Saturday, November 15, 2025
homeاہم خبریںمخالفین کو ”فرعون“، ”نمرود“ اور ”منافق“کہنا کہیں ایم آئی ایم کو بھاری...

مخالفین کو ”فرعون“، ”نمرود“ اور ”منافق“کہنا کہیں ایم آئی ایم کو بھاری نہ پڑجائے!

انڈیا اتحاد کے مسلم لیڈروں نے موضوع بنایا۔اویسی سیاسی فائدہ کیلئے مذہب کا سیاسی استعمال کررہے ہیں: ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید

کشن گنج:انصاف نیوز آن لائن

آل انڈیا اتحاد المسلمین کے ذریعہ سیاسی مسلم مخالفین لیڈروں کو ”منافق“، ”فرعون“ اور ”نمرود“ سے تشبیہ دئیے جانے کو انڈیا اتحاد کے لیڈروں نے سیاسی موضوع بنادیا ہے۔ٹھاکر گنج کے ایس ایچ آزاد انٹر کالج میں راشٹریہ جنتادل کے امیدوارمولانا سعود اسرار ندوی کی حمایت میں منعقد ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقامی ممبرپارلیمنٹ محمد جاوید آزاد نے ایم آئی ایم کے لیڈروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی سرجا پوری زبان میں حاضرین سے سوال کیا کہ کسی مسلمان کو فرعون اور نمرود کہا جاسکتا ہے۔کیا ہم لوگ فرعون ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ اویسی اور ان کے ساتھی کشن گنج میں سیاسی مخالفین کو کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں کیا یہی ان کی تہذیب و ثقافت ہے۔یہ ثقافت ان کی ہوسکتی ہے مگر کشن گنج کے عوام کی یہ تہذیب نہیں ہے۔ہم اپنے جانی دشمنوں کو بھی گالیاں نہیں دیتے ہیں۔سیاسی مخالفین دشمن نہیں ہوتے ہیں۔

کوچہ دھامن سے راشٹریہ جنتادل سے امیدوار ماسٹرمحمد مجاہد عالم جنہوں نے وقف کے سوال پر نتیش کمار کا ساتھ چھوڑ کر راشٹریہ جنتادل میں شمولیت اختیار کی تھی نے بھی آل انڈیا اتحاد المسلمین کے لیڈروں کے بیانات کو حوالہ دیتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ایم آئی ایم لیڈروں کے بیانات اسلام کی ترجمانی ہے۔آگے وہ کہتے ہیں کہ اے آئی ایم کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے ہیں جب کہ پوری پارٹی بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے روپے لے کر ٹکٹ فروخت کئے جاتے ہیں۔

اویسی کی جارحانہ مہم کا مقابلہ کرنے کیلئے کانگریس نے مشہور شاعر و راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی کومیدان می اتارا ہے۔دوسری طرف راشٹریہ جنتادل کیلئے کیرانہ سے ممبرپارلیمنٹ اور سماجوادی لیڈر اقراحسن بھی مہم چلارہی ہیں۔عمران پرتاب گڑھی بھی اے آئی ایم کے لیڈروں پر کھل کربات کررہے ہیں اور سوال کھڑا کرتے ہیں کہ صرف آپ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے میں کیسے منافق ہوسکتا ہوں؟۔آپ سیاست کررہے ہیں میں بھی سیاست کررہا ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ صرف سیاسی مخالفت کی وجہ سے میں نمرود کیسے ہوسکتا ہوں۔

کشن گنج سے کانگریس کے امیدوار قمرالہدی ٰ بھی اپنے چھوٹے سے چھوٹے پروگراموں سے لے کر بڑی بڑی ریلیوں میں اس کوموضوع بناکر سوال کرتے ہیں کہ یہ صرف ہمیں گالیاں نہیں ہے بلکہ یہ کشن گنج کے عوام کو گالیاں دی گئی ہیں۔کشن گنج اور سیمانچل کے عوام نے کبھی بھی اس طرح کی گالیاں نہیں سنی ہیں۔

میں کل رات بدھ کو جب کشن گنج پہنچاتو میں اپنے میز بان کے ساتھ کشن گنج کے سب سے مشہور اور معیاری ہوٹل امپریم میں عشائیہ کیلئے پہنچا تھا وہاں پہلے سے ہی ملک کے مشہور شاعر منظر بھوپالی، جوہر کانپوری اور لتا حیا موجود تھی اور چند منٹوں بعد ہی ایم آئی ایم کے سابق ممبر پارلیمنٹ امتیاز جلیل بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے۔ان سے ملاقات و مشافہ بھی ہواور میں نے ایک انٹرویو کی درخواست کی تووہ صبح 10.30بجے کا وقت دیا۔کھانے سے فراغت کے بعد میں منظربھوپالی سے سوال کیا کہ آپ یہاں؟ کیا انتخابی مہم کے دوران بھی مشاعرے منعقد ہورہے ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ میں انتخابی مہم میں آیا۔میں نے سوال کیا کس پارٹی کیلئے انہوں نے کہا کہ ایم آئی ایم کی طرف۔میں نے سوال کیا کہ آپ ایم آئی ایم کی سیاست سے متفق ہیں؟ پھر خیال آیا کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے اٹل بہاری واجپئی حمایت کمیٹی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چلئے ایک صحافی کو سیاست داں کے ساتھ سیلفی نہیں لینی چاہیے۔گرچہ اس وقت آپ سیاست کررہے ہیں مگر آپ کی پہنچان شاعری سے ہے اس لئے ایک شاعرکے ساتھ سیلفی لی جاسکتی ہے۔تاکہ سند رہے کہ انتخابی موسم میں صرف ملا ہی نہیں بکتے ہیں بلکہ اب اردو کے شاعر بھی بکنے لگے ہیں۔

جہاں تک امتیاز جلیل کے انٹرویو کا ہے؟ میں صبح وقت سے 20منٹ قبل کشن گنج کے مشہور ہوٹل ”دفتری پلس“ پہنچ گیا۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ ایم آئی ایم والے نے پورے ہوٹل کی بکنگ کرالی ہے۔ملک بھر کے ایم آئی ایم کے لیڈران یہاں مقیم ہیں۔اویسی صاحب کا بھی یہیں قیام ہے۔امتیاز جلیل صاحب سے دور سے سلام وکلام ہوا مگر تھوڑی دیر کے بعد ان کا واٹس اپ پیغام آیا کہ وارث پٹھان کا انٹرویو لے لیں۔میں نے کہا کہ میری آپ سے بات ہوئی ہے مگر انہوں نے وارث پٹھان کا نمبر بھج دیا۔وارث پٹھان کا انٹرویو لینے کی مجھے کبھی بھی خواہش نہیں رہی ہے۔اس کے باوجود میں نے ان کو فون کیا مگر انہوں نے میرے چینل کا نام پوچھ کرکے فون بند کردیا۔

ایم آئی ایم اپنے انتخابی مہم مسلم قیادت کو موضوع بنارہی ہے۔اس سوال پر محمد جاوید کہتے ہیں کہ کانگریس نے عبد الغفور کو بہارکا وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔میں کانگریس میں ٹکٹ تقسیم کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہوں اور میرے دستخط کے بغیر ٹکٹ نہیں مل سکتا ہے۔میں لوک سبھا میں کانگریس کا چیف وہب ہوں اور میں طے کرتا ہوں کہ لوک سبھا میں کانگریس کے کس لیڈر کو کتنی دیر تقریر کرنی ہے۔کیا یہ قیادت نہیں ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد محض 24ہے مگر وقف قانون کے خلاف 232ووٹ پڑے۔اتنے ووٹ کس کے تھے۔انہوں نے سوال کیا کہاس ملک میں ہندو مسلم کی سیاست نہ ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے حق میں

متعلقہ خبریں

تازہ ترین