کلکتہ : انصاف نیوز آن لائن
اتراکھنڈ کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے اتراکھنڈ اقلیتی تعلیمی ادارہ بل، 2025 متعارف کرانے کا فیصلہ منظور کیا ہے، جو دیگر پہلوؤں کے علاوہ، مدرسہ بورڈ اور اقلیتی اداروں سے متعلق قوانین کو منسوخ کردیا جائے گا۔ یہ بل آج 19اگست سے شروع ہونے والے ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔یہ بل سکھ، جین، بدھسٹ، عیسائی اور پارسی برادریوں کے زیر انتظام اداروں کو اقلیتی حیثیت کے فوائد بھی فراہم کرے گا۔ اس اقدام کو مدرسوں کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مدارس اسلامیہ مسلمانو ں کے کمزور طبقات میںتعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔مسلمانوںکو خدشہ ہے کہ مجوزہ قانون آئین کے آرٹیکلز 26 اور 30 کے تحت ان کے تعلیمی اداروں کو چلانے اور مذہبی امور کے انتظام کے حقوق کو کمزور کرے گا۔یہ بل شاید اپنی نوعیت کا پہلا مسودہ قانون ہے، جو اقلیتی تعلیمی اداروں کی حیثیت کے فوائد کو مسلم برادری کے علاوہ دیگر اقلیتی برادریوں تک وسعت دیے گا۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ’’اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ، 2016 اور اتراکھنڈ غیر سرکاری عربی اور فارسی مدرسہ تسلیم شدہ قواعد، 2019 یکم جولائی 2026 سے منسوخ ہو جائیں گے۔اس بل کے مطابق، اقلیتی تعلیمی اداروں میں گرموکھی اور پالی کی تعلیم کو بھی تسلیم کیا جائے گا، جبکہ اقلیتی تعلیمی اداروں کی حیثیت اتراکھنڈ اسٹیٹ اتھارٹی فار مائنارٹی ایجوکیشن کے ذریعے دی جائےگی۔اس کا قیام جلد کیا جائے گا۔یہ اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تعلیم اتراکھنڈ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے معیارات کے مطابق ہوں۔ اور طلبا کی تشخیص منصفانہ اور شفاف رہے۔تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرنے کے لیے، تعلیمی اداروں کو سوسائٹی ایکٹ، ٹرسٹ ایکٹ یا کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے۔ زمین، بینک اکاؤنٹس اور دیگر اثاثوں کی ملکیت ادارے کے نام پر ہونی چاہیے۔ بل کے مطابق، مالی بدانتظامی، شفافیت کی کمی، یا مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے خلاف سرگرمیوں کی صورت میں تسلیم شدہ حیثیت واپس لی جا سکتی ہے۔
بل دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اقلیتی تعلیمی اداروں کو تسلیم کرنے کے لیے ایک شفاف عمل بنایا ہے، جبکہ تعلیم کے معیار بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔بی جے پی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اقلیتوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور اداروں کے کام کو باقاعدہ ہدایات کے ساتھ سختی سے مانیٹر کیا جائے گا۔موجودہ قواعد مدرسہ بورڈ کو نصاب ترتیب دینے، رہنما خطوط طے کرنے، امتحانات منعقد کرنے اور مدرسوں کی اہلیت کے معیار کو یقینی بنانے کے بھی اختیارات دیتا ہے۔فی الحال، بورڈ کے پاس ایک تسلیمی کمیٹی ہے جو مدرسوں کو تسلیم کرنے سے متعلق معاملات کو سنبھالتی ہے۔ قواعد کے مطابق، “کمیٹی میں 13 رکنی بورڈ کی طرف سے نامزد ایک رکن، ایک ماہر تعلیمی رکن، ڈپٹی رجسٹرار، اور ایک ہیڈ ماسٹر درجہ کا رکن شامل ہوگا۔مجوزہ بل کے نتیجے میں اداروں کی تسلیمی حیثیت ختم ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ سکھ، جین، عیسائی، بدھسٹ اور پارسی برادریوں کو اقلیتی تعلیمی ادارے چلانے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ موجودہ قانون صرف مسلم برادری کے لیے ہے۔ فی الحال، ریاست بھر میں 452 سرکاری طور پر تسلیم شدہ مدرسے کام کر رہے ہیں۔
پشکر سنگھ دھامی حکومت کا یہ بل متعارف کرانے کا اقدام مدرسہ بورڈ یا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ تسلیم نہ کیے گئے مدرسوں کو بند کرنے کی مہم کے چھ ماہ بعد آیا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے ریاستی سیکرٹری خورشید احمد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ابتدائی طور پر یونیفارم سول کوڈ نے مذہب پر عمل کرنے کے حق کو محدود کردیا ہے، اینٹی کنورژن ایکٹ نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ مدرسہ بورڈ کے خاتمے سے مذہبی تعلیم متاثر ہوگی۔ بی جے پی حکومت آئین کے ذریعہ مسلم برادری کو دیے گئے حقوق کو کمزور کرنے کی پالیسیاں نافذ کر رہی ہے۔ ہم بل کے متعارف ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا اسے قانونی طور پر چیلنج کیا جاسکتا ہے یا نہیں ہے۔
دوسری طرف، ریاستی بی جے پی کے لیڈر مہندر بھٹ نے کہا کہ یہ قانون پارٹی کے نعرے “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کی عکاسی کرتا ہے اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ اب تک صرف مسلم برادری ہی اقلیتی تعلیمی اداروں کے فوائد حاصل کر رہی تھی۔ مجوزہ بل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دیگر اقلیتی برادریوں کو بھی فائدہ ملے۔ یہ بل اہم ہے کیونکہ حال ہی میں تعلیمی اداروں سے متعلق کئی بے ضابطگیاں اور گھوٹالے سامنے آئے ہیں۔
اس اقدام کو افسوسناک اور سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے، اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس رہنما ہریش روات نے مدرسہ بورڈ کو جدید بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ مدرسے ہمارے تعلیمی نظام کے لیے معاون ہیں۔ جس طرح سنسکرت اسکولوں میں پنڈت پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح مدرسوں سے مذہبی فلسفے کے عالم پیدا ہوتے ہیں۔ اگر بورڈ میں خامیاں ہیں تو انہیں درست کیا جائے۔ یہ بل اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی حالیہ پنچایت انتخابات میں اپنی کارکردگی سے ناراض ہے۔روات نے بی جے پی کو تنگ نظر قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ وہ “مدرسہ” جیسے اردو الفاظ سے کیوں نفرت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پیداوار ہے اور مدرسوں کی ملک کی آزادی کی تحریک سے وابستہ اپنی تاریخ ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ حکومت کی مدرسوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے، تو روات نے کہا کہ یہ واقعی بی جے پی کا ارادہ ہے، لیکن وہ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ماہرین کا خیال ہے کہ مذہبی تعلیم اقلیتوں، بشمول مسلم برادری، کا حق ہے، اور ایک سیکولر ملک میں، جو آئین کے تحت چلتا ہے، اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی کا مسلم مکت اتراکھنڈ کا تفرقہ انگیز نعرہ آئینی اقدار کے بالکل برعکس ہے اور پارٹی کے اکثریتی ایجنڈے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس متنازعہ بل کی منظوری کے ساتھ، حکمراں جماعت نے اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔