اسامہ الطاف
حال ہی میں ہونے والی جی 20 کانفرنس میں برصغیر کو براستہ مشرق وسطیٰ یورپ سے جوڑنے والے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے کا اعلان سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔
جی ٹوئنٹی سمٹ میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ انڈیا سے شروع ہو گا۔
یہ منصوبہ خلیجی ریاستوں اور فلسطین سے گزرتا ہوا یورپ تک پہنچے گا اور اس پر سمندری اور زمینی ذرائع مواصلات دونوں کا استعمال ہو گا۔
ان بنیادی معلومات کے علاوہ منصوبے کی تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں مگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مجوزہ منصوبے کے روٹ پر ہزاروں سال سے تجارت ہو رہی ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق برصغیر اور جنوبی ایشیا کے تجارتی اموال مشرق وسطیٰ میں چار ہزار سال قبل پہنچ گئے تھے۔
شروع میں عرب تاجر خود ہندوستان جاتے تھے جبکہ بعد ازاں رومی سلطنت نے باقاعدہ سمندری تجارت کا آغاز کیا اورومی سلطنت کے زیر نگیں مشرق وسطیٰ کے علاقے ہندوستان سے آئے مصالحہ جات اور دیگر اشیا کا مرکز بن گئے۔
دلچسپ طور پر انسائیکلوپیڈیا کے مطابق مشرق وسطیٰ پہنچنے والی یہ ہندوستانی اشیا وہاں سے یورپی بازاروں تک پہنچی اور یوں ہندوستان اور یورپ کا ربط مشرق وسطیٰ کے ذریعے ہی ہوا۔
عرب کے قدیم تجارتی راستے
سعودی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ ’وزٹ سعودی عرب‘ جس کا مقصد سعودی عرب میں سیاحت کا فروغ اور سعودی ویزے کا آسان حصول ممکن بنانا ہے، پر عرب کے چند قدیم تجارتی راستوں کا ذکر ہے۔
طریق البخور نامی ویب سائٹ کے مطابق 2000 کلومیٹر طویل یہ تجارتی راستہ بحر احمر کے ساتھ متوازی تھا۔
اسی راستے کے ذریعے جزیرہ عرب اور شمال افریقہ میں پائی جانی والی جڑی بوٹیوں کی ترسیل کی جاتی تھی جو کہ دنیا بھر میں استعمال ہوتی تھیں۔
یہ راستہ بھی ہزاروں سال پرانا ہے اور اس کی وجہ سے صحرا میں رہنے والے قبائل جو تجارتی قافلوں کی رہنمائی کرتے تھے اور تجارتی سرگرمیوں سے مستفید ہوتے تھے خوشحال ہو گئے اور ان کی باقاعدہ ایک تہذیب قائم ہوگئی جسے ’انباط کی تہذیب‘ کہا جاتا ہے۔
وزٹ سعودی عرب کے مطابق چین اور ہندوستان سے آنے والا تجارتی سامان سمندری راستے سے پہلے جدہ کی بندرگاہ پر آتا تھا پھر یہاں سے دیگر ممالک اور یورپ تک پہنچتا تھا۔
اس راستے سے کپڑے، مصالحہ جات اور دیگر اشیا کی ترسیل کی جاتی تھی۔ جزیرہ عرب میں واقع بندرگاہیں ایک تجارتی نیٹ ورک کا اہم حصہ تھیں جو جنوبی ایشیا سے آنے والی اشیائے ضروریہ یورپی مارکیٹوں تک پہنچاتی تھیں۔
تجارتی راہداریوں کا مقابلہ نیا نہیں
جی 20 سربراہی کانفرنس میں اعلان کیے جانے والے راہداری منصوبے کو چین کے راہداری منصوبہ اور عالمی سیاست میں چین اور امریکہ کے درمیان اثر ورسوخ کی جنگ کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ حیران کن طور پر قدیم تجارتی راستے بھی سیاسی لڑائیوں سے متاثر ہوتے تھے۔
تاریخ دان سٹوران ریڈ اپنی کتاب Inventions and Trade: The Silk and Spice Routes میں دو تجارتی راستوں کا ذکر کرتے ہیں جو مشرقی ممالک سے مغربی ممالک کو جوڑتے تھے۔
ایک کا مرکز چین تھا جس کو ’سلک روٹ‘ کہتے تھے کیونکہ اس راستے کے ذریعے ریشم کے کپڑے کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ سلک روٹ مشرق کو مغرب سے جوڑنے والا زمینی تجارتی راستہ تھا جو کہ آٹھ ہزار کلومیٹر طویل تھا۔
اس کا آغاز موجودہ چینی شہر شیان سے ہوتا تھا اور یہ دیوار چین کے ساتھ چلتا ہوا وسط ایشیائی ممالک، ایران اور افغانستان سے ہوتا ہوا مغرب کی طرف جاتا تھا۔
اس کے مقابلے میں دوسرا روٹ سپائس روٹ یعنی مصالحہ جات کا راستہ کہلاتا ہے جو کہ سمندری راستوں پر مشتمل ہے۔
اس راستے کے ذریعے انڈونیشیا اور انڈیا کے مصالحہ جات اور دیگر اشیا بحری راستوں سے عرب بندرگاہوں تک پہنچتی تھیں اور وہاں سے ان کو یورپ پہنچایا جاتا تھا۔
سٹوران لکھتے ہیں رومی سلطنت نے سپائس روٹ کو سلک روٹ کے مقابلے میں قائم کیا تھا بعد ازاں چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی سلطنت کے قیام کے ساتھ اس روٹ پر عرب تاجروں کا اثر بڑھ گیا اورانہوں نے مشرقی اور مغربی ممالک کے درمیان تجارتی پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اس روٹ سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔
صاحب اعظمی ندوی بھی اس موضوع پر اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں ثابت کرتے ہیں کہ مشرقی ممالک سے تجارت صدیوں سے جاری تھی۔
مگر اسلامی دور میں اس تجارت کو مزید فروغ دیا گیا اور ہندوستان عرب ممالک کے ذریعے یورپ سے تجارتی طور پر جڑ گیا۔