نئی دہلی: :
کانپور تشدد میں پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام لگ رہا ہے۔ لیکن پولیس نے جن 36 لوگوں کو گرفتار کیا ہے وہ سبھی مسلمان ہیں۔ اس سلسلے میں پتھراؤ کے جو ویڈیو سامنے آئے تھے ، ان میں صاف دکھاتھا کہ دونوں برادری ایک دوسرے پر پتھراؤ کررہے ہیں۔ ویڈیو کے ثبوت کافی اہم ہیں اور سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں ۔
شہر قاضی عبدالقدوس ہادی نے کہا کہ اگر تشدد ہوتا ہے تو اس کے دو فریق ہوتے ہیں۔ پولیس نے ایک فریق کے خلاف کارروائی کی ہے جب کہ دوسرے فریق جو جرم کے لئے معمول طور پر ذمہ دار ہے اسے چھوڑ دیا جا رہاہے ۔ اپنے دعوے کی تائید میں انہوں نے کہاکہ ایف آئی آر میں نامزد تمام 36 لوگ ایک ہی برادری سے تھے۔ دیگر برادریوں کےلوگوں کو کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا ہے یا ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی جارہی ہے ۔
شہر قاضی ہادی کا دعویٰ ہے کہ جب کانپور کے پولیس کمشنر کی کال پر لوگوں کو پرسکون کرانے گئے تو ان کے اور ان کےبیٹوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ یہ تمام کو دیکھنا چاہئے۔ اس کے حق میں ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔ پھر بھی پولیس نے میرے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا۔
دو بچوں کی ماں ثنا کا دعویٰ ہے کہ ان کےشوہر محمد ناصر تشدد کی جگہ سے تقریباً 5 کلومیٹر دور بکرا منڈی میں تھے، لیکن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ پولیس ہمارے کچھ رشتہ داروں کو گرفتار کرنے ہمارے گھر آئی تھی لیکن انہیں تلاش کرنے میں ناکام ہو کر پولیس میرے شوہر کو لے گئی۔ ان کا شوہر ایف آئی آر میں نامزد 36 ملزمان میں سے ایک ہے۔ ہندوتوا واچ کے ایک ہینڈل میں ایک مسلم شخص کو بھیڑ کے ذریعہ پیٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ پولیس اہلکار موجود ہیں۔ بعد میں دیگر پولیس اہلکاروں نے اس شخص کو بچا لیا ۔
جوائنٹ کمشنر آف پولیس آنند پرکاش تیواری نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ویڈیو ثبوت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ملزمان کے خلاف ایک فول پروف کیس ہے اور ہم ان کے الزامات کو عدالت میں ثابت کریں گے۔