لندن : انصاف نیوز آن لا ین
نومنتخب برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے جمعے کو عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’ملک میں تبدیلی ایک بٹن دبانے سے نہیں آجاتی۔‘
برطانوی عام انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق لیبر پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ لیبر پارٹی کے رہنما اور نو منتخب وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اپنی وکٹری سپیچ میں کہا ہے کہ ملک میں ’تبدیلی‘ آ گئی ہے۔
کیئر سٹارمر نے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ میں بطور وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ دنیا ’مزید غیر مستحکم‘ ہو گئی ہے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تبدیلی وقت لیتی ہے تاہم وہ اس پر جلد ہی کام شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
نو منتخب برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’اب ہمارے ملک نے تبدیلی کے لیے فیصلہ کن طور پر ووٹ دیا ہے اور اب عوامی خدمت کی سیاست کے دور کا آغاز ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ عوام کی سیاسی عمل پر اعتماد کی کمی کو الفاظ سے نہیں بلکہ عمل کرنے سے دور کیا جاسکتا ہے۔
سٹارمر نے کہا: ’چاہے آپ نے لیبر کو ووٹ دیا یا نہیں – درحقیقت اگر آپ نے نہیں دیا – میں آپ سے براہ راست کہتا ہوں، میری حکومت آپ کی خدمت کرے گی۔‘
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ملک پہلے آتا ہے اور پارٹی دوسرے نمبر پر (اہم) ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ایک ’پر امن اور صابر طریقے سے دوبارہ (ملک کو) بنائے گی۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم رشی سونک نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کو کیئرسٹارمر کو مبارک باد دی ہے اور جمعے کو اپنے حامیوں سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اب لیبر پارٹی حکومت بنائے گی۔‘
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق ابتدائی نتائج میں لیبر پارٹی کی نشستوں کی تعداد کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر نے ابتدائی نتائج کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے کر دکھایا۔‘
لندن میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے اس کے لیے مہم چلائی، آپ نے اس کے لیے لڑائی لڑی اور اب کامیابی ہو چکی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تبدیلی کا وقت ہے۔ آخر کار اس عظیم قوم کے کندھوں سے ایک بوجھ ہٹا دیا گیا۔‘
دوسری جانب برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اعتراف کیا کہ لیبر پارٹی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اپنی نشست جیتنے کے بعد رشی سونک نے اعتراف کیا ہے کہ لیبر پارٹی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
جمعے کو اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا: ’لیبر پارٹی نے یہ عام انتخابات جیتے ہیں۔ میں نے سر کیئر سٹارمر کو ان کی جیت پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے۔ آج اقتدار کی منظم انداز میں منتقلی ہو گی۔‘
سنک نے کہا کہ یہ ان کی پارٹی کے لئے ایک ’مشکل رات‘ تھی اور یہ ان کی پارٹی کے لیے ’افسوسناک‘ شکست تھی۔
سنک سے قبل ٹوریز کی وزیراعظم رہنے والی لز ٹروس بھی اپنی نشست نہیں بچا سکیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایوان زیریں کی تمام 650 نشستوں پر چار جولائی کو انتخابات کے لیے پولنگ برطانوی وقت کے مطابق صبح سات بجے سے رات دس بجے تک جاری ہے
برطانیہ میں گذشتہ روز ہونے والے جنرل الیکشن کے نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ توقع کے مطابق برطانوی لیبر پارٹی 410 نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے، اور یوں اس نے پچھلے جنرل الیکشن کے مقابلے میں 210 نشستیں زیادہ حاصل کی ہیں اور برطانوی پارلیمان میں اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔
اس کے مقابلے میں برسرے اقتدار جماعت کنزروٹیو پارٹی کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو صرف 119 نشستیں ہی حاصل کر سکی ہے۔ 1997 میں ٹونی بلیئر کی تاریخی کامیابی کے بعد برطانوی سیاسی تاریخ میں یہ لیبر پارٹی کی اب تک کی سب سے بڑی فتح ہے۔
کنزروٹیو پارٹی کی اس تاریخی شکشت میں کیی عوامل نے کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف تو بتدریج بڑھتی مہنگائی اور معاشی کساد بازاری نے برطانوی عوام کو کنزروٹیو پارٹی سے متنفر کیا تو دوسری طرف پارٹی کے 14 سالہ اقتدار کی وجہ سے لوگ اب تبدیلی کے خواہش مند تھے۔
ان تمام عوامل کی وجہ سے لیبر پارٹی نہ صرف شمالی انگلینڈ میں 2019 کے جنرل الیکشن میں اپنی کھوئی ہوئی نشستیں دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ وہ جنوبی اور مشرقی انگلینڈ کے ان علاقوں میں بھی کامیاب رہی جو کنزروٹیو پارٹی کا روایتی گڑھ رہے ہیں۔
لیبر پارٹی کے اس انتخابی سیلاب کے سامنے کنزروٹیو پارٹی کے بڑے بڑے نام بھی ٹک نہیں پائے اور اب تک نو وزرا اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ہارنے والوں میں سبق برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کنزروٹیو پارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ ان نتائج کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آنے والے دس سال اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کا اقتدار چلے گا۔
جہاں لیبر پارٹی ایک تاریخی فتح کا جشن منا رہی ہے تو وہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس کے ووٹوں کے تناسب میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔
صرف سکاٹ لینڈ میں لیبر ووٹ میں 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ انگلینڈ میں لیبر پارٹی کے ووٹوں کا تناسب جمود کا شکار رہا۔ اس کے مقابلے میں کنزروٹیو پارٹی کا ووٹ 21 فیصد گرا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتی کنزروٹیو ووٹر اپنی پارٹی کی کارکردگی سے اس قدر مایوس ہو چکا تھا کہ یا تو اس نے ووٹ ڈالنے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی یا اگر ووٹ دیا تو اس کا حقدار حزب اختلاف کے امیدوار کے امیدوار رہے۔
برطانیہ کے دفاع دفاع گرانٹ شیپس نے بھی اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’آج رات میرے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ لیبر کی جیت نہیں بلکہ کنزرویٹوز کی ہار ہے۔‘
یہاں نئی بننے والی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ریفارم پارٹی کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے بہت سے کنزروٹیو ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا اور چار نشستوں پر کامیابی بھی حاصل کی۔ اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آوٹ 60 فیصد رہا جو کہ برطانوی تاریخ میں دوسرا سب سے کم ٹرن آوٹ ہے۔
لیبر پارٹی کی جانب سے اسرائیل نواز بیانات اور پالیسی اپنانے کی وجہ سے پاکستانی برٹش کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ اس سے متنفر پایا گیا اور اس کا اظہار اس ووٹر نے لیبر پارٹی کے خلاف غزہ جنگ روکنے کے حامی امیدواروں کو ووٹ ڈال کر کیا۔
اس الیکشن میں مختلف جماعتوں کی طرف سے اور آزاد حیثیت میں دو درجن سے زائد پاکستانی نژاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ اس الیکشن میں غزہ میں جاری جنگ برطانوی مسلمانوں اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک اہم موضوع رہی۔
خاص طور سے لیبر پارٹی کی جانب سے اسرائیل نواز بیانات اور پالیسی اپنانے کی وجہ سے پاکستانی برٹش کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ اس سے متنفر پایا گیا اور اس کا اظہار اس ووٹر نے لیبر پارٹی کے خلاف غزہ جنگ روکنے کے حامی امیدواروں کو ووٹ ڈال کر کیا۔
یہی وجہ ہے کہ وو نشستیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب دس فیصد سے زیادہ تھا وہاں لیبر پارٹی کے امیدواروں کے ووٹ میں گراوٹ دیکھی گئی اور پانچ نشستوں پر لیبر کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
کنزروٹیو پارٹی کی حکومت میں برطانوی انڈین لابی نہایت مضبوط تھی اور اس کے مقابلے میں پاکستانیوں کا حکومت میں اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی برٹش کمیونٹی روایتی طور پر لیبر پارٹی کی ووٹر رہی ہے اور یوں اس کو کنزروٹیو پارٹی میں ووٹنگ بلاک کے طور پر اہمیت حاصل نہیں
اگرچہ اس بار پاکستانی ووٹوں میں بھی تقسیم دیکھی گئی ہے لیکن لیبر کی طرف سے لڑنے والے بہت سے پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ان اراکین پارلیمان میں برمنگھم سے جیتنے والی شبانہ محمود بھی شامل ہیں جو لیبر پارٹی کی صف اول کی رہنما ہیں اور نئی بننے والی کابینہ کا بھی حصہ بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔
اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابق گورنر محمّد سرور کے بیٹے انس سرور بھی لیبر پارٹی کے ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے ہیں۔
یوں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ لیبر حکومت کے آنے سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہو گی۔