Thursday, November 21, 2024
homeادب و ثقافتاسرائیل کے قیام میں ہندوستانیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟

اسرائیل کے قیام میں ہندوستانیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟

اگر ہندوستانی فوجی فلسطین کی جنگ میں اپنا خون بےدریغ نہ بہاتے تو فلسطین کو عثمانی فوجوں سے آزاد نہیں کروایا جا سکتا تھا۔

سجاد اظہر
صحافی، مصنف
دہلی کے وسط میں ایک تین مورتی چوک ہے۔ جنوری 2018 میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے انڈیا کا دورہ کیا، جس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی انہیں تین مورتی چوک لے گئے۔ وہاں ایک یادگاری تختی کی نقاب کشائی کی گئی اور اس چوک کا نام بدل کر تین مورتی حیفہ چوک رکھ دیا گیا۔

اس کے پیچھے دراصل ایک پوری تاریخ ہے جو ’حیفہ کی جنگ‘ سے جانی جاتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے مصر، لبنان، فلسطین اور شام بھی سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے، لیکن اس جنگ میں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا اور یہ علاقے براہ راست برطانوی قبضے میں آ گئے۔

پہلی جنگ عظیم میں تقریباً 13 لاکھ ہندوستانی فوجی تاج برطانیہ کی جانب سے لڑے تھے۔ ’کامن ویلتھ وار گریوز کمیشن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 53,468 ہندوستانی فوجی اس جنگ میں مارے گئے، 64,350 زخمی ہوئے اور 3,762 یا تو غائب ہو گئے یا پھر جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی اموات عراق کے محاذ پر ہوئیں، جہاں 30 ہزار فوجی لقمۂ اجل بن گئے۔

جب ہندوستانی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف استعمال ہوئے

پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں اگر سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ نہ بکھرتا تو فلسطین براہ راست برطانیہ کے زیر اثر نہ آتا۔ دراصل اس جنگ کے آغاز سے ہی یہودیوں نے فلسطین میں اپنے الگ ملک کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ ان کے پاس پیسہ تھا، سیاسی طور پر وہ مضبوط تھے اس لیے انہوں نے اس جنگ میں اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کی جانب سفر شروع کر دیا تھا۔

برطانیہ میں ان کا اثرورسوخ بہت بڑھ چکا تھا، جس کا انہوں نے خوب استعمال کیا۔ فلسطین کی آزادی کی مہم دراصل اسرائیل کے قیام کی مہم تھی اور ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو جب اس کا ادراک ہوا تب تک ان کا خون بھی اسرائیل کے قیام میں شامل ہو چکا تھا۔

وہ تاج برطانیہ کے وفادار کے حیثیت سے لڑ رہے تھے لیکن ان کی یہ وفاداری سلطنتِ عثمانیہ کے بھی خلاف گئی اور فلسطین کے مسلمانوں کو بھی ایک ایسا زخم لگا گئی جو آج تک مندمل نہیں ہوا بلکہ روز بروز رس رہا ہے۔

پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بسنے والے تقریباً 70 کروڑ مسلمانوں کی چوتھی نسلیں آج جب اسرائیل کو غاصب قرار دیتی ہیں تو وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ فلسطینیوں کے خون کے ذمہ دار ان کے آبا و اجداد بھی ہیں۔

تل ابیب میں قائم انڈین سفارت خانے کی ویب سائٹ پر Memorials of Indian Soldiers in Israel کے نام سے ایک دستاویز پڑی ہے، جس میں اسرائیل کے قیام کے لیے ان قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہندوستانی فوجیوں نے دی تھیں۔

انڈیا میں نریندر مودی اور اسرائیل میں نتن یاہو کی حکومت ایک دوسرے کی سٹریٹیجک شراکت دار ہیں، اس لیے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے تاریخ کے اس اہم موڑ کو دستاویزی شکل دی گئی ہے تاکہ اسرائیل کے یہودی اس بات کے ممنون رہیں کہ ان کی ریاست کے قیام میں ہندوستانی خون بھی شامل ہے۔

اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی فوجوں کا دونوں عالمی جنگوں میں انتہائی اہم کردار رہا ہے، بالخصوص فلسطین کی جنگ میں اور اگر ہندوستانی فوجی اپنی بے مثال قربانیاں نہ دیتے تو فلسطین کو عثمانی فوجوں سے آزاد نہیں کروایا جا سکتا تھا۔

یہ ڈیڑھ لاکھ ہندوستانی فوجی ہی تھے جنہوں نے فلسطین کے محاذ پر ستمبر اور اکتوبر 1918 میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ برٹش آرمی کی 75ویں بٹالین نے نومبر1917 میں غزہ کی تیسری لڑائی میں حصہ لے کر جنوبی فلسطین اور اردن کی وادی کی طرف پیش قدمی کی۔

اس دوران مغربی محاذ سے مزید دو انڈین کیولری ڈویژنوں کی کمک بھی پہنچ گئی، جس کی مدد سے ستمبر 1918 میں عثمانی ترک فوجوں کی خلاف حتمی معرکہ ہوا، جس میں ہندوستانی فوجیوں کے گھڑ سوار دستے بھی شامل تھے ۔ انہی دستوں نے بیت المقدس اور دیگر محاذوں پر عثمانی فوجوں کو شکست دی۔

حیفہ کا فیصلہ کن معرکہ

حیفہ کا معرکہ 19 سے 25 ستمبر 1918 کے درمیان لڑا گیا، جس میں ہندوستان کے 15ویں کیولری بریگیڈ اور پانچویں کیولری ڈویژن نے حصہ لیا تھا۔ ایک ہفتے کی اس لڑائی میں 900 ہندوستانی فوجی مارے گئے، جن میں پنجابی فوجیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

اس کا نتیجہ حیفہ پر برطانوی قبضے کی صورت میں نکلا اور عثمانی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ ہو گیا۔ عثمانی فوجیوں کو قید کر لیا گیا اور جو بچ گئے وہ دمشق کی جانب فرار ہو گئے۔

اس جنگ کی یاد میں آج بھی اسرائیل میں ہر سال 23 ستمبر کو یوم حیفہ منایا جاتا ہے۔ حیدر آباد لانسرز کے میجر محمود عظمت اللہ اور جودھ پور لانسرز کے میجر دلپت سنگھ جو اس جنگ میں بہادری سے لڑے تھے، انہیں اعلیٰ ترین برطانوی فوجی اعزاز ملٹری کراس دیے گئے۔ حیفہ کی فتح کے بعد باقی محاذوں پر بھی عثمانی فوجیں پسپا ہوتی چلی گئیں۔

جنگ میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی یادگاریں اسرائیل بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری آج بھی کامن ویلتھ گریوز کمیشن ادا کر رہا ہے۔

حیفہ میں موجود قبرستان میں 305 فوجیوں کی یادگاریں ہیں، جنہوں نے ہندوستانی فوج میں خدمات سرانجام دی تھیں۔ بیت المقدس کے قبرستان میں پہلی عالمی جنگ کے 79 ہندوستانی فوجی دفن ہیں۔ رام اللہ میں پہلی عالمی جنگ کے 528 اور دوسری عالمی جنگ کے 1168 ہندوستانی فوجیوں کی یادگاریں ہیں۔

ان فوجیوں میں بڑی تعداد سکھوں کے ساتھ ان مسلمان فوجیوں کی بھی تھی، جن کا تعلق امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، بہاولپور، ہوشیار پور، پٹیالہ، راجپوتانہ، امبالہ، پونہ، کرنال، حیدر آباد دکن، گرداس پور، چکوال، جہلم، راولپنڈی، شاہ پور، مردان، میر پور، ہوشیار پور، پشاور، اٹک، ملتان وغیرہ کے اضلاع سے تھا۔

بالفور ڈیکلریشن کی عملی تعبیر ہندوستانیوں کے بغیر ممکن نہ تھی

پہلی عالمی جنگ میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ دراصل اسرائیل کے قیام کی طرف پیش قدمی تھی، جس کا اظہار بالفور ڈیکلریشن میں دو نومبر1917 کو کر دیا گیا تھا، جس کے تحت فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم کی جانی تھی۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور، جو خود بھی یہودی تھے، نے مشہور یہودی رہنما لونیل والٹر چائلد کے نام ایک خط لکھا، جو نو نومبر1917 کے اخبارات میں شائع ہوا، جس میں برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے قیام کا عندیہ دیا گیا تھا۔

بالفور1902 سے 1905 کے درمیان برطانیہ کے وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ چونکہ پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کو یہودیوں کی مدد حاصل تھی اس لیے برطانیہ انہیں نوازنا چاہتا تھا جبکہ دوسری جانب کے لوگوں کا مؤقف ہے کہ یہ خط ذاتی حیثیت میں لکھا گیا تھا اور اس کی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔

ہربرٹ سیموئیل جو کہ پہلی عالمی جنگ کے وقت برطانیہ کے وزیر نوآبادیات تھے اور انہوں نے فلسطین میں یہودی سلطنت کے قیام کی راہ ہموار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام سے ایک طرف نہر سویز کی حفاظت ہو گی اور برطانیہ کے مواصلاتی نظام کو تقویت ملے گی تو دوسری طرف اس بھیانک جنگ میں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی مدد حاصل ہو گی۔

انہوں نے 1915 میں فلسطین کے مستقبل کے سلسلے میں اپنی حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں فلسطین میں ایک یہودی مملکت قائم کرنے کی سفارش کی۔ بعد میں امریکہ اور اٹلی بھی اعلانِ بالفور کے حامی بن گئے۔ اس اعلان کے بعد یہودی رہنما شائم ویزمان نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ برطانوی قوم پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ صرف یہودی قوم ہی اتنی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہے کہ وہ فلسطین کی تعمیر نو کر سکے اور جیّد اقوام میں اسے ایک ارفع و اعلیٰ مقام دلا سکے۔

اسی شائم نے برطانیہ کو ایک ایسا دھماکہ خیز مواد تیار کرنے میں مدد کی تھی، جو پہلی عالمی جنگ میں بہت مددگار ثابت ہوا اور یہی شائم اسرائیل کا پہلا صدر بھی بنا۔

حیفہ کے معرکے کو آج 105 سال گزر چکے ہیں۔ اس معرکے کے نتیجے میں اسرائیل کے قیام کی جانب پیش رفت شروع ہوئی تھی، جس میں ہندوستانی فوجیوں کا کلیدی کردار تھا۔

اس وقت ہندوستان کی سیاسی قیادت بشمول گاندھی اسرائیل کے قیام کے خلاف تھی۔ تحریک خلافت کے حامیوں میں موتی لال نہرو بھی تھے مگر ہندوستانیوں کے خون کو تاج برطانیہ نے اسرائیل کے قیام میں استعمال کر لیا تھا اور یہ داغ آج بھی ہندوستانیوں کے ماتھے پر موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین