Wednesday, October 30, 2024
homeاہم خبریںاسرائیل کی بزدلانہ کارروائی مجاہد اسلام اسماعیل ہنیہ شہید ۔۔ خون شہادت...

اسرائیل کی بزدلانہ کارروائی مجاہد اسلام اسماعیل ہنیہ شہید ۔۔ خون شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔فلسطینی کا عزم مصمم

اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حزم، عامر اور محمد بھی اسرائیلی فضائیہ کے ایک حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔تین پوتیاں اور ایک پوتے نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔

تہران :(ایجنسی )

فلسطینی گروپ حماس نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ان کے ایک محافظ سمیت قتل کر دیا گیا ہے جو ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس نے اپنے بیان میں کہا: ’بھائی، رہنما، مجاہد اسماعیل ہنیہ، تحریک کے سربراہ، تہران میں اپنے ہیڈکوارٹر پر صیہونی فضائی حملے میں اس وقت قتل کر دیے گئے، جب وہ نئے (ایرانی) صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شریک تھے۔‘

نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری منگل (30 جولائی) کو تہران میں منعقد ہوئی تھی، جس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس سے قبل بدھ کی صبح ایرانی پاسداران انقلاب نے حماس سربراہ کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ پر حملہ ہوا اور وہ ایک محافظ سمیت مارے گئے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق: ’تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے گھر کو نشانہ بنایا گیا اور اس واقعے کے نتیجے میں وہ اور ان کا ایک محافظ شہید ہو گئے۔‘

پاسداران انقلاب نے مزید کہا کہ واقعے کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہے لیکن اس کی ’تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘

ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق حماس کے سربراہ ہنیہ کے قتل کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے اور جلد نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اسماعیل ہنیہ کی موت کی خبروں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

تاہم سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے حماس کو تباہ کرنے اور یرغمال بنائے گئے تمام افراد کو واپس لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ کی موت کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب گذشتہ روز ہی اسرائیلی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک حملے میں حزب اللہ کے فوجی کمانڈر فواد شکر کی موت کا دعویٰ کیا تھا۔

اسرائیل فوج کے مطابق: ’فواد شکر حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد ساتھی تھے اور حملوں اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ہدایت میں ان کے مشیر تھے۔‘ جبکہ ’غزہ تنازعے کے آغاز کے بعد سے فواد شکر نے اسرائیل پر حزب اللہ کے حملوں کا حکم دیا تھا۔‘

حماس کے پولیٹیکل بیورو کے ایک رکن موسیٰ ابو مرزوق نے ایک بیان میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک ’بزدلانہ فعل‘ ہے اور یہ ’رائیگاں نہیں جائے گا۔‘
اسی طرح حماس کے سینیئر عہدیدار سامی ابو زہری نے روئٹرز کو بتایا کہ حماس اس راستے کو جاری رکھے گی جس پر وہ چل رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمیں فتح کا یقین ہے۔‘

فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف متحد رہیں۔

اے ایف پی کے مطابق محمود عباس کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ریاست فلسطین کے صدر محمود عباس نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ فعل اور سنگین کشیدگی قرار دیا ہے۔‘ انہوں نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ متحد رہیں، صبر کریں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف ڈٹ جائیں۔

روئٹرز کے مطابق اسماعل ہنیہ کے قتل کے بعد فلسطینی قومی اور اسلامی دھڑوں نے عام ہڑتال اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کال دے دی ہے۔

مذمتی پیغامات

حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں اسرائیل کے ہاتھوں قتل کے واقعے کی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے جبکہ امریکہ نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسماعیل ہنیہ کے قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ’فلسطین کی آزادی کی تحریک ختم نہیں ہوں گی۔‘

جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے کہا گیا کہ ’اسماعیل ہنیہ کی خدمات کے اعتراف میں آج قومی اسمبلی، سینیٹ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کے اجلاسوں میں قرادادیں پیش کریں گے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے جمعے (دو اگست) کو ملک بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور اسماعیل ہنیہ کی موت پر احتجاج کی کال دے دی، جس کے دوران ملک بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔

اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اس ظلم کی قیمت چکانا ہوگی۔‘
بدھ کو ایکس پر اپنے پیغام میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ’اسرائیلی اقدام نے اس پورے خطے کو نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ جنگ اب غزہ تک محدود نہیں رہے گی۔ نئی صف بندی ہوگی۔‘
روئٹرز کے مطابق ترکی نے حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حملے کا مقصد غزہ میں جنگ کو علاقائی سطح پر پھیلانا ہے۔‘

ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ ’ایک بار پھر انکشاف ہوا ہے کہ (اسرائیلی وزیراعظم بن یامین) نتن یاہو کی حکومت کا امن کے حصول کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

روس کے نائب وزیر خارجہ نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’ناقابل قبول سیاسی قتل‘ قرار دیا ہے۔ روئٹرز نے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’یہ بالکل ناقابل قبول سیاسی قتل ہے اور اس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔‘

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر کی طرف سے فراہم کردہ ایک ہینڈ آؤٹ تصویر میں انہیں (دائیں) 30 جولائی 2024 کو تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ (درمیان) اور اسلامی جہاد گروپ زیاد نخلیح کے رہنما (بائیں) سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ کون تھے؟

اسماعیل ہنیہ حماس کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ رہے ہیں اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران سیزفائر کے لیے ہونے والے مذاکرات کا بھی حصہ رہے۔
1962 میں شمالی غزہ میں پیدا ہونے والے اسماعیل ہنیہ نے ابتدائی تعلیم بطور ایک پناہ گزین اقوام متحدہ کے سکول سے حاصل کی۔

وہ اپنے دور نوجوانی میں فلسطین کی جدوجہد آزادی سے منسلک ہوئے اور 80 اور 90 کی دہائیوں میں متعدد بار اسرائیل کی جیلیں کاٹیں۔

اسماعیل ہنیہ حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین کے ذاتی سیکریٹری تھے۔
2017 میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا، جو گروپ کے رہنماؤں کا اعلیٰ ترین دفتر کہلاتا ہے۔ سیاسی دفتر کے سربراہ ہونے کی وجہ سے ہنیہ کو حماس کا سربراہ بھی کہا جاتا تھا۔

سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل نے کئی مرتبہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے خاندان کے افراد کو نشانہ بنایا۔حماس کے مطابق رواں برس اپریل میں اسرائیل کے فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حزم، عامر اور محمد بھی اسرائیلی فضائیہ کے ایک حملے میں جان سے چلے گئے تھے۔ اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کے چار پوتے پوتیوں (جن میں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا شامل تھا) کی بھی موت ہوچکی ہے۔

تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل، جہاں وہ نئے ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کر رہے تھے، ایک اور اہم اور خطرناک پیش رفت ہے جو مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافے کے خدشات کو بڑھا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین