کلکتہ 27مارچ
ایک ایسے وقت میں جب بی جے پی اور ترنمول کانگریس پولرائزیشن کے ذریعہ اسمبلی انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہی ہے۔اس درمیان کانگریس، بائیں محاذ اور آئی ایس اتحاد اپنے وجود کو قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس امیدکے ساتھ میدان میں ہے کہ وہ کنگ میکر بن کر سامنے آئے گی۔
کانگریس اور سی پی آئی ایم کی قیادت والی بائیں محاذجس نے بنگال میں 34 سالوں تک حکمرانی کی تھی اب بنگال کی سیاست میں حاشیائی کردار میں ہے۔اب کانگریس اور سی پی ایم 2016کے بعد سے ہی ایک ساتھ ہیں۔فرفرہ شریف کا پیر زادہ عباس صدیقی کی جماعت بھی نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود اس اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔کانگریس اور بائیں بازو کے لئے، بنگال اسمبلی انتخابات سیاسی بقا کی جنگ ہے۔آئی ایس ایف جو بنگال میں اپنی نوعیت کا پہلی سیاسی جماعت ہے جو ایک مذہبی رہنما کے ذریعہ تشکیل دیا گیا ہیوہ اپنے وجود جو ثابت کرنے اور بنگال کی سیاست میں ایک نئی لکیر کھینجنے کی کوشش کررہی ہے۔اس اتحاد کو سنگیوکت مورچہ کا نام دیا گیا ہے۔یہ مورچہ بنگال غیر بی جے پی اور غیر ترنمول کانگریس متبادل کے طورپر پیش کررہی ہے۔بائیں محاذ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے بی جے پی خود کو تسلیم کرانے میں کامیاب رہی ہے۔2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے عروج کے رد عمل میں مسلم ووٹ ایک طرفہ ترنمول کانگریس کی طرف چلا گیا اور اس کی وجہ سے ترنمول کانگریس 22سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تاہم، آئی ایس ایف کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے کانگریس اور بائیں بازو کو سیکولر ووٹ سے محروم ہوجانے کا بھی خطرہ ہے۔صداگرچہ ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں نے کانگریس اور بائیں محاذ اور آئی ایس ایف اتحاد کی سخت تنقید کی ہے مگر بھگو اکیمپ انتخابی میدان میں آئی ایس ایف کے داخل ہونے سے خوش ہے۔ اس کو امید ہے کہ آئی ایس ایف کی آمد اقلیتی ووٹ بینک پرترنمول کانگریس کی پکڑ کمزور ہوگی جس کی وجہ سے ترنمول کانگریس 2019میں بڑی جیت حاصل کی تھی۔
سی پی آئی ایم کے پولیٹ بیورو کے ممبر محمد سلیم نے کہا،کہ ہمیں امید ہے کہ بنگال انتخابات میں اتحاد گیم چینجر ثابت ہوگا۔ بی جے پی اور ترنمول کانگریس ووٹنگ کو ایک دو جہتی لڑائی بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے اسے سہ طرفہ مقابلہ بنادیا ہے۔ ریاست میں ترنمول کانگریس اور مرکز میں بی جے پی کے ذریعہ بد انتظامی سے عوام تنگ آچکے ہیں۔
کانگریس کے رہنما پردیپ بھٹاچاریہ نے کہا کہ یہ اتحاد حیران کن نتائج کے ساتھ سامنے آئے گا۔عباس صدیقی نے کہاکہ ہم نے عوام کی خواہش کے بعد ہی انتخابی سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے کہ او ر ہمیں امید ہے کہ نتائج کے بعد کنگ میکر بنیں گے۔ ہمارے تعاون کے بغیر کوئی بھی حکومت تشکیل نہیں دے سکتاہے۔خیال رہے کہ بائیں محاذ 177، کانگریس کو 91 اور آئی ایس ایف نے 26 نشستوں پر انتخاب لڑا ہے۔
کانگریس اور بائیں بازو دونوں کے ذرائع کے مطابق، اتحاد وقت کی ضرورت تھی۔ دونوں جماعتوں نے 2016 کے اسمبلی انتخابات میں اتحاد کیا تھا اور36 فیصد ووٹ شیئر حاصل کیا تھا۔، اگلے تین سالوں میں اس کے ووٹوں کی فیصد میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔
دونوں پارٹیوں نے 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں الگ الگ انتخاب لڑا اس کی وجہ سے ان دونوں کے ووٹنگ شرح میں بڑی گراوٹ آئی۔لوک سبھا انتخابات میں بائیں محاذ ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی جب کہ کانگریس نے صرف ددسیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔سری طرف بی جے پی نے 18اور ترنمول کانگریس نے 22 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔
بنگال اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عبد المان نے کہاکہ ‘یہ اتحاد وقت کی ضرورت تھی کیونکہ ہم اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ترنمو ل کانگریس نے مسلم ووٹوں اور ہندوؤں ووٹوں کو بی جے پی نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، جبکہ ہم کہیں بھی منظر عام پر نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترنمو ل کانگریس نے ہی بی جے پی کیلئے راہ ہموار کی۔بائیں بازو اور کانگریس کا زوال بی جے پی کے عروج سے وابستہ ہے۔
سی پی آئی ایم کی مرکزی کمیٹی کے ایک لیڈر نے کہاکہ گزشتہ انتخاب میں کانگریس اور بائیں محاذ نے 77سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔یہ تمام سیٹیں مرشدآباد، مالدہ،شمالی اور جنوبی دیناج پور سے ہیں اور یہ مسلم اقلیتی علاقہ ہے۔ان سیٹوں پر دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہمیں آئی ایس ایف کی ضرورت تھی۔ہمیں امید ہے کہ جو ووٹرس بی جے پی اور ترنمول کانگریس کی علاماتی سیاست سے نالاں ہیں وہ ہمارے ساتھ آئیں گے۔
سی پی ایم لیڈر نے کہا کہ ہم لوگ اپنا محاسبہ کررہے ہیں اور اپنی زمینی طاقت کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہمارا مقصد ہے کہ دونوں کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔دوسری جانب کانگریس نے اشارہ کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو مہاراشٹر ماڈل کو یہاں اپنا یاجائے گا اور کانگریس کنگ میکر کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے گی۔
دوسری جانب آئی ایس ایف کے صدر نوشاد صدیقی کہتے ہیں کہ ہم مسلم جماعت نہیں ہیں بلکہ ہم ایک سیکولر جماعت ہیں اور اب ہم گیلری میں بیٹھ کر تماشا دیکھنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ کھلاڑی کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔بی جے پی نے آئی ایس ایف کو مسلم لیگ کی جانشیں قرار دے کر یہ باورکرانے کی کوشش کررہی ہے کہ آزادی سے قبل والے حالات پید اکئے جارہے ہیں۔ترنمول کانگریس کا الزام ہے کہ سی پی ایم اور کانگریس نے آئی ایس ایف کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مغربی بنگال میں یہ پہلی ایسی سیاسی جماعت ہے جسے مسلم طبقے نے تشکیل دی ہے۔آزادی کے بعدابتدائی سالوں میں پروگریسو مسلم لیگ اور انڈین یونین مسلم لیگ جیسی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں تھیں۔ 1977کے بعد یہ جماعتیں ختم ہوگئیں۔
تاہم کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں دوستانہ ماحول ہے۔آئی ایس ایف کانگریس سے خوش نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود کئی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ یہ اتحادترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں کو نقصان پہنچائیں گی۔ایک طرف جہاں آئی ایس ایف کو ملنے والا مسلم ووٹ کی وجہ سے ترنمول کانگریس کو نقصان ہوگا وہیں ممتا بنرجی مخالف ووٹ کی تقسیم کا نقصان بی جے پی کو اٹھانا پڑے گا۔