نئی دہلی: ہنومان جینتی کے جلوس میں پتھراؤ کے بعد بھڑکنے والے تشدد کے سلسلے میں ہفتہ کو شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 14 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولس حکام نے اتوار کو یہ جانکاری دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ کی شام کو دو فرقوں کے لوگوں کے درمیان پتھراؤ ہوا اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ تشدد میں ایک سینئر پولیس افسر اور ایک سب انسپکٹر گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ویسٹ) نے ۔ اوشا رنگنانی نے کہا کہ ہفتہ کو دفعہ 307 (قتل کی کوشش)، 120B (مجرمانہ سازش)، تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی 147 (فساد) اور آرمس ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ رنگنانی نے کہاکہ “ایف آئی آر کے سلسلے میں اب تک نو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ بعد میں انہوں نے مزید کہا کہ پانچ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ گرفتاری صرف ایک فرقے کے لوگوں کی ہوئی ہے۔ جب پولیس سے اس بارے میں دریافت کیا گیا کہ تمام گرفتاریاں صرف ایک طبقے کے لوگوں کی کیوں ہوئی ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ یہ ابھی ابتدائی کاروائی ہے اور جانچ کے بعد بے قصوروں کو چھوڑ دیا جائے گا اور دوسرے طبقے کے لوگ اگر مجرم پائے جائیں گے تو انھیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔
رنگنانی کے مطابق تشدد میں کل نو افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک شہری شامل ہیں اور سبھی کا بابو جگجیون رام میموریل ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے بتایا کہ ایک سب انسپکٹر گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے اور اس کی حالت مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتوار کی صبح جہانگیر پوری میں پولیس کی ایک بڑی فورس موقع پر موجود تھی اور صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے ایک فوری ٹاسک فورس کو بھی تعینات کی گئی ہے۔ رنگنانی کے مطابق اس وقت علاقے میں حالات معمول پر ہیں۔ ایک اور پولیس افسر نے کہا ’’افراتفری پھیلانے میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے ڈرون اور چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کی مدد لی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جائے وقوعہ اور آس پاس نصب سی سی ٹی وی کیمروں اور موبائل فونز میں ریکارڈ ہونے والی فوٹیج کی چھان بین کی جارہی ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے، قومی راجدھانی کے باقی تمام اضلاع میں حفاظتی انتظامات کو بڑھا دیا گیا ہے اور ٹکنالوجی کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی: ہنومان جینتی کے جلوس میں پتھراؤ کے بعد بھڑکنے والے تشدد کے سلسلے میں ہفتہ کو شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 14 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولس حکام نے اتوار کو یہ جانکاری دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ کی شام کو دو فرقوں کے لوگوں کے درمیان پتھراؤ ہوا اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ تشدد میں ایک سینئر پولیس افسر اور ایک سب انسپکٹر گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ویسٹ) نے ۔ اوشا رنگنانی نے کہا کہ ہفتہ کو دفعہ 307 (قتل کی کوشش)، 120B (مجرمانہ سازش)، تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی 147 (فساد) اور آرمس ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ رنگنانی نے کہاکہ “ایف آئی آر کے سلسلے میں اب تک نو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ بعد میں انہوں نے مزید کہا کہ پانچ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ گرفتاری صرف ایک فرقے کے لوگوں کی ہوئی ہے۔ جب پولیس سے اس بارے میں دریافت کیا گیا کہ تمام گرفتاریاں صرف ایک طبقے کے لوگوں کی کیوں ہوئی ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ یہ ابھی ابتدائی کاروائی ہے اور جانچ کے بعد بے قصوروں کو چھوڑ دیا جائے گا اور دوسرے طبقے کے لوگ اگر مجرم پائے جائیں گے تو انھیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔
رنگنانی کے مطابق تشدد میں کل نو افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک شہری شامل ہیں اور سبھی کا بابو جگجیون رام میموریل ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے بتایا کہ ایک سب انسپکٹر گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے اور اس کی حالت مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتوار کی صبح جہانگیر پوری میں پولیس کی ایک بڑی فورس موقع پر موجود تھی اور صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے ایک فوری ٹاسک فورس کو بھی تعینات کی گئی ہے۔ رنگنانی کے مطابق اس وقت علاقے میں حالات معمول پر ہیں۔ ایک اور پولیس افسر نے کہا ’’افراتفری پھیلانے میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے ڈرون اور چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کی مدد لی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جائے وقوعہ اور آس پاس نصب سی سی ٹی وی کیمروں اور موبائل فونز میں ریکارڈ ہونے والی فوٹیج کی چھان بین کی جارہی ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے، قومی راجدھانی کے باقی تمام اضلاع میں حفاظتی انتظامات کو بڑھا دیا گیا ہے اور ٹکنالوجی کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کے بعد ضروری اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کے بعد ضروری اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
تاہم سی بلاک میں ہی ایک دکان کے مالک مکیش نے کہا کہ اس علاقے کا امن تباہ کرنے والے ضرور باہر سے ہوں گے۔
‘میں اس علاقے میں 35 سال سے رہ رہا ہوں مگر کبھی بھی ایسا تشدد نہیں دیکھا۔ یہاں ہندو اور مسلمان پرامن انداز میں رہتے ہیں۔’
نئی دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانہ کا کہنا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں اور موقع پر اضافی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ دلی کے تمام حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔‘
پولیس کمشنر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیئر افسران کو فیلڈ میں رہنے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
انھوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں اور جھوٹی خبروں پر دھیان نہ دیں۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر منافرت بھرے پیغامات کی بھرمار دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ دلی میں سنہ 1984 کے بعد سے کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا لیکن امت شاہ کو ملک کا وزیر داخلہ بنے ابھی تین سال ہوئے ہیں اور دلی میں دو بار فسادات ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں دس اپریل کو ہندو تہوار رام نوامی پر پھوٹنے والے فسادات کے بعد وہاں متعدد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔
انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد پریشان کن تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے پیلے رنگ کے بلڈوزر گھروں کو مسمار کر رہے ہیں اور ان گھروں کے مکین بے بسی سے نم آنکھوں کے ساتھ یہ سب کچھ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔
ان واقعات اور تصاویر نے انڈیا میں غم و غصے کی بحث کو جنم دیا ہے اور ناقدین اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی، جو مدھیہ پردیش میں بھی برسراقتدار ہے، کی طرف سے انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کا مشترکہ بیان
دریں اثنا انڈین میڈیا کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انڈیا میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے والوں کو ’سرکاری سرپرستی حاصل ہے‘ اور ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
اس پر دستخط کرنے والوں میں حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کے سربراہان شامل ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے علاوہ ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ قابل ذکر ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کھانے، پینے، لباس، عقائد، تہوار اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر حکمراں جماعت کی جانب سے دانستہ طور پر معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے ایسے ماحول میں وزیر اعظم کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں۔