شرم الشیخ : مصر۔ایجنسی
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کے اعلان کے بعد غزہ میں جشن کا سماں ہے۔غزہ کے لوگوں نے گذشتہ شب جاگ کر گذاری۔ اہالیاں غزہ بالخصوص خان یونس اور دیگر شہروں میں پناہ گزین کیمپوں سے نکل کر جنگ بندی کا جشن منایا۔
اپنے ہی ملک میں بے دخلی کا عذاب جھیلنے والے غزہ کے شہریوں نے مسرت کے اظہار کے لیے خوشی کے نعرے لگائے، گانے گا کر جنگ بندی کے حوالے سے اپنی فرحت اور سکون کا اظہار کیا۔اسی طرح سینکڑوں اسرائیلیوں نے تل ابیب میں خوشی کا اظہار کیا، امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت اگلے پیر کو قیدیوں کی رہائی کے اعلان پر مسرت منائی۔
اس سے قبل جمعرات کو، امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس نے “غزہ معاہدے” کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔ٹرمپ نے ایک بیان میں لکھا “مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر ہو رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قیدیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا اور اسرائیل اپنی افواج کو ایک طے شدہ لائن تک واپس بلا لے گا… یہ ایک مضبوط، پائے دار اور دیرپا امن کی جانب ابتدائی اقدامات ہیں”۔
امریکی صدر نے اپنے پیغام میں زور دیا کہ “تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جائے گا”۔
انھوں نے مزید لکھا “یہ دن عرب اور اسلامی دنیا، اسرائیل، تمام ہمسایہ ممالک اور امریکا کے لیے ایک عظیم دن ہے۔ ہم قطر، مصر اور ترکی کے ان ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس تاریخی اور بے مثال واقعے کے لیے ہمارے ساتھ کام کیا۔ امن کے علم برداروں کو ہمارا سلام”۔”-
یہ اتفاق رائے سات اکتوبر کے حملے کی دوسری برسی کے ایک دن بعد ہوا، جب حماس نے غزہ میں اسرائیلی بستیوں اور فوجی اڈوں پر حملہ کیا تھا، جس کے جواب میں اسرائیل نے فلسطینی علاقے پر تباہ کن حملہ کیا۔
اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگایا، کیونکہ قیدیوں کی رہائی کی خبر نے خوشی کا ماحول پیدا کر دیا۔
اس کے باوجود غزہ میں سول ڈیفنس نے معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلی حملوں کی اطلاع دی، جبکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہریوں کو شمالی علاقے اور غزہ شہر میں واپس نہ جانے کی وارننگ دی اور کہا کہ یہ علاقہ اب بھی ’’خطرناک‘‘ ہے۔
سعودی عرب نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کے پہلے مرحلے کے آغاز کا خیرمقدم کیا ہے، جس کا مقصد کشیدگی میں کمی اور جامع و منصفانہ امن کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔
جمعرات کے روز جاری کردہ اپنے بیان میں سعودی وزارتِ خارجہ نے امریکہ کے صدر کے فعال کردار اور قطر، مصر اور ترکیہ کی جانب سے کی گئی کوششوں کو سراہا جن کے نتیجے میں یہ معاہدہ ممکن ہوا۔ وزارت نے ان تمام ثالثی مساعی کی تعریف کی جنہوں نے جنگ کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم اٹھانے میں کردار ادا کیا۔سعودی عرب نے اس اقدام کو فلسطینی عوام کی انسانی مشکلات کم کرنے کی سمت ایک عملی آغاز قرار دیا، جو بالآخر اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور خطے میں امن و استحکام کی بحالی کی راہ ہموار کرے گا۔ مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ امن کے قیام کے لیے مسلسل اور مربوط اقدامات ناگزیر ہیں اور یہ عمل دو ریاستی حل کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ سعودی عرب کا مؤقف عرب امن منصوبے اور اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں سے ہم آہنگ ہے، جن کے مطابق 1967ء کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت دی گئی ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔
سعودی عرب نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے تمام بین الاقوامی کوششوں کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔
اس سے قبل اسرائیل اور حماس نے کل رات غزہ کے حوالے سے امریکی صدر کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدہ کیا، جس میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا انتظام شامل ہے، جو دو سال سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ ختم کرنے کے ایک معاہدے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ایک مجوزہ منصوبے پر ہونے والی بات چیت کے بعد کیا گیا۔
تنظیم نے جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا۔ معاہدے کے مطابق جنگ ختم کی جائے گی، اسرائیلی افواج غزہ سے چلی جائیں گی، امدادی سامان کو علاقے میں داخل ہونے دیا جائے گا اور حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔
بیان میں حماس نے ٹرمپ، معاہدے کے ضامن ممالک اور مختلف عرب، اسلامی اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اس معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد کا پابند بنائیں۔ تنظیم نے زور دیا کہ اسرائیلی حکومت کو “طے شدہ امور سے انکار یا تاخیر” کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔حماس نے قطر، مصر اور ترکیہ کی بطور ثالٹ کی کوششوں کو سراہا اور ٹرمپ کی ان کوششوں کی بھی تعریف کی جو “جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے کی جا رہی ہیں’’۔
مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقد بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے 20 نکات پر مشتمل امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدہ طے پایا، جس کا اعلان ٹرمپ نے پچھلے ماہ کے آخر میں کیا تھا، تاکہ غزہ میں امن قائم کیا جا سکے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ دونوں فریقوں کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب لے آئے گا، تاکہ اس جنگ کو ختم کیا جا سکے جو ایک وسیع تنازع میں تبدیل ہو چکی تھی، جس میں یمن کے حوثیوں اور لبنان میں حزب اللہ کی مداخلت شامل تھی، اس کے علاوہ پچھلے جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ بھی ہوئی، جس نے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی تنہائی میں اضافہ کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو جانے کے اعلان کے بعد ہی … وائٹ ہاؤس نے “امن کے صدر” کی تصویر جاری کر دی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر وائٹ ہاؤس کے سرکاری اکاؤنٹ سے ٹرمپ کی ایک تصویر جاری کی گئی، جس پر عبارت درج تھی “امن کے صدر” … یہ ان کے اُس کردار کی علامت تھی جو انھوں نے جنگ رکوانے میں ادا کیا۔
اسی دوران ٹرمپ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ انھیں “یقین ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو جائے گا”۔ انھوں نے فوکس نیوز کو دیے گئے ایک اور بیان میں کہا کہ جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، وہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ “پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن” کی جانب پیش رفت ہے۔
ادھر اسرائیلی صدر اسحاق ہیرتسوگ نے امریکی صدر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ “غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کرنے پر نوبل امن انعام کے حق دار ہیں۔”
انھوں نے جمعرات کو “ایکس” پر لکھا “اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس کے بدلے نوبل امن انعام کے حق دار ہیں۔” ہیرتسوگ نے اس معاہدے کو “خطے کے لیے مفاہمت، بحالی اور نئی امید کے افق کھولنے کا موقع” قرار دیا۔
اسی طرح اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے بھی صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے “قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاہدے تک پہنچنے میں کردار ادا کیا۔”
امریکا کے اسرائیل میں سفیر مائیک ہکابی نے بھی ٹرمپ کو “حقیقی امن ساز” قرار دیا۔
ٹرمپ نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ مصر میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں بڑی پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، امریکی امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت غزہ میں موجود تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی افواج کو ایک طے شدہ لائن تک واپس بلا لیا جائے گا۔
تاہم رائے متحد ہونے کے باوجود دو با خبر ذرائع نے بتایا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کے اہم نکات بدستور باقی ہیں … بالخصوص اسرائیلی انخلا کے طریقہ کار پر۔
روئٹرز کے مطابق حماس چاہتی ہے کہ قیدیوں کی رہائی سے منسلک ایک واضح اور طے شدہ ٹائم لائن دی جائے اور ساتھ ہی اس بات کی ضمانتیں فراہم کی جائیں کہ اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے حال ہی میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ “اس سال کے آغاز سے اب تک کئی جنگوں کا خاتمہ کر چکے ہیں”، اور کہا تھا کہ انھیں اس کے اعتراف میں “نوبل امن انعام سے نوازا جانا چاہیے۔”
واضح رہے کہ نوبل کمیٹی اس سال کا انعام یافتہ جمعے کو اعلان کرے گی، اس لیے غالب امکان ہے کہ جیتنے والا نام پہلے ہی طے کیا جا چکا ہے اور اب اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔