Monday, August 18, 2025
homeاہم خبریںاپنے ہی ملک میں ’’غیر ‘‘ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور...

اپنے ہی ملک میں ’’غیر ‘‘ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بنگالی ===ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ سمیرالاسلام گروگرام اور نوئیڈا میں آباد بنگالیوں سے ملاقات کی

کلکتہ :

ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور مائیگرنٹ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے چیئرمین سمیر الاسلام نے ہفتہ کے روز اتر پردیش کی حکومت پر نوئیڈا میں بنگالیوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے بنگالی کھانا ’’مچھلی ‘‘ کے فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔


منیرالاسلام نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہریانہ کے گروگرام کے بعد اب یہ اتر پردیش کے نوئیڈا میں بنگالی ورکروں کےساتھ بدسلوکی کی جارہی ہے۔ جگہ بدل گیا ہے، لیکن منظر وہی ہے۔انہو ں نے کہاکہ بنگالی بولنے والے خوفزدہ ہیں ۔

ترنمول کانگریس کے لیڈرنے کہا کہ باشندوں کو ان کی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے، ایک خاتون نے مبینہ طور پر رہنما کو بتایا کہ بنگالیوں کے ساتھ انسانوں جیسا نہیں، بلکہ کتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے، اسلام نے سوال کیا کہ لوگوں کو صرف بنگالی میں بات کرنے پر اتنا ظلم کیوں سہنا پڑتا ہے۔

نوئیڈا کا دورہ کرنے سے پہلے اسلام نے گروگرام کا دورہ کیا اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے درمیان باقی ماندہ بنگالی مہاجر کارکنوں سے ملاقات کی۔

انہو ں نے انصاف نیوز آن لائن کو بتایا کہ ودہ 20-25 سالوں سے ان بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ آج، بی جے پی نے ایسا عجیب ماحول بنا دیا ہے کہ عام شہری بھی بنگلہ بولنے والوں کو بنگلہ دیشی سمجھ کر سلوک کرتےہیں۔بی جے پی کے بنگالی مخالف ذہنیت نے معاشرہ کو تقسیم کردیا ہے۔

سمیر الاسلام نے لکھا ہے کہ میں نے گروگرام ہریانہ میں زیادہ تر بنگالی بستیوں کا دورہ کیا ۔ میں نے صورتحال کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اپنے بنگال کے ان باشندوں سے بات کی۔ تمام بستیوں سے زیادہ تر بنگالی تارکین وطن ہمارے مغربی بنگال میں واپس آ گئے ہیں۔ جو لوگ کام اور اپنے خاندانوں کے لیے واپس رہ گئے تھے وہ اب خوف اور اضطراب میں جی رہے ہیں۔ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بنگالی میں بات کرتے ہیں۔

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مئی اور جولائی 2025 کے درمیان مہاراشٹر، گجرات، دہلی، اوڈیشہ، آسام وغیرہ سمیت کئی ہندوستانی ریاستوں میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو حراست میں لینے اور زبردستی ہٹانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حراستیں اکثر مناسب قانونی عمل کے بغیر ہوئیں۔ کچھ معاملات میں، لوگوں کو زبردستی بنگلہ دیش کی سرحد کے پار بھیجا گیا۔ بہت سے لوگوں کو قانونی مددنہیں مل پارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین