نئی دہلی :ایجنسیاں
ملبوسات کے بین الاقوامی برانڈ ’زارا‘ نے متنازع اشتہاری مہم کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹاتے ہوئے ’غلط فہمی‘ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
فیشن برانڈ نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ کمپنی کو ایک اشتہاری مہم پر ہونے والی ’غلط فہمی‘ پر افسوس ہے جس میں (کفن نما) سفید کپڑوں میں لپٹے مجسموں کو دکھایا گیا تھا۔
اس اشتہار پر فلسطین کے حامیوں کی جانب سے برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد زارا نے ان تصاویر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا تھا۔
صارفین نے زارا کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس اشتہار کے بارے میں ہزاروں شکایات درج کرائیں جن کا کہنا تھا کہ یہ تصاویر غزہ میں سفید کفن میں ملبوس لاشوں کی تصاویر کی نقل میں بنائی گئی ہیں۔
اس اشتہار کے بعد مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس پر ’بائیکاٹ زارا‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
زارا کا اعلان عالمی برانڈز کے لیے اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے حوالے سے حساسیت کو اجاگر کرتا ہے۔ زارا پہلا بڑا مغربی برانڈ ہے جس کو تنقید کے بعد یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔
زارا نے کہا کہ اس اشتہار، جس میں ایسے مجسمے بھی شامل تھے جن کے اعضا غائب تھے، کا تصور جولائی میں پیش کیا گیا تھا اور اکتوبر میں غزہ کے تنازعے کے آغاز سے پہلے ستمبر میں شوٹ کیا گیا تھا جس کا مقصد ایک مجسمہ ساز کے سٹوڈیو میں نامکمل مجسمے دکھانا تھا۔
زارا نے انسٹاگرام پوسٹ میں مزید کہا: ’بدقسمتی سے کچھ صارفین کو ان تصاویر سے تکلیف پہنچی جن کو اب ہٹا دیا گیا ہے لیکن ان کو اس نظریے سے نہیں تخلیق کیا گیا تھا جس نظر سے انہیں دیکھا گیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ زارا کو اس غلط فہمی پر افسوس ہے اور ہم سب کے جذبات کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کی ایڈورٹائزنگ سٹینڈرڈز اتھارٹی (اے ایس اے) نے کہا کہ اسے زارا کے اس اشتہار کے بارے میں 110 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ تصویروں میں غزہ کی جنگ کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ جارحانہ ہے۔
ZARA recent campaign exploiting a genocide & commodifying Palestine pain for profit is disgusting
Shame on you brand @ZARA for stooping so low prioritizing greed over humanity & pretending it was harmless
Deleting posts afterward magnifies awareness of harm🇵🇸#BoycottZara pic.twitter.com/mRVP41rX54— Khadija (@khadijatweets_) December 10, 2023
اے ایس اے نے ایک بیان میں کہا: ’چونکہ زارا نے اب اس اشتہار کو ہٹا دیا ہے اس لیے ہم اس پر مزید کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔‘
زارا کے انسٹاگرام پیج سے اس اشتہار کی چھ پوسٹس کو ہٹا دیا گیا ہے جس کے بعد پیرنٹ کمپنی ’انڈی ٹیکس‘ نے کہا کہ ان تصاویر کو تمام پلیٹ فارمز سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
زارا نے پہلے ہی پیر کو اپنی ویب سائٹ اور ایپ ہوم پیجز سے فوٹو شوٹ کو ہٹا دیا تھا۔
اس سے قبلہسپانوی فیشن برینڈ زارا کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ اس کی ایک تازہ اشتہاری مہم ہے جسے صارفین نے ’غزہ میں ہونے والی تباہی‘ کے ساتھ مماثلت قرار دیا ہے۔
ایکس پر ’بائیکاٹ زارا‘ کا ٹرینڈ بھی گذشتہ روز سے ٹاپ پر ہے جس پر ہزاروں ٹویٹ کی جا چکی ہیں۔
اس مخصوص کمپین کا نام ’ دی جیکٹ‘ رکھا گیا ہے جس میں ماڈل کرسٹین میک مینامی سفید کپڑے میں ڈھانپے ہوئے ایک پتلے کو اٹھائے کھڑی ہیں، جبکہ کچھ اور تصاویر میں ایسے مجسمے دکھائے گئے ہیں جن کے اعضا غائب ہیں اور آس پاس ملبے کے ڈھیر بھی موجود ہیں۔
زارا کی ان تمام پوسٹس کے نیچے سیکڑوں لوگ برینڈ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اور فلسطینی پرچم لگا کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ ’فن‘ کے عنوان سے قتل عام کی حمایت کرنا کتنا قابل نفرت ہے؟
ان تصاویر میں سوشل میڈیا صارفین کو غزہ میں ہونے والے مظالم کی جھلک دکھائی دی اور انہوں نے برینڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان شروع کر دیا۔
امریکی ڈاکٹر اور انفلونسر نور امرا نے اپنے انسٹاگرام پر ایک طویل پوسٹ کے ذریعے زارا کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ ماننے سے انکار کرتی ہوں کہ زارا جیسی عالمی فرم کی پی آر ٹیم نے غزہ میں جاری نسل کشی کے دوران اپنی اس نئی مہم پر غور نہیں کیا ہو گا۔‘
انہوں نے غزہ کی کچھ تصاویر بھی زارا کی تشہری تصاویر کے ساتھ جوڑ کر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’غزہ سے نکلنے والی کفن پوش لاشوں کی تباہ کن تصویریں ہم سب نے دیکھی ہیں یہ صرف ایک مثال ہے لیکن ہزاروں اور بھی ہیں یہ واضح طور پر فلسطینیوں کا مذاق اڑایا گیا ہے اور وہ (زارا) بالکل جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں!‘
ڈیلاس میں مقیم ایک ڈاکٹر اور سوشل میڈیا انفلونسر حنا چیمہ نے لکھا کہ ’واضح طور پر نسل کشی کا مذاق اڑایا گیا ہے کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ اتنے مشہور ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں کیا جا سکتا‘
لیکن انہوں نے لکھا کہ ’آپ نے غلطی کر دی اور آپ کے لیے سب ختم ہو گا۔‘
اس بائیکاٹ میں پاکستانی اداکارہ اشنا شاہ بھی شامل ہیں، انہوں نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا ہم زارا کے موجودہ کپڑے پھینک دیں ہیں یا صرف نئے کپڑے نہ خریدیں؟‘
انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ اب وہ کبھی زارا سے شاپنگ نہیں کریں گی۔
عمیر نامی صارف نے لکھا کہ ’زارا نے مسلمانوں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی جانے والی نسل کشی کا مذاق اڑایا ہے۔‘
عمیر نے یہ بھی لکھا کہ ’ان تصاویر میں باڈیز کو سفید لباس میں لپٹے دکھایا گیا ہے جو مسلمانوں کی تدفین کا طریقہ ہے، جبکہ اس مہم میں چٹانیں، ملبہ، اور گتے کا کٹ آؤٹ بھی دکھایا گیا ہے جو فلسطین کے نقشے سے ملتا ہے۔‘
ناومی نامی صارف نے زارا کی تشہیری مہم کی پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ آپ کے نقصان کی شروعات ہے۔ تم میرے پیسوں سے اور میرے سارے گھر والوں کے پیسوں سے بچوں کو نہیں مار سکتے۔‘
خدیجہ نامی صارف نے ’فلسطینیوں کے درد کو منافع کے لیے استعمال کرنے پر زارا کی تشہری مہم‘ کو شرمناک قرار دیا اور کہا کہ ’پوسٹس کو بعد میں ڈیلیٹ کرنا نقصان کی نشاندہی کر رہا ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ تصاویر کوئی فنکارانہ تخلیق بھی نہیں لگتیں، واضح طور پر یہ آپ کے گھناؤنے ایجنڈے اور نسل کشی کے رجحان کو معمول پر لانے کا ایک سٹیج شوٹ ہے۔‘
تاہم، اشتہاری مہم کی سب سے متنازعہ تصویر کو جس میں میک مینامی کو سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک ’باڈی‘ پکڑے ہوئے دکھایا گیا تھا انسٹاگرام اور ایکس سے ہٹا دیا گیا ہے۔