں سے اس کا احاطہ کرتی ہیں۔ سیول یا سوشل فریڈم سے مراد وہ آزادی ہے جو معاشرے کے ہر فرد کو اپنے بارے میں حاصل ہونی چاہیے۔ غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی، اور اپنی شخصیت سے متعلق فیصلے لینے کی آزادی اس میں شامل ہے۔ سیاسی آزادی سے مراد سیاسی امور کا لوگوں کی مکمل شمولیت سے طے پانا اور آزادی میں اجتماعیت کا خیال رکھنا ہے۔ چنانچہ سوشل فریڈم کا زیادہ فوکس انفرادیت پر ہے اور سیاسی آزادی میں زور اجتماعیت پر زیادہ ہے۔ تیسری اہم قسم مورل فریڈم کی ہے اور اس سے مراد انسان کا اخلاقی اور قانونی زاویے سے اپنی آزادی کو ضوابط اور اصولوں کا پابند بناناہے ۔ اسی کے تحت یہ اصول بھی پیش نظر رکھنا کہ آزادی کے تحت ہم صرف وہ کام کریں جو کسی اور کے کرنے سے ہمارے لیے قابل ملامت یا دشوارکن نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کے حوالے سے اخلاقیات کا پورا لحاظ کرنا۔ (آزادی: ایک اہم اسلامی قدر اور شرف انسانی کا لازمی تقاضا:ذو القرنین حیدر سبحانی۔۔ماہنامہ زندگی نو)ژاں ژاک روسو کی اس فلسفیانہ تشریح کو میگنا کارٹا (جنہوں نے 1512میں کنگ جان اور باغی بیرنز کے درمیان خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے ایک امن معاہدہ کے وقت جو چارٹر آف لبرٹیز تحریر کی تھی) کی روشنی میں دیکھیں تو آزادی کا مفہوم مزید واضح ہوجاتا ہے۔چارٹر آف لبرٹیز میں انہوں نے ’’خود مختار طرز عمل، انتظامی طاقت پر پابندی اور قانون کی حکم رانی کا وعدہ کیا تھا۔ میگنا کارٹا کی سب سے زیادہ یادگار شق یہ ہے کہ’’کسی بھی آزاد آدمی کو ضبط یا قید نہیں کیا جائے گا، یا اس کے حقوق یا املاک سے محروم نہیں کیا جائے گا، یا غیر قانونی یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا، یا کسی بھی طرح سے اس کے موقف سے محروم نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی ہم طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ اس کے خلاف یا دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے بھیجیں گے، افراد کے درمیان تنازع کی صورت میں ملکی قانون کے ذریعے فیصلے ہوں گے‘‘۔

یاد رکھیں کہ آزادی زبردست چیلنجوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ آتی ہے۔چناں چہ 1947میں ملک کی تشکیل کے وقت چار بڑے چیلنجوں کا سامنا تھا ۔ قومی یکجہتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت تقسیم کے تناظر میں نازک ہوگیا تھا۔اسی وجہ سے غیر ملکی مبصرین کو شک تھا کہ آیا بھارت متحد رہ پائے گا یا نہیں؟ صرف خود مختار بنے رہنے کا چیلنج نہیں تھا۔ تحریک آزادی کا وژن صرف غیر ملکی حکم رانوں کو بے دخل کرنے اور ان کی جگہ مقامی اشرافیہ کو اقتدار سونپنا نہیں تھا۔تحریک آزادی قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار میں جمہوری بھی تھی۔خودمختاری اور جمہوریت کا مقصد ہندوستان کی محرومی، زبردست غربت، ہر شعبے میں پھیلی عدم مساوات کا خاتمہ، آزادی کا مطلب سماجی اقتصادی انصاف کا قیام تھا۔ سیاسی حقوق کے ساتھ سماجی اور معاشی حقوق کی نگہبانی ایک بڑا چیلنج تھا۔لیکن یہ سب ایک چوتھے چیلنج پر منحصر ہے، اور وہ یہ کہ بھارت کے تنوع کو برقرار رکھا جائے۔اس وقت یہ سوال قوم کے سامنے تھا کہ کیا بھارت متحد اور خودمختار، جمہوری اور آزاد، منصفانہ اور مساوی، ہم آہنگی کے ساتھ متنوع بھی ہوگا؟ یہ وہ بنیادی چیلنج تھا جسے ہندوستان کی آزادی نے پیش کیا تھا۔ 77برس بعد بھارتی جمہوریت اور آزادی کو اس پیمانے پر جانچنے اور پرکھنے سے زیادہ خوداحتسابی اور تدارکی عمل کی ضرورت ہے۔

خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور اپنے تنوع کی حفاظت کے ساتھ بھارت نے جمہوریت کے اصولوں کو قائم اور کامیابی سے نافذ کیا ہے۔ متواتر انتخابات نے شہریوں کو اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کی اجازت دی ہے۔ آزاد اداروں الیکشن کمیشن، آزاد عدلیہ، آزاد پریس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایگزیکٹو کی طاقت اور اختیارات کے استعمال پر نظر رکھی جائے۔ مرکز اور ریاستوں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کے ساتھ ایک وفاقی ڈھانچہ ہے۔ ایک متحرک، شور مچانے والے عوامی حلقے نے جمہوری شرکت کے ساتھ آگے کا راستہ طے کرنے کے لیے معقول بات چیت کی اجازت دی ہے۔ احتجاج اور سماجی تحریکوں نے کمزور اور پسماندہ لوگوں کو آواز دی ہے۔ نظریاتی لڑائیاں پرامن فریم ورک کے اندر ہوئی ہیں اور ہندوستان مستحکم ہے کیونکہ یہ ایک جمہوریت ہے۔ پسماندہ کمیونٹیز کے دعوے اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ جمہوریت مزید گہری ہو گئی ہے۔اس کے باوجود بھارتی جمہوریت سے متعلق جائز سوالات ہیں۔ انتخابات ایک حقیقی عوامی تہوار ضرور ہیں جہاں شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں جمہوریت کے کئی عناصر کو نقصان پہنچا ہے۔فرقہ پرستی اور غیر لبرل ازم کا عروج ہے۔ سیاسی جماعتیں ذاتی جاگیر بن چکی ہیں۔ اقربا پروری عروج پر ہے۔ جرم، پیسہ اور سیاست کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔ منتخب لیڈروں میں طاقت کی حد سے زیادہ مرکزیت ہے۔ فیڈرل کمپیکٹ دباؤ میں ہے۔ ادارے کمزور ہو رہے ہیں، انتظامی زیادتیوں پر کڑی نظر رکھنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ آزادی اظہار کو اکثر کمیونٹی کے جذبات کی آڑ میں چھینا جارہا ہے۔ انفرادی آزادیوں کو اکثر مجروح کیا جاتا ہے۔ اور پارٹیاں اقتدار کی تلاش میں ووٹروں کو متحرک کرنے کے لیے انتہائی ناقص، پرتشدد، پولرائزنگ تکنیکوں کا سہارا لے رہی ہیں۔

بھارتی سیاست اکثریت پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔ اقلیتوں ، خاص طور پر مسلمانوں میں طاقت کے ڈھانچے سے خارج ہونے کا احساس بڑھتا جارہا ہے، ان کے طرز زندگی، کھانے کی عادات، ثقافتی علامتوں پر شکوک و شبہات کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ، ہندو مسلم تقسیم گزشتہ سات دہائیوں کے کسی بھی موڑ کے مقابلے میں آج سب سے زیادہ بلندی پر ہے، خود ریاست اس میں حصہ ڈال رہی ہے۔لوجہاد، تبدیلی مذاہب کے خلاف سخت اور آئین کے بنیادی حقوق کے متعارض قوانین اور اب وقف ایکٹ ترمیمی بل وغیرہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت میں سماجی آزادی کو ختم کرنےکی حکومت کوشش کررہی ہے۔وان مائیز، ہائیک اور فریڈمین جیسے ماہرین اقتصادیات کا اصرار ہے کہ جائیداد کے حقوق کا مضبوط تحفظ اور معاشی آزادی جمہوریت کے لیے ضروری شرائط میں سے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے آزاد منڈیوں کے ساتھ خوراک کے بغیر سیاسی آزادی اور معاشرےکا تصور کرنا تقریباً ناممکن ہے۔حالیہ برسوں میں بالخصوص مودی کے دور حکومت میں معاشی آزادی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔حکومت ان پالیسیوں پر سرگرم ہے جس کی وجہ سے ملک کا سرمایہ اور اثاثہ چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جارہا ہے۔اسی معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ملک اس وقت بھیانک عدم مساوات کاشکار ہے۔کسی بھی جمہوری ملک میں اس کا آئین اپنے شہریوں کو تجارت کرنے، کام کرنے اور احتجاج کرنے کا بنیادی حق دیتاہے۔اس کے باوجود حکومتیں سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ ان حقوق کو روندتی جا رہی ہیں۔سیاسی یا مذہبی آزادی کی موجودہ حالت اور اظہار رائے کی آزادی کے زوال پر لامتناہی مباحث ہوتے ہیںہ اور ہونا بھی چاہیے۔ جب حکومتیں معاشی آزادی پر حملہ آور ہوتی ہیں تو اس کے خلاف وہ زوردار آواز بلند نہیں ہوتی ہے جو ہونی چاہیے۔اس ملک کے کسان دوسالوں سے احتجاج کررہے ہیں مگر حکومت سننے کو تیار نہیں ہے۔لیبر قوانین تبدیل کردیے گئے ہیں ۔ذرائع پیداوار پر حکومت کا کنٹرول آزادی اظہار اور سیاسی آزادی کو براہ راست متاثر کر سکتا ہے۔

جس طرح سے سماجی اور معاشی آزادی پر مسلسل حملےہورہے ہیں اور ادارے پست ہوتے جارہے ہیں ایسے میں بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر بیان کرنا عجیب سا لگتاہے۔ بھارت محض انتخابات کرانے کے لیے سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس میں جمہوریت کی شکل تو ہے لیکن اپنی اہمیت کھوچکی ہے۔اب الیکشن کمیشن کی آزادی تک خطرے میں پڑگئی ہے۔عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانبداری پر نہ صرف سوالات اٹھ رہے ہیں بلکہ انتخابی عمل ہی مشکوک ہوتا جارہا ہے۔کئی آزادا اداروں نے سوالات کھڑے کیے ہیں کہ کل کاسٹ ووٹ سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کیوں ہوئی۔ایک آزادادارے نے 79ایسی سیٹوں کی نشان دہی کی ہے جہاں کل کاسٹ ووٹ سے زیادہ ووٹوں کی گنتی ہوئی ہے اور ان سیٹوں پر بی جے پی اور اس کے اتحادی جماعتوں کی جیت ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے جس کے لیے کمیشن کو جواب دینا چاہیے مگر وہ اس کے لیے بھی آزاد نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے انسانی ترقی کے اشاریوں میں ہندوستان کی درجہ بندی جمود کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی آزادیوں کے اپنے سالانہ جائزے میں، فریڈم ہاؤس اب بھارت کو ’’آزاد‘‘ کے طور پر درجہ بندی نہیں کرتا ہے۔ PEN امریکہ کے مطابق، مصنفین اور صحافیوں کے لیے دس بدترین جیلوں میں بھارت واحد جمہوریت ہے؛ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق بھارت صحافیوں کے لیے کام کرنے کے لیے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک بن چکاہے۔

بھارت کو اخلاقی بلندی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے ۔’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘(جسے موجودہ حکومت مکمل طور پر کچل رہی ہے)کے بغیر مکمل آزادی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس کے بغیر آزادی کی کہانی نامکمل اور ادھوری رہے گی۔آزاد بھارت کے بانیوں نے آئین کے بنیادی حقوق کے دفعات کے ذریعے ۔’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘کا جو تصور پیش کیا تھا اس کے لیے ملک کے تمام شہریوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔اندیشہ ہے کہ بھارت بھی جنوبی ایشیاکے دیگر ممالک کی طرح جمہوری ناکامی اور انارکی کا شکار نہ ہوجائے۔کیوں کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ مضبوط معیشت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود چین جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا وہ معاشی ہیومن ڈیولپمنٹ میں ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔بنگلہ دیش جہاں اب بھی جمہوریت کی سانسیں پھول رہی ہیں اس نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

جہاں تک بنگلہ دیش اور پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اور آزادی سے محرومی کا سوال ہے تو اس کو مذہب کی ناکامی یا پھر مذہبی انتہا پسندی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہی کہ دنیا میں پہلی مرتبہ اسلام نے ہی آزادی کا کامل تصور پیش کیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ یا نبی ﷺ کے مشن کا سب سے جامع اور خوب صورت بیان اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ آزادی ہے۔ ڈاکٹر حاکم مطیری کہتے ہیں کہ آزادی ہی دراصل توحید کی روح ہے اور اسلام آیا ہی انسانوں کو مکمل طور سے آزادی دلانے ۔تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک میں ’’آزادی کے تصور کا فقدان کیوں ہے؟ اس کا جواب عالم اسلام کے بڑے مفکر اور تحریک اسلامی کے بڑے قائد راشد غنوشی یوں دیتے ہیں کہ ’’اسلامی دنیا تمام تعلیمات کے موجود ہوتے ہوئے بھی نظریاتی اور عملی سطح پر آزادی کے مفہوم اور تقاضوں سے بہت دور اور پیچھے ہے۔ آج عالم اسلام میں جس چیز کا فقدان ہے وہ یہی آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان مسلم ممالک چھوڑ کر آزادی کی خاطر یورپ چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ہجرت اسلام سے کفر کی طرف نہیں بلکہ استبداد اور ظلم سے آزادی اور احترام انسانیت کی طرف ہے‘‘۔(آزادی: ایک اہم اسلامی قدر اور شرف انسانی کا لازمی تقاضا:ذو القرنین حیدر سبحانی۔۔ماہنامہ زندگی نو)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین