Tuesday, October 14, 2025
homeاہم خبریںدوائیوں پر جی ایس ٹی کی شرح میں کمی۔کیا عو ام کو...

دوائیوں پر جی ایس ٹی کی شرح میں کمی۔کیا عو ام کو اس کا فائدہ ملے گا؟

درحقیقت لوگ ادویات اور طبی آلات پسند کی وجہ سے نہیں بلکہ مجبوری میں خریدتے ہیں۔بیمار افراد مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ تاہم 2017 میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سے، دوائیاں اور طبی آلات مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فواد حلیم

جی ایس ٹی کونسل کے حالیہ اعلان کے مطابق 33 ادویات کو صفر فیصد (Nil Category) میں اور باقی تمام ادویات و طبی آلات کو 5 فیصد والے زمرے میں شامل کیا ہے یہ ایک نہ صرف ناکافی قدم ہے بلکہ بہت دیر سے اُٹھایا گیا ؤقدم بھی ہے۔

جن33 ادویات کو صفر فیصد جی ایس ٹی میں رکھا گیا ہے وہ ایسی دوائیاں ہیں جسے عام ایم بی بی ایس یا اسپیشلسٹ ڈاکٹرز بہت کم مریضوں کیلئے تشخیص کرتے ہیں۔یہ دوائیاں چند سپر اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہی ان مریضوں کیلئے تشخیص کرتے ہیں جو نایاب بیماریوں کے شکار ہیں۔ان میں سے زیادہ تر دوائیاں بھارت میں تیار بھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ درآمد کی جاتی ہیں۔ ان کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں اور جی ایس ٹی کی کمی کے باوجود یہ مریضوں کی پہنچ سے باہر رہے۔ اصل ریلیف اسی وقت ممکن ہوگا جب حکومتِ ہند ان ادویات کی ملک کے اندر تیاری کو لازمی لائسنسنگ اور پیٹنٹ قوانین پر نظرثانی کے ذریعے ممکن بنائے۔

2) جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل کئی ریاستی حکومتوں نے بہت سی دوائیوں پر ٹیکس معاف کررکھا تھا۔ایسی دوائیوں کی فہرست صفر جی ایس ٹی والی 33دوائیوں کی فہرست سے کہیں زیادہ تھی۔

3) دیگر تمام ادویات و طبی آلات پر ٹیکس کو 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردیا گیا ہے۔تاہم اس کا فائدہ عارضی ہوگا اور 22 ستمبر 2025 سے 31 مارچ 2026 تک ہی اس قیمت کم رہے گی کیوں کہ حکومت نے دوا ساز کمپنیوں کو ڈرگ پرائس کنٹرول آرڈر (DPCO) کے تحت ہر سال اپریل میں 10 فیصد تک قیمتوں میں اضافہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔اس طرح اپریل 2026 میں یہ کمپنیاں قیمتیں بڑھا کر جی ایس ٹی کم ہونے کا فائدے کو ختم کرسکتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مضبوط DPCO لایا جائے اور نیشنل لسٹ آف ایسینشل میڈیسنز (NLEM) میں عوامی صحت کے لیے زیادہ دوائیوں کو شامل کی جائیں۔ نیز ایم آر پی کا حساب دوبارہ ”ہاتھی کمیشن“ کی سفارشات کے مطابق پیداواری لاگت پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ بڑی کمپنیوں کے مارکیٹ ویلیو پرمقرر کیا جائے۔

4) دوائیاں اور طبی آلات لوگ اپنی پسند سے نہیں بلکہ مجبوری میں خریدتے ہیں۔ اصولی طور پر بیمار افراد سے حکومت کو محصول وصول نہیں کرنا چاہیے۔ 2017 سے جی ایس ٹی نظام کے تحت حکومت مرکزی و ریاستی سطح پر مریضوں سے بھاری ٹیکس سے آمدنی کی جارہی ہے، حالانکہ علاج کی سہولت دینے میں ناکام رہی ہے۔

5) جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ہر اپریل میں حکومت کمپنیوں کو 10 فیصد قیمت بڑھانے کی اجازت دیتی ہے، اس سے 7 فیصد جی ایس ٹی کمی کا فائدہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2026-27 میں 5 فیصد جی ایس ٹی سے وصولی 2018-19 کے مقابلے میں زیادہ ہوگی جب 12 فیصد ٹیکس نافذ تھا۔

6) کیا واقعی صارفین کو ان فیصلوں سے فائدہ ہوگا؟ ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ چونکہ موجودہ ادویات پر پہلے سے 12 فیصد جی ایس ٹی شامل شدہ ایم آر پی چھپی ہوئی ہے اور یہ ادویات 2028 تک کی میعاد کے ساتھ مارکیٹ میں تقسیم ہو چکی ہیں، اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ کمی کا فائدہ کس طرح صارف تک پہنچے گا۔ خدشہ ہے کہ فارما کمپنیاں یہ فائدہ خود ہضم کر لیں گی اگر حکومت نے واضح ہدایات جاری نہیں کی جاتی ہے۔

7) ہیلتھ اور لائف انشورنس کی پریمیم پر بھی جی ایس ٹی کم کیا گیا ہے۔ بظاہر اس سے پریمیم کم ہوں گے مگر اصل فائدہ عوام کو کتنا ملے گا؟ اس کی تحقیق کی ضرورت ہے۔انشورنس کمپنیوں کا دعویٰ مسترد کرنے یا آدھے ادائیگی کی شرح بہت ہی زیادہ ہے۔2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق 29 میں سے 20 کمپنیوں نے اپنے کلائنٹس کے کلیم کی رقم کا 80 فیصد سے بھی کم ادا کیا۔ اسی طرح IRDA کی سالانہ رپورٹ 2022-23 کے مطابق انشورنس کمپنیوں کا Incurred Claims Ratio مسلسل کم ہو رہا ہے، یعنی کمپنیاں زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ اس کے ساتھ حکومت نے 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کی اجازت بھی دے دی ہے جس سے نجی اور غیر ملکی کمپنیاں مزید فائدہ اٹھائیں گی، جبکہ ملک کی صرف 14 فیصد آبادی کے پاس پرائیوٹ ہیلتھ انشورنس ہے۔

8) حکومت براہ راست صحت کی خدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری کم کر کے انشورنس پر منتقل کر رہی ہے۔ ریاستی و مرکزی حکومتیں عوام کو علاج دینے کے بجائے نجی سیکٹر سے علاج خریدنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ انشورنس اسکیموں پر جو پیسہ لگایا جا رہا ہے وہ اگر سرکاری اسپتالوں کی تعمیر و توسیع پر لگایا جائے تو زیادہ فائدہ ہو۔

9) جی ایس ٹی میں یہ کمی بھارت اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی تنازع کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہیے۔ امریکہ نے بھارتی اشیاء پر 50 فیصد ٹیرف لگائی ہے جس سے امریکی منڈی میں بھارتی اشیاء کی کھپت کم ہوگی۔ چونکہ بھارت دنیا میں ادویات و ویکسین کا سب سے بڑا سپلائر ہے، اس لیے جی ایس ٹی میں کمی سے بڑی کمپنیوں کو وقتی سہولت ملے گی، لیکن عام عوام کو اس سے طویل مدتی فائدہ نہیں ہوگا۔

ہمارے مطالبات

1. ایک مؤثر ڈی پی سی او (DPCO) بنایا جائے تاکہ دوائیوں کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔
2. دوائیوں پر پروڈکٹ پیٹنٹ کو ختم کرکے دوبارہ پروسیس پیٹنٹ نافذ کیا جائے۔
3. تمام ادویات اور طبی آلات پر صفر فیصد (0%) جی ایس ٹی ہونا چاہیے۔
4. حکومت کو ادویات کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنی چاہیے۔
5. حکومت کو تمام صحات کی سہولیات عوام کو مفت میں فراہم کرنے چاہیے
6. حکومتِ ہند کو قومی بجٹ کا کم از کم 5 فیصد صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔
7. ریاستی حکومتوں کو بھی صحت کے شعبے میں اپنے اخراجات میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ عام عوام کو مطلوبہ سہولیات میسر ہوسکے۔
8. صحت کے بجٹ کا ایک نمایاں حصہ بنیادی (پرائمری) یا حفاظتی (Preventive) علاج پر خرچ ہونا چاہیے۔
9. بنیادی یا حفاظتی سطح کو اولین ترجیح دی جائے اور اس میں بہتری لائی جائے۔
10. موجودہ سرکاری اسپتالوں کے ڈھانچے کو مزید ترقی دی جائے اور ہر سطح پر نئی عوامی صحت کی سہولیات قائم کی جائیں تاکہ عوام کو مناسب علاج مل سکے۔
11. حکومت کو نجی صحت اور ہیلتھ انشورنس سیکٹر کو مؤثر طریقے سے ریگولیٹ کرنا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین