کلکتہ:انصاف نیوز آن لائن
ایک ایسے وقت میں جب نئے وقف قوانین کو لے کر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔کلکتہ اور بنگال کے دیگر علاقے میں بھی احتجاج ہورہے ہیں۔ترنمول کانگریس بھی اس احتجاجی مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ایسے میں مرکزی انٹلی جنس ایجنسی (آئی بی) کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔جس میں مغربی بنگال میں وقف املاک پر غیر قانونی تجاوزات پر تفصیلی رپوٹ دی گئی ہے۔اس رپورٹ میں ممتا بنرجی کے کابینہ کے سینئر وزیر فرہاد حکیم، راجیہ سبھا کے رکن محمد ندیم الحق، سابق ممبر اسمبلی نصیرالدین احمد اور کاؤنسلر شمی جہاں کے نام لئے گئے ہیں۔مرکزی انٹلی جنس ایجنسی آئی بی نے یہ رپورٹ اس وقت تیار کی تھی جب مرکزی حکومت وقف بل لانے کیلئے پارلیمنٹ میں لانے کی تیاری کررہی تھی۔اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ترنمول کانگریس کی وقف قوانین کے خلاف احتجاج پر اخلاقی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آئی بی نے یہ رپورٹ یہ کیوں تیار کی ہے، کیا مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی۔تاہم یہ واضح ہے کہ وقف بل کیلئے ماحول سازگارکرنے کیلئے اس طرح کی رپورٹ تیار کی گئی ہے۔اس کے علاوہ انصاف نیوز آن لائن کے پاس یہ معلومات بھی نہیں ہے کہ اس؎طرح کی رپورٹ صرف مغربی بنگال میں تیار کی گئی ہے یا پھرآئی بی نے دیگر ریاستوں میں بھی تیار کی گئی ہے۔
آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذاتی فائدے کے لیے وقف املاک پر ‘زبردستی قبضہ اور ‘غیر قانونی طور پر وقف املاک کو اپنے نام پر منتقل کیا گیا ہے۔رپورٹ میں مغربی بنگال وقف بورڈ کے دوممبران سے متعلق تفصیلی رپورٹ دی گئی ہے۔سابق ممبر اسمبلی نصیر الدین احمدجن کا فروری میں انتقال ہوگیا ہے سے متعلق لکھا گیا ہے کہ نصیرالدین نے کرشنا نگر میں صاحب اللہ وقف اسٹیٹ میں 3000 مربع فٹ کے فلیٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ وقف بورڈ کے دوسرے ممبر اور ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھاممبر محمد ندیم الحق پربھی الزام عائدکیا گیا ہے کہ انہوں نے 8/10تال بگان روڈپر 22کھٹہ وقف اراضی پر قبضہ کررکھا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں اخبار مشرق کا پریس ہے۔یہ جگہ 1980سے اخبار مشرق کے پاس ہے۔
رپورٹ میں کلکتہ کے میئر اور ریاستی وزیر فرہاد اور کلکتہ میونسپلٹی کے وارڈ نمبر 64 کی ترنمول کانگریس کی کونسلر شمی جہاں بیگم کانام لیا گیا ہے۔مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرہاد حکیم نے جوہورا بی بی وقف اسٹیٹ کی 35 بیگھہ اراضی میں سے 5 بیگھہ سے زیادہ زمین پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ مہابرتلہ مسجد سے علی پور تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ وہاں (اپنی بیوی کے ساتھ مل کر) ماربل کا شوروم بھی چلا رہے ہیں۔
ترنمول کانگریس کی کاؤنسلر شمی جہاں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزارہ روڈ پر واقع ٹیپو سلطان قبرستان کی زمین پر سمی جہاں نے قبضہ کررکھا ہے۔ تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نے شمی جہاں نے کتنی زمین پر ”زبردستی قبضہ کر رکھا ہے“۔ یا وہ اس زمین کا کیا استعمال کر رہی ہے یا نہیں۔
ریاستی وزیر اور کلکتہ کے میئر فرہاد حکیم نے آئی بی سے متعلق بنگلہ اخبار ”آنند بازار پتریکا“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ انٹلی جنس کی رپورٹ میں میرے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔فرہادحکیم نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے سیاست کارفرما ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے مجھے سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ میری شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگراس سے کام نہیں چلاتو میرے خلاف آئی بی کی رپورٹ لائی گئی ہے۔
کلکتہ کارپوریشن کے وارڈ نمبر64کی کاؤنسلر شمی جہاں نے بھی اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایسی کوئی رپورٹ تیار کی گئی ہے۔میں وقف بورڈ کی ممبر نہیں ہوں۔مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں کہاں وقف بورڈ کی جائداد ہے۔اس لئے قبضہ کرنے کی بات ہی دور ہے۔
آئی بی کی رپورٹ میں زہرہ بیگم وقف اسٹیٹ کی زمین پر غیرقانونی تجاوزارت سے متعلق تفصیل سے رپورٹ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بائیں بازو کے دور حکومت میں زہرہ بیگم وقف اسٹیٹ پر قبضہ سے متعلق تین مرتبہ شکایت کی گئی۔اس میں ایک ایسے پروموٹر کے نام کا ذکر کیا گیا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے وہ ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے قریبی ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’30مارچ 2006 کو مغربی بنگال وقف بورڈ کے اس وقت کے سی ای او جی ایچ عبید الرحمن نے نیو علی پور پولیس اسٹیشن کے او سی کو تحریری طور پر مطلع کیا تھا کہ ایک پروموٹر اجے نارائن گھوش اور اس کے ساتھی زہرہ بیگم وقف گنج اسٹیٹ کی زمین پر غیر قانونی تعمیرات کر رہے ہیں۔ سی ای او نے پولیس سے درخواست کی تھی غیر قانونی تعمیرات پر روک لگائی جائے۔
اس کے بعد18 مارچ 2008 کو ریاستی وقف بورڈ کے اس وقت کے سی ای او عرفان علی بسواس نے نیو علی پور پولیس اسٹیشن کے او سی کو دوبارہ خط لکھ کر اجے نارائن گھوش کے خلاف شکایت کی گئی کہ سومناتھ لہڑی سرانی، ٹالی گنج روڈ سرکلر پر واقع وقف جائداد پر غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہے اس لئے اس پرروک لگائی جائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 مئی 2009 کو مغربی بنگال حکومت کے جوائنٹ سکریٹری کی سطح کے ایک افسر نے دوبارہ اسی طرح کا خط نیو علی پور پولیس اسٹیشن کو لکھا جس میں زہرہ بیگم وقف اسٹیٹ میں غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ مرکزی انٹیلی جنس آئی بی نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اتنے سارے خطوط لکھنے کے باوجود اجے نارائن گھوش یا فرہاد حکیم کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ 28بیگھہ سے زائد رقبے پر غیر قانونی تعمیرات جاری رہیں۔ بائیں محاذ کے دور حکومت زہر وقف اسٹیٹ میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ کچھ دنوں کیلئے روک گیا مگر 2011میں ترنمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعدزہر وقف اسٹیٹ پر غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
آئی بی کی رپورٹ میں مٹیابرج میں نواب واجد علی شاہ کی جانب سے عطیہ کردہ وقف املاک پرناجائز قبضہ سے متعلق بھی ذکر کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی اولاد اور وارثوں کی طرف سے بنایا گیا ایک ٹرسٹ جائیداد کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ لیکن 2020 میں ہمایوں علی مرزا نامی ٹرسٹ کے ایک رکن نے دوسرے اراکین سے مشورہ کیے بغیر ایک نیا ”ٹرسٹ ڈیڈ (دستاویز) تیار کیا۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کا استعمال کرتے ہوئے زمین کو ایک اسپتال کی تعمیرکیلئے اسپتال کے ٹرسٹ کو لیز پر دیدیا۔ریاستی وزیر فرہاد حکیم اس اسپتال کے ٹرسٹی کے چیئرمین ہیں۔ وقف بورڈ نے ایک نئے ڈیڈ کی بنیاد پر محض ایک دن میں اسپتال کیلئے لیز منظورکرلی۔
سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں وقف بورڈ میں متولیوں کی نمائندگی کرنے والے ”آفاق الزماں“ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔آئی بی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آفاق الزماں فرہاد حکیم کے قریبی ہیں۔آفاق الزماں متنازع کردار کے مالک رہے ہیں اور وہ بائیں محاذ کے دور حکومت میں بھی وقف بورڈ میں حاوی تھے۔اس دورمیں ترنمول کانگریس آفاق الزماں کے خلاف بیانات دیتے تھے۔آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آفاق الزماں غیر قانونی طریقے سے وقف بورڈ کے ممبر بنے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آفاق الزمان کے نام پر کوئی فیملی وقف اسٹیٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اسے متولی (مختلف وقف املاک کے متولیوں) نے منتخب کیا اور بورڈ میں نمائندگی دی گئی ہے۔مرکزی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آفاق الزمان نے ‘غیر قانونی طور پروقف اسٹیٹ کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔
نئے وقف ایکٹ جواب قانون کا درجہ بن گیا ہے میں جن نکات پر سب سے زیادہ اعتراض کیا جارہا ہے اس میں وقف بورڈمیں غیر مسلم ممبروں کی شمولیت ہے۔تاہم آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے سے بہت پہلے ترنمول کانگریس کے زیر اقتدار مغربی بنگال میں وقف اسٹیٹ میں ہندو عہدیداروں کو شامل کیا جاتا رہا ہے۔ سدھیر رنجن دھرا کو جلپائی گوڑی ضلع میں سربت علی محمد وقف اسٹیٹ کا متولی بنایا گیا ہے۔شنکر پرساد سین کو خزانچی بنایا گیا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف اسٹیٹ کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔
آئی بی کی رپورٹ میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے متعلق بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔1996میں ممتا بنرجی جب کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ تھیں تو انہوں نے بائیں محاذ کے دور حکومت میں وقف املاک میں گھوٹالہ کے خلاف تحریک چلائی۔انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر الزام لگایا تھا کہ مغربی بنگال میں وقف املاک پر غیرقانونی قبضہ کیا جارہا ہے۔ نتیجے کے طور پر جیوتی باسو کی قیادت والی بائیں محاذ حکومت نے کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس رنجن بھٹاچاریہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دی گئی۔یک رکنی کمیشن نے مغربی بنگال میں بڑے پیمانے وقف املاک میں لوٹ گھسوٹ کی نشاندہی کی گئی تھی۔اس وقت کمیشن نے کہا گیاتھا کہ1000 کروڑ روپے کی 160 وقف املاک کو لیز پر دینے میں بے شمار بے ضابطگیاں کی گئی۔ مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس بھٹاچاریہ کی قیادت میں کمیشن نے 31 دسمبر 2001 کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی تھی۔
2011تک مغربی بنگال میں وقف املاک میں گھوٹالہ کے خلاف مسلم تنظیمیں اور لیڈران مہم چلاتی رہی ہیں۔2011میں ممتا بنرجی نے وقف املاک میں گھوٹالہ کی سی بی آئی جانچ کا وعدہ کیا تھا مگر 15سال گزر جانے کے باوجودسی بی آئی جانچ سے متعلق کوئی حتمی بات نہیں ہے۔سی بی آئی جانچ کے بعد چند املاک کی سی آئی ڈی جانچ کی بات کی گئی مگر اس سی آئی ڈی جانچ کا کیوں ہوا؟۔اس کے بارے میں بھی حکومت کچھ کہنے سے قاصر ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بنگال کے سیاسی ماحول مایں وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ کاایشوز غائب ہوگیا۔جب کہ اس درمیان کئی وقف املاک پر قبضہ کی خبریں آتی رہی ہیں۔