نئی دہلی : انصاف نیو ز آن لائن
ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ایک تحقیق میں کہا ہے کہ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے اور اکثریتی ہندوؤں میں خوف کا جھوٹا احساس پیدا کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے رپورٹ میں کہا ہے کہ مودی نے ’’تعصب، دشمنی اور پسماندہ افراد کے خلاف تشدد کو ہوا دینے والے بیانات دیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس نے مودی کی 173 انتخابی تقریروں کا تجزیہ کیا اور پتہ چلا کہ کم از کم 110 تقاریر میں اسلامو فوبک ریمارکس تھے۔ انسانی حقوق کے ادارے نے مشاہدہ کیا کہ وزیر اعظم نے ’’بار بار مسلمانوں کو دراندازی‘‘ کے طور پر بیان کیا اور دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کے دیگر کمیونٹیز کے مقابلے میں زیادہ بچے ہیں۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو تقریباً 80 فیصد آبادی بھارت میں اقلیت بن جائیں گے۔ اس میں نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے کردار کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے وزیر اعلی ہمانتا سرما، اور سابق وزیر انوراگ ٹھاکر شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مودی نے جھوٹے دعوئوں کے ذریعے ہندوؤں میں باقاعدگی سے یہ خوف پیدا کیا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں آئیں تو ان کا عقیدہ، ان کی عبادت گاہیں، ان کی دولت، ان کی زمین اور ان کی کمیونٹی میں لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
رپورٹ میں جھارکھنڈ کے کوڈرما میں مودی کی 14 مئی کی تقریر کا حوالہ دیاگیا ہے۔جس میں انہوں نے کہاکہ ہمارے دیوتاؤں کے بت تباہ کیے جا رہے ہیں۔اور یہ کہ ان درانداز (مسلمانوں) نے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اپنی ایک اور تقریر میںوزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’اگر کانگریس کو اقتدار مل گیا تو وہ کہے گی کہ ہندوستان میں رہنے کا پہلا حق اس کے ووٹ بینک (مسلمانوں) کا ہے۔ … کانگریس سرکاری ٹھیکوں میں بھی مذہب کی بنیاد پر کوٹہ دے گی۔‘‘
حقوق کی تنظیم نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا لیڈر پر لگام لگانے میں ناکام رہا یہاں تک کہ اس کی انتخابی تقاریر کے خلاف متعدد شکایات بھیجی گئیں جو انتخابی ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی تھیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ یہ معلوم کرنے کے باوجود کہ مودی اور دیگر نے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی ہے، کمیشن نے وزیر اعظم کا نام لیے بغیر صرف بی جے پی صدر کے دفتر کو خط لکھا، اور کہا کہ بی جے پی اور اس کے اسٹار کمپینرز مذہبی تقاریر کرنے سے گریز کریں۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے باوجود مودی کی بھڑکائو تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔رہورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2014 میں مودی انتظامیہ کے پہلی بار اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک نے بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ دیکھا ہے۔
مطالعہ میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بدسلوکی اور تشدد کو معمول بنایا گیا ہے، اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا ہے۔مسلمانوںکے خلاف بلڈوزر کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قانون کی مناسب کارروائی کیے بغیرمسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔یہ مسماری اکثر فرقہ وارانہ تصادم یا اختلاف رائے کے بعد مسلم کمیونٹیز کے خلاف ’’اجتماعی سزا‘‘ کے طور پر کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں انتخابی مہم کے دوران سے ہی اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 2014 کی انتخابی مہم کے دوران مودی نے بار بار گائے کے تحفظ کا مطالبہ کیا اور اس وقت کی کانگریس حکومت کے ذریعہ گلابی انقلاب (گوشت کی پیداوار کے اہداف) پر سخت حملہ کیا۔ جیسے ہی بی جے پی نے عہدہ سنبھالا، اس نے گائے کے تحفظ کو فروغ دینے والے بیانات پر مزید زور دیا، جس کی وجہ سے متعدد خود ساختہ گائے کے تحفظ کے نگران گروپس کی تشکیل ہوئی، اور ان تنظیموں نے گائے کے گوشت کے استعمال کے خلاف اپنی شدید مہم کے ساتھ اقلیتی برادریوں پر حملے شروع کردیے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ “مئی 2015 اور دسمبر 2018 کے درمیان، 12 ریاستوں میں کم از کم 44 افراد، جن میں سے 36 مسلمان تھے، مارے گئے۔ اسی عرصے کے دوران، 20 ریاستوں میں 100 سے زیادہ واقعات میں تقریباً 280 افراد زخمی ہوئے۔
عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافے پرکہا گیا ہے کہ بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو قوم پرست گروپوں کے رہنماؤں نے ایسے بیانات دیے ہیں جن کی وجہ سے پچھلی دہائی میں گرجا گھروں پر متعدد ہجوم کے حملے ہوئے۔ بہت سے معاملات میں، پادریوں کو مارا پیٹا گیا، مذہبی اجلاس منعقد کرنے سے روکا گیا، اور تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے تحت ملزمین، اور گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔اس کے علاوہ زرعی اصلاحات بل کے خلاف مظاہرہ ک بعد بی جے پی لیڈروں کے سکھ مخالف بیانات کے نتیجے میں 10 جون کو ہریانہ کے ایک سکھ شخص پر دو افراد نے حملہ کیاگیا۔انہیں خالصتانی کہاگیا۔
انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ ہندو قوم پرست گروپوں کے ارکان نے ملک کے جموں اور دہلی خطوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا کو ’’دہشت گرد‘‘ کا لیبل لگانے کے بعددائیں بازو کے گروہوں نے ان کے گھروں کو آگ لگا کر نشانہ بنایا ہے، اور نوٹ کیا ہے کہ دہلی میں روہنگیا بستی میں آگ لگنے کے بعد جس کے دوران 2018 میں تقریباً 50 گھر جل گئے تھے۔اس واقعے کے بعد بی جے پی لیڈر نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ’’ہمارے ہیروز نے شاباش… ہاں ہم نے روہنگیا دہشت گردوں کے گھر جلا دیے۔
HRW کے ایشیا ڈائریکٹر کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’بھارتی حکومت کے تکثیری سماج اور جمہوریت کی ماں‘‘ہونے کے دعوے اس کے اقلیت مخالف اقدامات کے سامنے کھوکھلے ہیں، اور “نئی مودی حکومت کو اپنے امتیازی سلوک کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔