Wednesday, March 12, 2025
homeاہم خبریںشاہد اعظمی کی15ویں برسی: شاہداعظمی جمہوریت اور انسانی حقوق کے شہداء کے...

شاہد اعظمی کی15ویں برسی: شاہداعظمی جمہوریت اور انسانی حقوق کے شہداء کے درمیان آج بھی کھڑے ہیں

شاہد اعظمی کی موت لاقانونیت اور ریاست کی جابرانہ مشینری کو چیلنج کرنے والوں کو منصوبہ بند طریقے سے خاموش کرنے کی نشاندہی کرتی ہے

فدا فاطمہ

میں سو بار مر چکا ہوں، اور اگر موت دستک دے کر آئی تو میں اسے آنکھوں میں دیکھوں گا“۔

یہ الفاظ ہیں بہادرشہید وکیل شاہد اعظمی کے، جنہیں 15 سال قبل آج کے ہی دن ممبئی کے کرلا ٹیکسی مین کالونی میں ان کے چیمبر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

”انصاف کے لیے جدو جہد‘کرنے والے‘ کے نام سے جانے جانے والے شاہد اعظمی صرف 32 سال کے تھے جب انہیں ادارہ جاتی نا انصافی کے خلاف جدوجہد اور ان کے عزم کے پاداش میں گولیوں نے ان کے سینے کو چھید کردیا تھا۔

11 فروری 2010 کو ممکنہ کلائنٹ کے بھیس میں حملہ آوروں نے انہیں گولی ماردی۔انہیں اسپتال لے جایا گیا، مگر ڈاکٹروں مردہ قرار دے دیا۔

ممبئی کے شیواجی نگر میں پیدا اور پرورش پانے والے شاہد اعظمی کم عمر میں ہی اپنے والد کے سایے سے محروم ہوگئے۔ 16 سال کی عمر اور 1992 کے ممبئی مسلم کش فسادات اور ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات سے وہ بہت ہی متاثر ہوئے۔وہ ان حالات سے مایوس ہوکر ممبئی چھوڑ کر کشمیر میں علاحدگی پسند تنظیم میں شامل ہو گئے، لیکن چند ہی مہینوں میں انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ممبئی واپس آ گئے۔

بعد ازاں، اعظمی کو 1994 میں دہلی پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) نے ہندوستان میں ایک ممتاز سیاست دان کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ شاہد اعظمی نے سات سال جیل میں گزارے یہاں تک کہ وہ تمام الزامات سے بری ہو گئے اور 2001 میں انہیں رہا کردیا گیا۔
اعظمی نے بعد میں انکشاف کیا کہ ریمانڈ کے دوران انہیں دہلی پولیس نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور جھوٹے بیانات کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا۔

تہاڑ جیل میں ایک ایسے جرم کے لیے مقدمے کی سماعت کا انتظار کرتے ہوئے جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔انہوں نے اپنی 12ویں جماعت کی تعلیم مکمل کی اور آرٹس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی بریت کے بعد، وہ ممبئی واپس آئے اور کے سی کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے اپنی وکالت کے پیشے کا آغاز انصاف فراہم کرنے کے عزم کے ساتھ کیا اور بہت ہی جلد ان کی شہرت ایک ایسے وکیل کے طور پر ہونے لگی جو دادارہ جاتی نا انصافی کے نتیجے میں دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند بے قصور افراد کا مقدمہ لڑنے والے کے طور پر ہونے لگی۔

2008 میں، اعظمی نے جیل سپرنٹنڈنٹ سواتی ساٹھے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں ان پر 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے ملزمان پر تشدد کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد کی انکوائری نے الزامات کی تصدیق کی۔اس مقدمے کی وجہ سے شاہد اعظمی کی شہرت بلندی پر پہنچ گئی۔

اپنی سات سالہ وکالت کے دوران شاہدا عظمی نے متعدد ایسے ہائی پروفائل مقدمے میں پیروی کی جنہیں دہشت گردی کے الزام میں جیل میں بند کردیا گیا تھا۔

ان میں قابل ذکر فہیم انصاری تھا، جسے ممبئی کرائم برانچ نے 26/11 کے حملوں کے دوران مبینہ طور پر پاکستانی عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
فروری 2010 میں شاہد اعظمی کی موت کے چند ماہ بعد، مئی 2010 میں عدالت نے انصاری کو 12 سال کی نظربندی کے بعد بری کر دیا تھا۔ مرحوم شاہد اعظمی، جنہوں نے اس مقدمے کو بہت ہی بہادری سے لڑا تھا مگر جب وہ اس لمحے کا گواہ بننے کیلئے دنیا میں موجود نہیں تھے۔

ایک امریکی شہری اور فوجداری دفاعی وکیل، رائے بلیک کے الفاظ میں شاہد اعظمی کی زندگی کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”مجھے ناانصافی دکھا کر، اس نے مجھے انصاف سے محبت کرنا سکھایا۔ مجھے یہ سکھا کر کہ درد اور ذلت کیا ہے، اس نے میرے دل کو رحم کے لیے بیدار کیا۔ ان مشکلات سے میں نے سخت سبق سیکھے۔ تعصب کے خلاف لڑو، ظالموں سے لڑو، کمزوروں کا ساتھ دو“۔شاہد نے کئی سالوں تک دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیل میں بند درجنوں مسلم نوجوانوں کو رہا کرانے کی کوشش کی۔ان میں بیشتر وہ لوگ تھے اگر شاہد اعظمی ان کا کیس نہیں لڑتے تو وہ زندگی بھرجیلوں میں ہی زندگی گزار دیتے

شاہد اعظمی 2002 کے گھاٹ کوپر بم دھماک، 7/11 ممبئی ٹرین دھماکے، 2006 کے اورنگ آباد ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی، اور 2006 کے مالیگاؤں بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے کیس لڑا اور انہیں انصاف فراہم کیا۔

انہوں نے بطور وکیل صرف سات سالوں میں دہشت گردی کے الزام میں 17 افراد کو بری کر دیا، جس میں 2006 کے مالیگاؤں دھماکوں میں 9 مسلم مردوں کو 2016 میں بری کرنا بھی شامل ہے۔

جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے باوجود، شاہد نے اپنی زندگی جوش اور حوصلے کے ساتھ گزاری۔انہوں نے ایسے افراد کو انصاف فراہم کرنے کا عزم کیا جو نظام کے جبر کے شکار تھے اور اس کیلئے انہوں نے اپنی جان کی بھاری قیمت ادا کی۔

شاہد اعظمی کے قتل کے الزام میں دیویندر جگتاپ، پنٹو دگالے، ونود وچارے، اور ہس مکھ سولنکی — کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 120B (مجرمانہ سازش) اور 452 (گھروں میں گھسنا، چوٹ پہنچانے، حملہ کرنے کی تیاری کے بعد) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گولہ بارود)، 25 (بعض جرائم کی سزا)، اور 27 (اسلحہ استعمال کرنے کی سزا، وغیرہ) آرمس ایکٹ۔ ان چاروں افراد کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ایک اور ملزم، گینگسٹر سنتوش شیٹی، جو ڈان چھوٹا راجن کا سابق ساتھی تھا، کو 2014 میں کیس سے بری کر دیا گیا تھا۔اب تک اڑتیس گواہوں پر جرح ہو چکا ہے، اور استغاثہ مزید پیش کرے گا۔ امید ہے کہ مقدمے کی سماعت جلد ہی مکمل ہو جائے گی۔
شاہد اعظمی معاملے کے وکیل نوشاد احمد نے کہا کہ امید ہے کہ انصاف ملے گا۔

شاہد کے کام اور وراثت نے ملک بھر میں سینکڑوں نوجوانوں کو ایک کیریئر کے طور پر قانون کے شعبے کو اپنانے اور جھوٹے الزامات میں گرفتار افرادکے مقدمات کی پیروی کرنے کی ترغیب دی
شاہد کے چھوٹے بھائی خالد اپنے بھائی سے متاثر ہو کروکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں وہ بھی ان لوگوں کے لیے لڑ رہے ہیں جن کی شاہد اصل میں نمائندگی کرتا تھا۔ان جان کو بھی مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔اپریل 2011 میں انڈر ورلڈ گینگز کے ذریعے قتل کی مبینہ سازش اور ایک اسسٹنٹ رجسٹرا کی طرف سے دھمکی بھی شامل ہے۔مگر خالد اعظمی شاہد اعظمی کے طے کردہ راستے پر گامزن ہے۔

خالد اعظمی اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہی کہ
وہ میرے لیے سب کچھ رہا ہے۔ اس نے ہر چیز میں میرا ساتھ دیا ہے، اور اس نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا،“

ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں 9 سال بعد بری ہونے والے عبدالواحد شیخ نے اب قانون کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ان کو بھی رہاکرانے میں شاہد اعظمی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔عبد الواحد شیخ اب جھوٹے الزامات میں گرفتار افراد کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جن میں ان کے ساتھ 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکے کے کیس کے دیگر بارہ ملزمان بھی شامل ہیں۔

واحد شیخ اور جھوٹے ملزموں کے خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے قائم کی گئی ایک این جی او انوسینس نیٹ ورک کے زیر اہتمام 8 ویں ایڈووکیٹ شاہد اعظمی میموریل لیکچر میں مقررین نے الزام لگایا تھاکہ شاہد کا قتل اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کرنے میں گہری ریاست کی مداخلت کی علامت ہے۔

واحد شیخ کہتے ہیں کہ
شاہد اعظمی کی موت لاقانونیت اور ریاست کی جابرانہ مشینری کو چیلنج کرنے والوں کو منصوبہ بند طریقے سے خاموش کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ شاہد جمہوریت اور انسانی حقوق کے شہداء کے درمیان کھڑے ہیں۔
شاہد اعظمی ایک ایسے نظام کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے جو انصاف کو دبانا چاہتا ہے۔

15 سال گزرنے کے بعد بھی، شاہد اعظمی کی میراث نظامی جبر کے خلاف جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین