Tuesday, July 1, 2025
homeاہم خبریںدہلی یونیورسٹی نے پوسٹ گریجوٹ کے نصاب سےاسلام ، پاکستان اور...

دہلی یونیورسٹی نے پوسٹ گریجوٹ کے نصاب سےاسلام ، پاکستان اور چین سے متعلق چیپٹر خارج

دہلی یونیورسٹی کے نصاب میں ترمیم پر تعلیمی برادری منقسم ہے۔

نئی دہلی : انصاف نیوز آن لائن

دہلی یونیورسٹی نے پوسٹ گریجوٹ کے نصاب سے اسلام، پاکستان اور چین سےمتعلق اسباق کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔یونیورسٹی کے اس فیصلے پر تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد نے سخت تنقید کی ہے۔قائمہ کمیٹی برائے تعلیمی معاملات نے پوسٹ گریجویٹ پولیٹیکل سائنس کے نصاب سے متعدد مجوزہ نصابی اسباق کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہٹائے گئے مضامین میں اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، عصری دنیا میں چین کا کردار اور پاکستان میں ریاست اور معاشرہ شامل ہیں۔

مذہبی قوم پرستی اور سیاسی تشدد کے عنوان سے ایک اور چیپٹرکو یکم جولائی کو ہونے والی آئندہ کمیٹی کے اجلاس میں نظرثانی کے لیے روک دیا گیا ہے۔

متعدد کمیٹی ممبران نے اس پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ پروفیسر مونامی سنہا نے سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اس تبدیلی کو نظریاتی سنسرشپ کا عمل قرار دیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے چیپٹرکو ہٹانے سے اہم تعلیمی تحقیقات کو نقصان پہنچے گا ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب علاقائی جغرافیائی سیاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

پروفیسر سنہا نے کہاکہ ہم نے دلیل دی کہ پاکستان اور چین کا تفصیل سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ ان جغرافیائی سیاسی حقائق کو نظر انداز کرنا علمی طور پر نا اندیشی ہوگی‘‘۔

اس نے نظرثانی شدہ سوشیالوجی اور جغرافیہ کے نصاب سے ذات پات، فرقہ وارانہ تشدد، اور ہم جنس تعلقات کے حوالہ جات کو ہٹانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

دوسری طرف کچھ اراکین نے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نصاب ’’ایجنڈا پر مبنی‘‘ ہے اور اس میں توازن کا فقدان ہے۔ کمیٹی کے رکن پروفیسر ہریندر تیواری نے عنوانات کے انتخابی شمولیت پر سوال اٹھایا۔”انہوں نے کہا کہ صرف اسلام اور بین الاقوامی تعلقات پر ایک مقالہ کیوں؟ ہندو ازم یا سکھ ازم پر کیوں نہیں؟‘‘۔

ان کے مطابق، کمیٹی کا مقصد ایک ایسا نصاب تیار کرنا ہے جو ’’ہندوستان پر مبنی‘‘اور غیر جانبدارانہ ہو، جو قومی تعلیمی مفادات کو پورا کرتا ہو۔تیواری نے واضح کیا کہ ہٹائےگئے کورسز کو اس وقت تک بحال نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ ہندوستان کے پہلے تعلیمی تناظر کے مطابق نہ ہوں۔

موضوع ابھی تک غیر حل شدہ ہے، اور 1 جولائی کو ہونے والی آئندہ میٹنگ میں نظر ثانی شدہ نصاب پر مزید غور و خوض کی توقع ہے۔

اس مسئلے نے نہ صرف کمیٹی کے اندر ایک تقسیم کو جنم دیا ہے بلکہ اس نے اعلیٰ تعلیم میں تعلیمی آزادی، شمولیت اور سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں بھی وسیع تر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

جیسے جیسے یہ بحث چھڑ رہی ہے، طلباء اور اساتذہ اس بات کی وضاحت کے منتظر ہیں کہ دہلی یونیورسٹی کا نصاب آخر کار کیا رخ اختیار کرے گا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین