محمدفاروق
بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ادب ایک طاقتور ذریعہ ہے جو معاشرے کو وسیع پیمانے پر متاثر کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں روشن خیالی اور بہتری آتی ہے۔ یہ فرد کو متاثر کرتا ہے ‘ اس کے اندر ون میں پائی جانے والی اخلاقی خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے ۔ اچھا ادب انسان اور اس کے کردار کی تعمیر میں مددگار ہوتا ہے۔ادب معاشرے کو تہذیبی بنانے کے ساتھ ساتھ زندگی کی قدروں کا درس بھی دیتا ہے اور ادوار کی ناہمواریوں اور تضادات کو اجاگر کر کے معاشرے کو مثبت پیغام دیتا ہے اور سماجی ترقی کو تحریک اور قوت ملتی ہے۔وغیرہ وغیرہ ۔یہ بھی زبان زدخاص و عام ہے کہ ادب کی بنیادی طور پر تین خصوصیات ہوتی ہیں جو اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ ادب ماضی سے متاثر ہوتا ہے‘ حال کی عکاسی کرتا ہے اور مستقبل کی رہنمائی کرتا ہے۔ ادب کو معاشرے کا آئینہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، جہاں آئینہ انسانی ظاہری خرابیوں اور خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے‘ ادب انسان کی اندرونی خرابیوں اور خوبیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ادیب ان تبدیلیوں کو بھی ادب میں جگہ دیتا ہے جو معاشرے میں رائج بگاڑ کو روکنے کےلئے درکار ہوتی ہیں۔ ادیب سے جن بڑی یا سنجیدہ ذمہ داریوں کی توقع کی جاتی ہے ان کا تعلق نہ صرف نظام کے استحکام اور نظام کی تبدیلی کےلئے منصوبہ بندی سے ہے بلکہ ان بنیادی اقدار سے بھی ہے جن سے وہ طے کرتے ہیں کہ مطلوبہ سمتیں کیا ہیں اور کہاں ہیں۔ لیکن فی زمانہ نہ وہ ادب نظرآرہاہے اور نہ ایسے ادیب نظر آرہے ہیں جن کی تخلیقات میں یہ تینوں خصوصیات پائی جاتی ہوں ۔
ممکن ہے اکثریت اس سے اختلاف کرے لیکن آج ادب کے نام پر جو کچھ سامنے آرہاہے اس کا متعد بہ حصہ اتنا بدصورت اور کریہہ ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے بھی گھن آتی ہے ۔ آج کے ادبا اورشعرا کی اکثریت تخلیق کابھاری پتھر اٹھانے کی بجائے مکھی پر مکھی مارنے کو ہی فنکاری کا معیار سمجھی ہوئی ہے ۔ تخلیقی صلاحیتوں کو زوال تو آیا ہی ہے تنقیدی سوچ اور فکری مشغولیت ختم ہوجانے کی وجہ سے خالص ادبی تخلیقات ناپید ہورہی ہیں ۔ نثر میں افسانے ہوں‘ ناول ہویا انشائیہ ان سب کا دائرہ اتنا تنگ ہوچکا ہے کہ اس میں سماجی مسائل کی سمائی ختم ہوگئی ہے ۔زمانہ کے دکھ درد کو سمجھنے کا شعور ناپید اورالفاظ سستے ومشینی ہوچکے ہیں۔ گل و بلبل کے قصے ‘ بے فیض عشقیہ کہانیوں کے گھسٹے پٹے موضوعات پر ادباکی پوری کھیپ خامہ فرسائی میں لگی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ سامنے آتا ہے اسے ’ افسانہ‘ کا نام دے دیاجاتا ہے ۔آج اردو میں بہت کم ایسے ادیب ‘ افسانہ نگار ہیں جن کی تخلیقات کے جوہری عناصرمیں میں فنکاری کے ساتھ حساسیت ‘ جذبات اور دردمندی پائی جاتی ہو۔منشی پریم چند نے کہا ہے ”ادب کے ذریعے ان لوگوں کی وکالت کرنا ادبا کی اخلاقی ذمہ داری ہے جو پس ماندہ ‘ محروم اور مصیبت زدہ ہیں“۔پریم چند نے اپنے افسانوں میں کسانوں اور مزدوروں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ان کے دکھ درد اور حساسیت کو زبان دی تھی ۔انسانیت اور انسانی مفادکی بالادستی ان کے پیش نظر تھی ۔ایسا نہیں ہے کہ آج مزدوروں اور کسانوں کے حالات میں انقلابی تبدیلی آچکی ہے ۔آج بھی انسان اپنے آپ سے جھگڑتارہتا ہے۔ اس کے موجودہ غم اس کی امیدوں کا منہ چڑاتے ہیں مگر وہ خوشگوارمستقبل کی تمنا سے تائب نہیں ہوتا ہے ۔آج بھی پسماندہ اورا ستحصال زدہ ایسے ہی حالات سے گزررہاہے جو پریم چندکے زمانے میں تھے ۔ مگرآج کے افسانوں میں نہ تو مزدور کے احوال نظرآتے ہیں اورنہ کسانوں اور دوسرے مظلوم طبقات کی نمائندگی کہیں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ انسانی درماندگی‘ تہی دامانی اور ناآسودگی کا حقیقی اظہار نظر نہیں آتا ہے جو ادب کا مقصود ہے اورجسے متاخرین نے اپنی تخلیقات میں برتا ہے ۔
امیر خسرو سے لے کرفیض تک نے سماج کی تعمیر نو میں اپنا بھر پورحصہ ڈالا۔ ذاتی نقصان اٹھانے کے باوجود‘ ظلم و جبر کے خلاف اپنی انگلیاں فگار کرتے رہے۔ سماج کے استحصال زدہ طبقے کے اس قدر قریب ہوئے کہ وہ خود ان کے دکھوں کا سامنا کرنے لگے اوراسے اپنی تخلیقات کا موضوع بناکرمعاشرے کی تعمیر کےلئے ادب کا مثبت استعمال کیا ۔ لیکن آج کی شاعری انتہائی ابتردور سے گزررہی ہے ۔نظم ‘ قصیدہ‘ مرثیہ کی روایت ختم ہورہی ہے۔ نظم کی شکل اور ہیئت کے ساتھ وہ وہ تجربے کئے جارہے ہیں کہ الحفیظ ‘ الاماں۔ جس کا ڈنکا بجایا جارہاہے وہ ہے غزل ۔غزل کے نام پر ہفوات بکے جارہے ہیں ‘ سنے جارہے ہیں اورا ن پر داد بھی دی جارہی ہے ۔تک بندی اور ترنم کے پہیوں سے آگے بڑھتی غزل میں سطحی خیالات ممکن ہے وقتی حظ کا سبب بن جائیں لیکن ایسی تخلیقات ’ادب کا کوڑھ ‘ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ شعراکی اکثریت استادوں سے مانگے اور خریدے ہوئے چراغ سے اپنے اپنے دیوان کی شمع جلارہی ہے ۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے ’ اردو شاعری کا زوال ‘ جیسے موضوعات اب باقاعدہ مذاکرہ اور بحث کا موضو ع بن چکے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ کسی قوم کی ادب و ثقافت کی صحت اور اس قوم کی مجموعی ترقی فلاح و بہبود کے درمیان ایک ان دیکھارشتہ ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں ادب کا یہ زوال در اصل ہماری معاشرتی زوال کا پرتوہے جیسا کہ شروع میں میں نے کہا ہے کہ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ سیاست اور معاشرت میں جتنا زوال آیا ہے اتنا ہی ادب میں بھی زوال آیا ہے۔ معاشرہ میں جارحیت‘تشدد‘ جہالت کا دور دورہ ہے‘فکر و احساس میں تغیرات آئے ہیں ۔ معاشرہ کا پورا زور ہر چیز کے مادی اور افادی پہلوپر ہے۔ انسانیت کا بنیادی جوہرسمجھی جانے والی خودداری‘ صلہ رحمی ‘ وفاداری ‘ احساس ذمہ داری جیسی اعلیٰ اخلاقی صفات معاشرہ سے ختم ہورہی ہیں ۔ادبا و شعرابھی اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اسی کسوٹی پرکھ رہے ہیں معاشرتی اقدار کا تعین کرنے کی بجائے وہ معاشرہ کے متعین کردہ اقدار پر عمل کررہے ہیں۔عصری مسائل سے قطعاً لاتعلق ہوکر صرف ادب اور شاعری کے مادی اور افادی پہلوﺅں پر توجہ دے رہیں اور نتیجہ میں ایسی تخلیقات سامنے آرہی ہیں جنہیں ’ ادب کا کوڑھ ‘ بھی کہاجاسکتا ہے ۔
ضرورت ہے کہ عصری ادب کوتہذیبی اقدار کا آئینہ دار اور زندہ و فعال شعور و احساس کا ترجمان بنایاجائے۔ تخلیقات کے موضوع میں سماجی اور معاشرتی اصلاح کا بھی احاطہ کیاجائے۔ کچھ مرکزی جامعات میں مامور غلیظ اور متعفن کردار کے حامل راشی پروفیسروں کو ایکسپرٹ کے نام پر سر پر بٹھاکر دنیا کی سیرکرانے کی بجائے قمارخانہ عشق میں گرہ کا مال لٹانے والوں کی آشفتہ سری کا ساتھ دیا جائے ۔ نئی نسل کو آگے لایاجائے جوبصد جبرو کراہ ’ادب اور ادیب کا مردہ ‘ ڈھورہی ہے۔یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ ’فالج زدہ زعمائے ادب‘کی بجائے یہ نئی نسل ہی ہے جو عصری ادب کو عصری مسائل کا ترجمان بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی بھی رہنمائی کرنے کا جوہر رکھتی ہے ۔
بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا