کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن)
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے آج اپنی طویل پریس کانفرنس میں مختصراً کہا کہ بنگال سول سروس امتحان میں بنگلہ کے علاوہ دیگرمادری زبانیں نیپالی، ہندی ، اردو اور سنتھالی کو شامل کیا جارہا ہے۔اس کے بعد ممتا بنرجی دیگر ایشوز پر اپنی بات رکھی ۔اس مختصر اعلان کے علاوہ ممتا بنرجی نے بنگال سول سروس امتحانات سے متعلق کچھ بھی نہیں ۔مگر اس کے فور بعد ہی فیس بک پر’’ اردو اشرافیہ‘‘(جن کے اہل خانہ اردو سے نابلد ہی نہیں بلکہ اردو کونفرت بھر ی نگاہ سے دیکھتے مگر پبلک فارم پر خود کو اردو کا مسیحا کے طورپر پیش کرتے ہیں) کی جانب سے مبارک باد کادور شروع ہوگیا ہے۔ خلافت کمیٹی ، مغربی بنگال ملی کونسل بنگال جیسی حکومت نواز ملی تنظیموں کے عہدیداروں نے کریڈٹ لینا شروع کردیا ہے اوریہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ سب ان کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔
دراصل ممتا بنرجی کے اعلان سے بادی النظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلےیہ زبانیں بنگال سول سروس امتحان میں شامل نہیں تھیںاب انہوں نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ان زبانوں کے ساتھ انصاف کررہی ہیں۔جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ پہلے بھی اردو ، ہندی اور نیپالی کاپرچہ تھا۔بلکہ پہلے 300نمبر کا اردو ، ہندی اور نیپالی زبان کا پرچہ تھا ۔اس کی وجہ سے ان زبانوں کے میڈیم میں پڑھنے والے طلبا کی بڑی تعدادکامیاب ہوتی تھی۔تاہم گزشتہ سال اس میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اردو اور ہندی کی جگہ بنگلہ کے 300نمبر کے امتحان میں پاس ہونا لازمی کردیا گیا۔بنگال حکومت نے اس کیلئے باضابطہ نوٹی فیکشن بھی جاری کیا ۔اس کی وجہ سے اردو اور ہندی میڈیم کے طلبا کیلئے بنگال سول سروس کا امتحان پاس کرنا ناممکن سا ہوگیا ہے۔اس کا اثر ہے کہ اس سال کے نتائج میں اردو طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کی تعداد انتہائی کم ہے۔اردو میڈیم کے طلبا کےلئے چلائے جارہے کہ کئی کوچنگ سنٹر بند ہوگئے ہیں۔
حکومت کے اس قدم کی مخالفت میں کہیں کہیں سے آوازیں بھی بلند ہوئیں مگر اردو طبقہ کوئی بڑی تحریک کھڑا کرنے میں ناکام رہی ۔ملی کونسل اور خلافت کمیٹی جیسی ملی جماعتیں دکھاوا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں ۔ملی کونسل کے تین رتن قاری فضل الرحمن ، قاری شفیق اور حاجی شہود عالم نے ممتا بنرجی سے ملاقات ضرور کی مگر یہ ملاقات کسی معمہ سے کم نہیں تھا۔انہوں نے دعویٰ ضرورکیا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے سامنے اردو کے مسائل کو رکھا ہے مگر میمورنڈم دکھانے میں ناکام رہے۔اس ملاقات کے چند دن بعد ہی بنگلہ کو لازمی کرنے کا نوٹی فیکشن بھی جاری کردیا گیا۔جب کہ یہ تین رتن بڑے بڑے دعوے کررہے تھے اور ان کی تصویروں کے ساتھ ایک اردو اخبار نے گمراہ کن خبر بھی شائع کیا تھا ۔
ان حالات میں سوال یہ ہے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے اس مختصر اور گنجلک بیان پر جشن کیو ں منایا جارہا ہے؟۔کیا وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کیا ہے کہ 300نمبر کا بنگلہ امتحان لازمی کو ختم کردیا جائے گا؟۔اس سے متعلق نوٹی فیکشن جاری ہوئے بغیر جشن اور مبارک بادی فریب نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ آخر اردو والے جب تک خودفریبی میں مبتلا رہیں گے؟۔
کول انڈیا میں اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے چکے امتیاز حسین کہتے ہیں کہیہ گمراہ کن خبر ہے۔ اردو، ہندی سنتھالی کو بطور مضامین کبھی خارج نہیں کیا گیا۔ اگر ہوتا تو اسے غیر آئینی قرار دیا جاتا۔ تاہم سارا تنازعہ بنگلہ زبان کا 300 نمبروں کا لازمی پرچہ شروع کرنے پر تھا۔ غیر بنگالی اسے امتیازی سلوک سمجھ رہے تھے اور اس پالیسی کی مخالفت اسی پر مبنی تھی۔ اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ڈبلیو بی سی ایس امتحان میں 300 نمبروں کا بنگلہ زبان کا لازمی پیپر متعارف کرایا گیا تھا اس کا کیا ہوا۔