انصاف نیوز آن لائن
دہلی ہائی کورٹ نے آج ہندو تنظیم کے ذریعہ دائر پی آئی ایل (عوامی مفاد کی عرضی) مسترد کر دی جس میں کشمیری رہنماؤں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گوروکی قبروں کو تہاڑ جیل سے ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔ ان دونوں کو دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں پھانسی دی گئی تھی۔ عدالت نے اس کے ساتھ ہی حکم دیا کہ ان کی باقیات کو کسی خفیہ جگہ منتقل کیا جائے تاکہ ’’دہشت گردی کی تمجید‘‘ نہ ہو۔
یہ عرضی ایک ہندو دائیں بازو کی تنظیم وشو ویدک سناتن سنگھ نے داخل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تہاڑ جیل کے اندر یہ قبریں ’’غیر قانونی، غیر آئینی اور عوامی مفاد کے خلاف‘‘ ہیں اور یہ جگہ ’’انتہا پسندوں کی زیارت گاہ‘‘ بن گئی ہے۔وکیل نے دلیل دی کہ یہ قبریں دہلی میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی دفعہ 398 کے تحت ’’پریشانی‘‘ (نُوئیَنس) ہیں کیونکہ لوگ ان کی زیارت کے بہانے جرم کرتے ہیں۔
عدالت نے اس دلیل پر سوال کیا کہ’’آپ کس قسم کی پریشانی کی بات کر رہے ہیں؟ پریشانی کے معنی سمجھیں۔ یہ تشویش کا باعث ہو سکتی ہے، لیکن اس ایکٹ کے تحت جس قسم کی پریشانی کی بات کی گئی ہے اس کے برابر نہیں۔‘‘عدالت نے کہاکہ ’’جیل عوامی جگہ نہیں ہے۔ یہ ریاست کی ملکیت ہے، ایک مخصوص مقصد کے لئے بنائی گئی ہے۔ تو پھر قبر سے کون سی توہین یا جرم واقع ہو رہا ہے؟‘‘
چیف جسٹس ڈی کے اُپادھیائے اور جسٹس تُشار راؤ گیڈیلا پر مشتمل بنچ نے عرضی گزار سے کہا کہ وہ اپنی عرضی واپس لے اور اگر چاہے تو نئی درخواست دائر کرے۔عدالت نے کہا کہ آخری رسومات کی عزت ہونی چاہیے، اس لئے قیدخانہ قوانین میں کہا گیا ہے کہ اسے سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔
عدالت نے یہ بھی کہاکہ افضل گرو کی تدفین 2013 میں ہوئی تھیں۔ اب 2025 ہے۔ آپ اب اسے پریشانی کہہ رہے ہیں۔ یہ حساس مسئلہ ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کوئی امن و قانون کی صورتِ حال نہ بنے۔ حکومت نے اس وقت فیصلہ لیا تھا، کیا ہم 12 سال بعد اسے چیلنج کر سکتے ہیں؟‘‘
عرضی گزار نے بعد میں اپنی عرضی واپس لینے اور نئی درخواست دائر کرنے پر اتفاق کیا۔، جو صرف ’’تمجیدِ دہشت گردی روکنے‘‘ پر مرکوز ہوگی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قیدخانہ کے قوانین کی وکیل کی تشریح پر سوال اٹھایا اور کہاکہ ’’قانون میں زور اس بات پر ہے کہ اگر لاش کو جیل سے باہر لے جانا ہو تو یہ وقار کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر لاش کو لازماً باہر لے جایا جائے۔‘‘
عرضی گزار نے کہا کہ **اجمل قصاب** اور **یعقوب میمن** کو جیل سے باہر دفن کیا گیا تاکہ ان کی قبریں تمجید کا ذریعہ نہ بنیں۔ لیکن تہاڑ جیل میں پھانسی پانے والے دو افراد (بٹ اور گورو) کو وہیں دفن کیا گیا، جو قانون کے خلاف ہے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ قبریں ’’قیدیوں اور ملازمین کے لئے متعدی بیماریوں کا خطرہ‘‘ پیدا کرتی ہیں۔
افضل گورو کو دسمبر 2002 میں پارلیمنٹ پر حملے (دسمبر 2001) کے مقدمے میں سازش، بھارت کے خلاف جنگ اور قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں ایک خصوصی عدالت نے انسدادِ دہشت گردی قانون (POTA) کے تحت سزا دی، جس پر بعد میں یہ الزام لگا کہ یہ عالمی معیار کے منصفانہ مقدمے کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، اسی لئے 2004 میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔
کئی کارکنوں اور وکلاء جیسے نندتا ہکسار اور ارون دھتی رائے نے گورو کے حق میں مہم چلائی تھی اور کہا تھا کہ ان کے مقدمے میں جھوٹے شواہد، پولیس کی بدنیتی اور قانونی مدد کی کمی شامل تھی۔
اسی طرح،محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو اندرا گاندھی حکومت نے تہاڑ جیل میں پھانسی دی۔ اس سے صرف پانچ دن پہلے جے کے ایل ایف کے ایک گروپ نے برطانیہ میں بھارتی سفارت کار روندرا مھاٹرے کو قتل کیا تھااس کے بعد کشمیر میں زبردست غصہ بھڑک گئی تھی۔
مقبول بٹ کو 1966 میں سی آئی ڈی افسر کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ 1968 میں وہ پاکستان بھاگ گئے، لیکن 1976 میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ 1978 میں سپریم کورٹ نے ان کی سزا برقرار رکھی۔