انصاف نیوز آن لائن
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ لاکھوں بہاری ممبئی، سورت، احمد آباد،راجستھان، چنئی، کرناٹک اور دہلی سے ٹرین میں ذلیل و خوار ہوکر اپنے سب سے مقبول مذہبی تہوار ”چھٹ پوجا“ منانے کیلئے سفر کررہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ذلت بہاریوں کا ہی مقدر ہے۔مرکزی وزیر ریلوے دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے سیکڑوں ٹرینیں چلائی ہیں۔مگر زمینی حقیقت کچھ اور بیان کررہی ہے۔چوں کہ چھٹ پوجا کے فوری بعد انتخابات ہورہے ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ بہاریوں کا ہجرت بہار اسمبلی انتخابات میں اہم ایشو ہے یا نہیں؟ کیا بہار حکومت کی ناکامی کے خلاف سخت مصائب و مشکلات کا سامنا کرکے گھر پہنچنے کے بعد ووٹ کی شکل میں اپنی ناراضگی ظاہر کریں گے؟ یہ سوال اس لئے بھی بڑا ہوجاتا ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ”بہار میں زمین کی کمی ہے اس لئے یہاں بڑے کارخانے نہیں لگ سکتے ہیں؟“۔امیت شاہ گرچہ اگلے ہی لمحے میں سنبھل گئے اورتاثر دینے کی کوشش کی کہ اے آئی اور آئی ٹی کا ہب بنایا جائے گا۔مگر ٹی وی اینکرز نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ گزشتہ دس برسوں سے مرکز اور ریاست میں آپ کی حکومت ہے تو کتنے آئی ٹی اور اے آئی ہب کی تعمیر ہوئی ہے؟۔مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آئی ٹی اور اے آئی ہب کی تعمیرات سے بہاری مزدوروں کی ہجرت کا سلسلہ روک جائے گا؟۔اس کتنے ہزار بہاری مزدوروں کو روزگار ملیں گے؟
گزشتہ دودنوں سے بہار کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے اور لوگوں سے بات کرنے کے بعد منظرنامہ صاف نظرآرہا ہے کہ بہار کی سیاست کا محور آج بھی ”ذات پات“ ہے۔شاید ہی کوئی ووٹر ذات سے ہٹ کر بات کرتا ہوا نظر آئے اور یہ ذات کی سیاست مقامی سطح تک ہے۔بی جے پی نے گرچہ ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے والے کسی مسلم امیدوار کو بی جے پی کے کور حامی ووٹ دیں گے؟۔اس کا جواب صاف مل جائے گا ”نہیں“۔گرچہ آن اسکرین کوئی کچھ نہ کہہ۔راشٹرجنتادل یادوؤں کی پارٹی کہلاتی ہے اور ایم وائی کا اتحاد مشہور ہے مگر یادو بھی مسلم امیدوار کے ساتھ اس طرح کھڑے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں جس طرح مسلم ووٹرس آرجے ڈی اور کانگریس کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب عوام کی سیاست کا محور کا ذات کی سیاست ہو تو پھر حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو عوامی فلاح و بہبود کو ایجنڈا بنانے میں دلچسپی کیوں ہوگی؟ چناں چہ امیت شاہ نے پہلے صاف منع کیا کہ بہار میں صنعت کاری ممکن نہیں ہے۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ بہار میں صنعت کاری ہوگئی تو پھر گجرات مہاراشٹر کے کارخانوں میں کام کون کرے گا؟ فورتھ کلاس کے مزدوی کا سب سے بڑا سپلائر بہار ہی تو ہے۔
امیت شا ہ نے جو کچھ کہا وہ کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔جہاں تک سوال آئی ٹی ہب بنانے کا ہے تو بی جے پی گزشتہ 10 برسوں سے یہ وعدہ کر رہی ہے۔ بی جے پی کے 2020 کے انتخابی منشور میں صاف کہا گیا تھا کہ 2025تک بہار کو IT ہب بنایا جائے گا اور ریاست میں پانچ لاکھ IT ملازمتوں پیدا کی جائیں گی۔ اس کے بعد سے بہار میں ایک بھی IT پارک قائم نہیں ہوا، اور ریاست سے کئی ہزار انجینئرنگ گریجویٹس گروگرام، بنگلور اور حیدرآباد جیسے مقامات پر ملازمت کررہے ہیں۔
بی جے پی کی ڈبل انجن حکومتوں نے ریاست میں طویل عرصے سے بند 37 شوگر ملز کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ دربھنگہ کا پیپر مل، جامع پور کا کوچ فیکٹری اور ہجپور کا ریلوے یارڈ ریاست کی سرپرستی کی کمی کی وجہ سے سڑ رہے ہیں۔ریاستی کے سابق مرکزی وزیر اور سینئر بی جے پی لیڈر روی شنکر پرساد نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ ریاست میں جلد ایک IT پارک قائم ہو جائے گا۔ اس کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا۔
فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کو لے کر گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر ایک بھی انڈسٹری قائم نہیں ہوسکی۔ریاست میں لوگوں کو مختلف شکلوں میں پھیلانے والا مشہور ستو یا پاؤنڈ گرام جو ubiquitous لٹی کے اندر بھرنے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، تامل ناڈو میں پروسیس اور پیکج ہو رہا ہے۔ مکھانہ یا فاکس نٹس کو پونہ اور اورنگ آباد سمیت دیگر صنعتی مراکز میں بھونا، ذائقہ دار بنایا اور پیکج کیا جا رہا ہے۔ بہار، جو ملک میں مکئی اور کیلے کی پیداوار میں سرفہرست ریاستوں میں سے ایک ہے۔مگر کیرالہ ملک بھر میں کیلا چپس فراہم کررہی ہے۔
بہار کے ووٹروں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ گجرات میں بڑے صنعتی اور ہائی ٹیک پروجیکٹ کا اعلان کیا جارہا ہے۔مگر دوسری طرف وزیر اعظم مودی بہار سے گجرات تک کیلئے نئی ٹرینس کا اعلان کررہے ہیں۔مطلب واضح ہے کہ بہاریوں کیلئے ہجرت مقدر ہے۔
تاہم اچار اور اگربتی بنانے والی ہوم انڈسٹریز کو فروغ دینے میں کچھ معمولی کامیابی ضرور ملی ہے اور بٹن مشروم کی پیداوار کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا گیا ہے۔ پٹنہ کی سڑکوں پر آج مشروم بیچنے والے وینڈرز مونگ پھلی کی طرح بیچ رہے ہیں۔ تاہم ملک بھر میں برانڈ کو فروغ دینے کی کسی بڑی مارکیٹنگ کوشش کا کوئی نشان نہیں ہے۔
بہار میں اگنی ویر اسکیم کو لے کر پہلے ہی مایوسی ہے۔طویل مدتی روزگار کا ایک راستہ بند کر دیتی ہے۔ مرکزی حکومت کی ریاست میں پبلک سیکٹر یونٹس کو روکنے کی پالیسی ایک اور درد کا نقطہ ہے۔ بھاگلپور میں PSU نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (NTPC) کی طرف سے تھرمل پلانٹ کے لیے حاصل کی گئی زمین کو اڈانی گروپ کو سوپنے کا معاملہ بھی موضوع بحث ہے۔ظاہر ہے کہ اڈانی کمپنی کو زمین دی گئی ہے اس سے روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے۔
گرچہ حالیہ برسوں میں بہار میں اساتذہ کی تقرری بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔صحت کے شعبے میں بھی تقرریاں ہوئی ہیں تاہم حکومت کی مجموعی پالیسی پرائیوٹائزیشن ہے۔حکومت سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں سے غفلت برت رہی ہے۔اس کی وجہ سے پرائیوٹ یونٹس اور کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کا پھیلاؤ، معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال بھی زیادہ تر لوگوں کی رسائی سے باہر ہو گئی ہے۔