Monday, December 15, 2025
homeاہم خبریںپارلیمنٹ میں ’بندے ماترم‘ کی بحث

پارلیمنٹ میں ’بندے ماترم‘ کی بحث

عبدالعزیز
”بندے ماترم“ بنگالی اور دیوناگری لفظ ہے جس کے معنی ہیں ”اے مادرِ وطن میں سر جھکائے ، ہاتھ جوڑے تیری تعظیم بجا لاتا ہوں“۔ یہ ایک نظم ہے جسے بنگالی زبان کے مصنف بنکم چندر چٹو پادھیائے کے ناول ”آنند مٹھ“ سے لی گئی ہے۔ یہ نظم1882ءمیں شائع ہوئی تھی۔ یہ بنگالی اور سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ مادرِ وطن کو مذہب کا درجہ دیتی ہے۔ اسے تحریک آزادی ہند میں خوب پڑھا گیا اور پہلی دفعہ رابندر ناتھ ٹیگور نے 1896ءکے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں اسے گایا۔

اگر ایک مسلمان وندے ماترم کے ترجمہ پر ہی غور کر لے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ یہ اسلام کے اصل عقیدہ¿ توحید کے خلاف ہے۔ وندے ماترم کامستند اردو ترجمہ پیش ہے اس یقین کے ساتھ کہ ’نقل کفر کفر نہ باشد‘:

”تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی بھینی خشک جنوبی ہواو¿ں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں، حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی ، میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں اے میری ماں ، تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے والی تلواریں، کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں ، تو ہی میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں ، تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے ، تو ہی جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے ، تیری ہی محبوب مورتی مندر میں ہے ، تو ہی درگا، دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملاہے، تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے ، تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے ، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں ، غلام کے غلام کا غلام ہوں ، اچھے پھل والی میری ماں، میں تیرا بندہ ہوں، لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ پےراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں ، میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں میں تیرا غلام ہوں“۔ (یہ اردو ترجمہ، آل انڈیا دینی، تعلیمی کونسل لکھنو¿ کا شائع شدہ ہے)-

ہندستان کے مشہور عالم دین اور صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اپنی کتاب جدید فقہی مسائل میں ”وندے ماترم“ سے متعلق لکھتے ہیں:
”بد قسمتی سے اس وقت ہندستان پر بتدریج فرقہ پرستی کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے، فرقہ پرست سیاسی جماعتیں بر سراقتدار آ رہی ہیں اور انہوں نے بعض ریاستوں میں ایک ایسے ترانہ کو پڑھنے کا لزوم عائد کر دیا ہے جو مشرکانہ تصور پر مبنی ہے، میری مراد وندے ماترم سے ہے، یہ سنسکرت زبان کا فقرہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنے مادر وطن کا پرستار ہوں اور اس کی عبادت کرتا ہوں، حب الوطنی بری چیز نہیں اور اگر انصاف کے دائرہ میں ہو تو اسلام اسے پسند کرتا ہے یہ ایک فطری جذبہ ہے اور خدا ہی کی طرف سے ہر انسان کے اندر ودیعت ہے، لیکن اسلام میں خدا کے سوا کسی کی پرستش نہیں کی جاسکتی اور بندگی صرف خدا ہی کے لئے ہے اس لئے اسلامی نقطہ نظر سے اس طرح کے اشعار کا پڑھنا اور ان کو قبول کرنا قطعاً جائز نہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ برادرانِ وطن کو سمجھایا جائے کہ مسلمانوں کے لئے یہ محض ایک قومی اور ملکی مسئلہ نہیں اور نہ ہم اس کو انا اور وقار کا مسئلہ بنا رہے ہیں بلکہ اس کی جڑیں ایمان و عقیدہ میں پیوست ہیں اور کسی مسلمان کو ایسا کہنے پر مجبور کرنا گویا ان کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے مذہب و عقیدہ سے دست کش ہو جائیں اور یہ ظاہر ہے کہ ملک کا کوئی بھی سنجیدہ اور انصاف پسند شہری جو ملک کے رنگا رنگ مذہبی اور تہذیبی کردار کو باقی رکھنا چاہتا ہو ایسی کوشش کو ناپسندیدگی ہی کی نظر سے دیکھے گا“۔ (جدید فقہی مسائل،ج:1،ص:314،ط:زمزم پبلشرز)
فتاوی محمودیہ میں ہے:

وندے ماترم اور ترانہ:سوال [11459] : مسلم یونیورسٹی اور دینی مدارس وغیرہ میں کانگریس نے جو مسلم اور اسلام دشمن رویہ اختیار کیا ہے اس میں مسلمانوں نے فتوی کانگریس کے خلاف اور مسلم لیگ کے حق : میں دیا، کیوں کہ وہ ان تمام مسائل کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ وندے ماترم ایک ایسا ترانہ ہے جس کے متعلق پہلے بھی علمائے کرام کی طرف سے یہ فتوی صادر کیا جا چکا ہے کہ یہ ترانہ مسلمانوں کے عقائد کے برعکس شرک کی تعلیم دیتا ہے، لہٰذا اس کاپڑھنا اور اس پر راضی ہونا وغیرہ درست نہیں۔

مہاراشٹر اسمبلی میں کانگریس حکومت کے وزیر داخلہ نے فرمایا کہ وندے ماترم ہر ایک کے لئے لازم ہے اور کسی بھی فرقہ کو خواہ مسلمان ہو یا اور کوئی اس وجہ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے، اس وجہ سے کہ یہ قومی ترانہ ہے، اگر چہ قومی ترانہ نہیں بلکہ جن گن من ہے جو اس کی مخالفت کرے گا ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے ، اس طرح 18 مارچ کے ’پرتاپ، دعوت‘ وغیرہ اخبار میں ہے اس دیش میں رہنا ہے تو وندے ماترم گانا ہوگا، بمبئی یوتھ کانگریس کی مسلمانوں کو وارنگ اسمبلی کے اندر مسلمانوں کی موجودگی میں یہ ترانہ پڑھا گیا تو ہم علماءکرام سے اسی وجہ سے چند سوالات کرنا چاہتے ہیں۔

1)وندے ماترم کا گانا یا اس پر راضی ہونا یا اس پارٹی کی حمایت کرنا یہ امر بھی جائز ہے یا نہیں….؟
الجواب حامداً ومصلیاً:
1۔ اول تو یہ ترجمہ اصل ترانہ کے انگریزی ترجمہ کا ترجمہ ہے، جب تک اصل الفاظ ترانہ کے سامنے نہ ہوں کوئی قطعی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی ، پیش نظر ترجمہ کے الفاظ کا جہاں تک تعلق ہے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترانہ محض سیاسی انداز کا نہیں ہے، بلکہ اس میں مذہبی رنگ غالب ہے اور غیر متوازن و غیر معتدل محبت و عقیدت کا حامل جو اسلامی عقائد کے نظریات سے میل نہیں کھاتا ، بلکہ متصادم ہے اور اسلام جو مزاج بنانا چاہتا ہے اس کے خلاف ہے اور بعض جملے موہم شرک بھی ہیں ، اس لئے مسلمانوں کو ان سے اجتناب و پر ہیز لازم ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو اس سے قانو ناً وعملاً مستثنیٰ کرائیں“۔

نظم ’بندے ماترم‘ کی ایک 150ویں سالگرہ کے موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی تجویز پر پارلیمنٹ میں دس گھنٹے کے لئے بحث کی گئی ۔ اس پر لوک سبھا میں حکمراں جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بشمول نریندر مودی نے اس بحث سے نہ صرف ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ کئی تیر چلانے کی سعی کی تھی مگر سنگھ پریوار کی قیادت اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوئی اور بھری بزم میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست ہزیمت ہوئی۔ خاص طور پر محترمہ پرینکا گاندھی نے نہ صرف نریندر مودی کی بلکہ سنگھ پریوار والوں کی غلطیوں کو اجاگر کیا اور ان کی تقریروں کا بھی مذاق اڑایا۔ پرینکا گاندھی نے کہاکہ ”مودی جی اچھا بولتے ہیں مگر ان کی تقریروں میں حقائق کمزور پڑجاتے ہیں۔ ان کے بقول وزیر اعظم معلومات کو کس طرح توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں یہ ان کی فن کاری ہے مگر وہ خود عوام کے نمائندہ ہیں کوئی فن کار نہیں“۔

پرینکا گاندھی نے بندے ماترم کی بحث کو بے مقصد اور لایعنی بتایا اور کہاکہ ”یہ بحث دو وجہوں سے کی جارہی ہے۔ ایک وجہ ہے مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی کا انتخاب اور دوسری وجہ ہے کانگریس کو نیچا دکھانا۔ کانگریس کے اجلاس میں رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ نظم اس وقت پڑھی تھی جس وقت آزادی کے تمام بڑے مجاہدین موجود تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ آزادی کی لڑائی میں سنگھ پریوار کا اَتہ پتہ نہیں تھا بلکہ یہ لوگ انگریزوں کے وفادار اور مخبر تھے“۔ اپوزیشن کے دیگر لیڈروں نے بھی حکمراں جماعت کے لیڈروں کا مذاق اڑایا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی ایسے لیڈر تھے جو بنکم چندر چٹو پادھیائے کا نام تک صحیح طریقے سے نہیں لے پارہے تھے۔

مودی جی نے بھی بنکم چندر چٹو پادھیائے کو ’بنکم دادا ‘ کہہ کر خطاب کیا جس پر پارلیمنٹ میں انھیں معافی بھی مانگنی پڑی۔نریندر مودی کے بنکم دادا بولنے پر ترنمول کے لیڈروں نے سخت مخالفت کی اور ان کے نام کے ساتھ ’بابو‘ لگانے پر زور دیا۔ مودی جی کو شرمندگی اٹھانی پڑی اور اپنی غلطی پر معذرت کی۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کو یہ اندازہ ہوتا کہ بحث میں ان کو ذلت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا تو شاید پارلیمنٹ میں بندے ماترم پر بحث کرنے سے پرہیز کرتے۔

’جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس‘ کے ایم پی آغا سید روح اللہ مہدی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ نظم بندے ماترم مسلمانوں کے مذہب کے خلاف ہے اور ان کی مذہبی شناخت پر ضرب لگاتی ہے۔ انھوںنے کہاکہ دستور ہند میں مذہبی آزادی اور مذہبی شناخت رکھنے کی اجازت ہے۔ اور یہ نہ صرف ایک دو مذاہب کو نہیں بلکہ ہر مذہب کو ۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں ہندوو¿ں نے ہندستان کو خیر باد کہا اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی قومیت کو اپنایا لیکن نہ انھوں نے اپنے ہندو مذہب کو خیر باد کہا اور نہ ہندو شناخت کو چھوڑا۔ جناب مہدی صاحب نے کہاکہ آدھار کارڈ یا ووٹر کارڈ ہماری قومی شناخت ہے جسے ہم اپنی موت کے بعد چھوڑ کر چلے جائیں گے لیکن ہم اپنے عقیدے اور مذہب کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ ساتھ لے جائیں گے۔

جہاں تک بندے ماترم گیت یا نغمے کا سوال ہے تو آپ خوشی سے گائےے ہماری طرف سے کوئی مخالفت نہیں ہے بلکہ کھڑا ہونے کی بات ہے تو ہم کھڑے بھی ہوجائیں گے لیکن اس نغمے کو جو اسلام مخالف ہے اسے گانے میں ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جناب مہدی صاحب نے نہایت حق گوئی اوربے باکی سے دلائل کے ساتھ ہندستانی مسلمانوں کی ترجمانی کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک تیر سے تین شکار کرنا چاہتی تھی۔ دو شکار کا ذکر پرینکا گاندھی نے کیا لیکن تیسرا تیر بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں پر چلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ تیر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے سینے میں پیوست ہوگیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں کئی اسباق ملتے ہیں۔ اس قصے سے قرآن حکیم ایک گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہر حال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا“۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین