تحریر:زینب سکندر
( نوٹ موجودہ حالات کے تناسب میں یہ ایک اہم تجزیاتی مضمون ہے۔ اس کے مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں لیکن میں اسٹریم میڈیا میں جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ غوروفکر کی دعوت ضرور دیتا ہے ۔’’دی پرنٹ ‘کے شکریہ کے ساتھ نذر قارئین ہے)
غیر قانونی، غیر انسانی سلوک کا شکار، دنیا اور اپنے ہی ملک میں بیگانگی، بے سہارا ہندوستانی مسلمانوں کو اب اپنے حقوق اور عزت کے لیے ایک طویل اور تنہا جنگ لڑنی ہے۔ ایک مسلمان بچے کی اپنے والد کی جوس کی دکان کے ملبے سے سکے اٹھاتے ہوئے تصویر جسے بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا تھا اسے محض علامت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ آپ اسے دیکھتے ہیں، آپ میں سے کچھ کو برا لگتا ہے، آپ میں سے کچھ اسے دیکھ کر خوش بھی ہو سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر وقت آپ دوبارہ اپنی زندگی کے کاروبار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے کھرگون میں کٹے ہوئے ہاتھوں والے ایک شخص کے خلاف پتھراؤ کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ، اس کی دکان کو بلڈوز سے مسمار کردیا گیا ہے ۔ آپ اس کی تصویر بھی دیکھتے ہیں ،آپ کو شاید برا لگتا ہے، لیکن پھر آپ اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ لیکن مسلمان کیا کرتے ہیں؟ ان کے لیے تویہ روزمرہ کی حقیقت ہے۔ بھارت میں ان کا مستقبل کیا ہے جب انہیں سازشی، دہشت گرد، غیر قانونی مہاجر، فسادی اور پتھراؤ کرنے والوں کے طور پر ذہنی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے؟
کیا ہندوستان میں مسلمان واحد اقلیت ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے یا حکومت سے اس کا جواب طلب نہیں کر سکتا؟ کیونکہ جب سکھ یوم جمہوریہ پر ملک کے دارالحکومت کی طرف مارچ کرتے ہیں اور جب بی جے پی کے وزراء اور میڈیا کا حامی طبقہ انہیں خالصتانی دہشت گرد قرار دینے لگتا ہے تو کینیڈا اور برطانیہ کی حکومتوں کے سکھ وزراء اپنی برادری کے حق میں اور سرکار کے زرعی قوانین کی مخالفت میں آواز اٹھانے لگتے ہیں اور سرکار قدم واپس کھینچ لیتی ہے۔ اب یہ پنجاب کے انتخابات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا یا کسی اور وجہ سے، یہ الگ بات ہے۔ وزیر اعظم نے سکھ برادری سے اپنی قربت ظاہر کرنے کے لیے گرو تیغ بہادر کی یاد میں لال قلعہ میں ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا۔ پھر بی جے پی کا کوئی وزیر یا میڈیا سکھوں کو خالصتانی کہنے کی جرأت نہیں کرتا۔
یا جب بی جے پی کے وزراء عیسائی برادری پر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور جب وزیر اعظم پوپ سے ملتے ہیں تو سب کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ پھر ان کے لیے’’چاول کی بوری‘ جیسی تضحیک آمیز بیان بازی (اناج اور پیسہ دے کر ہندوؤں کو تبدیل مذہب کرنے کے لیے) ٹوئٹر پر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے واضح پیغام دیا، وہ مسیحی برادری کے ساتھ ہیں۔
یہ تمام خوش آئند ظہور، جنہیں مربوط کوششوں کے طور پر سمجھا جانا چاہیے تھا، اب تک بی جے پی کی طرف سے خوشامد کے طور پر مذمت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن بی جے پی اقلیتوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کی اپنے ہی وزیر اعظم کی ان کوششوں کو خوشامد کہنے کی جرأت نہیں کر سکتی، جبکہ وہ ہمیشہ کانگریس کی ان کوششوں کو اقلیتوں کی خوشنودی کے طور پر تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔
بی جے پی اقلیتوں کی خوشامد صرف اس وقت دیکھتی ہے جب وہ مسلمانوں کے لیے ہو۔ لیکن مسلمانوں کی خوشامد کانگریس کے غلبہ کے دنوں سے ہی ایک مذاق رہا ہے۔ اگر وہ مطمئن ہو جاتے تو اس کمیونٹی کی کچھ ضرورتیں پوری ہو جاتیں اور کچھ ترقی ہو جاتی۔ لیکن، 2006 میں سچر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، مسلمان تقریباً تمام سماجی و اقتصادی اشاریوں میں سب سے نیچے تھے اور انہیں درج فہرست ذاتوں کے ساتھ مساوی کیا جا سکتا ہے، جنہیں تحفظات حاصل ہے۔
حالانکہ 2014 سے مسلم دشمنی کا ماحول ہے لیکن زمینی سطح پر نقصان ان کو ہو رہا ہے۔ یہ کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ بی جے پی کے وزراء نے مغربی بنگال اور آسام میں مسلمانوں کے بڑے گروہوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر ان کو کالعدم قرار دیا ہے۔ لیکن اب اسی بہانے ان کے ذریعہ معاش، ان کی جھونپڑیوں اور دکانوں کو بغیر پیشگی اطلاع کے بلڈوزر لگا کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے عمل کو جائز کہا جا سکتا ہے لیکن کیا پتھر صرف مسلمانوں نے پھینکے تھے؟ اسلحہ لے کر جلوس نکالنے والوں کی دکانوں اور گھروں پر بلڈوزر کیوں نہیں چلائے گئے؟
وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک
صرف بی جے پی ہی ایسی بلا امتیاز کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ مسلمانوں کی نظر اندازی اس قدر حقیقی ہے کہ’آپ‘ کے آتشی جیسے پڑھے لکھے اور آزاد خیال رہنما جہانگیر پوری کے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور روہنگیا مہاجرین بتانے سے باز نہیں آتیں ۔ جنہیں بی جے پی نے فسادات میں استعمال کر نے کے لئے ان علاقوں میں آباد کیا ہے ۔
مسلمانوں کے لیے لعنت یہ ہے کہ ان کا وجود ہی انہیں ولن بنا رہا ہے کیونکہ نائن الیون کے واقعے کے بعد بندوق اٹھائے کسی بھی مسلمان کو براہ راست دہشت گرد قرار دیا جا نے لگا ہے ، لیکن بندوق اٹھائے کسی گورا، کسی کالا۔ کسی ایشیا ئی یا کسی بھارتیہ کو ‘محض’گن مین‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک آج پوری دنیا میں ایک حقیقت بن چکا ہے لیکن نائن الیون کے بعد سے عام مسلمان جس ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں اسے محسوس کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں اس پر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ‘’مارٹینین‘ جیسی کمرشل فلمیں یا مسلمانوں کی حالت پر دستاویزی بنیں فلمیں ان کی معاشرتی بے توجہی اور تذلیل کے اثرات کا اندازہ دیتی ہیں۔
لیکن جن واقعات نے دونوں فریقوں کو غلط ثابت کیا ہے ان کے لئے صرف ایک پوری کمیونٹی کو جس سختی سے شرمسار اور تذلیل کیا گیا ہے اس کی بھارت میں شاید کی کو پرواہ نہیں ہے ۔ کسی کو بھی نہیں۔ میڈیا یا اس ماحول سے فائدہ اٹھانے والے ہمیشہ بڑی آسانی سے مسلمانوں پر الزام نہیں لگا سکتے ہیں۔
اگر مودی سرکار کو یہ احساس نہ ہوتا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کس اندھیرے گڑھے میں دھکیل رہی ہے تو اس دور کوتاریخ میں اور کچھ نہیں بلکہ ایک پورے کمیونٹی کے خلاف اس کے اپنے ہی ملک میں ’ نفسیاتی دہشت گردی‘ کے دور کے طور پر ہی درج کیا جائے گا اور اس کا الزام اس دور میں راج کررہی سرکار کے سرمڈھا جائے گا ۔جو ملک کے ہر اقلیتی کے لئے ایک ماحول تیار کر رہی ہے ، سوا مسلمانوں کے ۔