Wednesday, October 30, 2024
homeادب و ثقافتنئے نقاد کے نام خطوط (ایک غیر رسمی گفتگو)

نئے نقاد کے نام خطوط (ایک غیر رسمی گفتگو)

خالد جاوید

ناصر عباس نیر کا شمار ہمارے عہد کے اہم ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔ Literary تھیوری اور مابعد جدیدیت بالخصوص پوسٹ کلونیل ڈسکورس کو اردو میں باقاعدہ متعارف کرانے اور اسے وسیع پیمانے پر مقبول کرنے میں صرف ان کا ہی رول ہے اور کسی کا نہیں۔ ناصر عباس نیر بہت عمدہ افسانہ نگار ہیں اور میں ان کے افسانے ’اوراق‘ کے زمانے سے پڑھتا چلا آ رہا ہوں۔ ابھی حال ہی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ”راکھ سے لکھی کتاب“ شائع ہوا ہے جس پر میرے خیال میں ابھی اتنی تفصیل کے ساتھ گفتگو نہیں ہوئی ہے جس کی یہ کتاب حق دار ہے۔

جہاں تک اس کتاب یعنی ”نئے نقاد کے نام خطوط“ کا سوال ہے تو میرے خیال میں یہ ایک انوکھی کتاب ہے اور اپنی طرز کی اکلوتی بھی۔ ناصر عباس نیر نے اس کتاب میں تنقید نگاری کے اسلوب کا ایک نیا یا متبادل ماڈل پیش کیا ہے اور ان تمام خطرات کا سامنا کیا ہے جو روایتی تنقیدی اسلوب سے ہمیشہ، متبادل تنقیدی اسلوب کو درپیش رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ میں ”متبادل تنقید“ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا ہوں جو اکثر تاثراتی تنقید وغیرہ کے مترادف مانا جاتا ہے۔

میں Style of Writing کی بات کر رہا ہوں۔ کمال یہ ہے کہ ناصر عباس نیر نے خطوط کے اسلوب میں تنقیدی ڈسکورس قائم کیا ہے۔ خطوط ہمیشہ اپنی ماہیت میں Personal اور بے تکلف ہوتے ہیں اور جذباتی کیفیات اور احساسات سے بھرے ہوتے ہیں۔ مگر جیسا کہ عرض کیا کہ کمال یہ ہے کہ اس Personal اور بے تکلف اسلوب میں، تنقید کے حوالے سے ”معروضیت“ ہی بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ نجی انداز میں معروضیت کا عنصر پیدا کرنا آسان کام نہیں تھا۔ یہ ایک کارنامہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ لہجہ پھر بھی معروضی نقاد کا رہتا ہے، اسلوب بھلے ہی خط کا ہو۔ میں مثالیں دینے سے گریز کر رہا ہوں کہ وقت کم ہے۔ یہ کام میں اس دن کے لیے چھوڑتا ہوں جب اس کتاب پر میں تفصیل کے ساتھ ایک مضمون لکھوں گا۔

33 خطوط ہیں اس کتاب میں اور ہر خط اپنے آپ میں ایک علمی سرمایہ ہے۔ کوئی کوئی خط تو لیکچر کی طرح بھی لگتا ہے اور مجھے بے اختیار لاکاں کے Seminars یاد آ جاتے ہیں۔ جہاں تک متبادل تنقیدی اسلوب کی روایت کا سوال ہے تو اردو میں یہ پہلی بار ناصر عباس نیر کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔ مجھے کچھ کتابیں یاد آئیں جن میں سے دو کا ذکر خود ناصر عباس نیر نے بھی کیا ہے، یعنی رلکے کی Letters to a Yong Poet، جس میں فرانز کاپو نام کے ایک فوجی رنگروٹ کو 1903 سے 1908 تک لگاتار خط لکھے گئے تھے

یہ کتاب 1929 میں رلکے کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی اور آج اس کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ شاعری سے بھی زیادہ۔ دوسری کتاب یوسا کی Letters to a Yong Novelist ہے۔ رلکے کا مخاطب اصل شخص تھا جب کہ یوسا کا جواں سال ناول نگار ایک مفروضہ ہے۔ اس حوالے سے جیمس جوائس کے خطوط بھی اہم ہیں۔ متبادل تنقیدی اسلوب کے حوالے سے وزیر آغا کی کتاب ”دستک اس دروازے پر“ بھی اہم ہے اور مجھے جگہ جگہ اس کی یاد آئی۔ مکتی بودھ نے نیمی چندر جین کو جو خطوط لکھے ان میں ادب کے حوالے سے بڑی بصیرت آمیز گفتگو کی گئی ہے۔

خطوط کے علاوہ ڈائری اور مکالمات بھی متبادل علمی اسلوب کی مثالیں ہیں۔ مثلاً مکالمات افلاطون، مکالمات برکلے اور یہاں تک کہ مہاتما گاندھی کی کتاب ’ہند سوراج‘ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ پنڈت نہرو نے Glimpsis of World History کے نام سے جو خط لکھے ہیں انھیں آج عالمی تاریخ کی اہم کتاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جسٹن گارڈر کا ناول ’صوفی کی دنیا‘ (ناروے ) پوسٹ کارڈ کے ذریعے، ناول کے فارم میں فلسفے کی تاریخ کو بیان کرتا ہے ( 1995 میں انگریزی میں ترجمہ) ۔

کہنے کا مطلب یہ کہ فلسفے اور ادب کی دنیا میں گہرے فکری مسائل کے لیے ہمیشہ سے ایک متبادل اسلوب موجود رہا ہے، مگر ناصر عباس نیر کی اس کتاب کی شان ہی کچھ اور ہے کہ یہ نوجوان نقاد سے مخاطب ہو کر تنقید کا دفاع بھی کرتی ہے اور نیا تنقیدی ڈسکورس بھی سامنے لاتی ہے۔ یوں اگر دیکھیں تو خطوط کی شکل میں دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ پہلا تو وہ جس میں خط لکھنے والے کا مخاطب کوئی اصل کردار ہوتا ہے۔ مثلاً رلکے کے خطوط یا پھر وان گاف کے خطوط۔

دوسرا ہمنگ وے کے خطوط، سیموئل بیکٹ کے خطوط وغیرہ۔ اور دوسری قسم وہ ہے جس میں خط لکھنے والا ایک نادیدہ قاری کو خط لکھتا ہے۔ مثلاً یوسا کے خطوط جو ایک نئے ناول نگار کے نام ہیں۔ ناصر عباس نیر کی یہ کتاب دوسری قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں خود اپنے ہی وجود کو کمال خوبی کے ساتھ دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ایک ناپختہ یا نیم پختہ نقاد کاہے، جس کا ذہن شک و شبہات سے گھرا ہوا ہے اور کنفیوژ ہے، جب کہ دوسرا وجود ایک پختہ علمی نقاد کا ہے جو تنقید کو اس کی سالمیت میں دیکھتا اور سمجھتا ہے۔

اس طرح اگر ہم دیکھیں تو یہ کتاب ایک طرح سے اپنے ہی اندر پیوست ہر سطر (Other) کا احترام کرتی ہے۔ یہ ان شکوک کا اظہار کرتی ہے جو خود کسی مان لیے گئے نقاد (Assume Critic) کے باطن میں موجود ہے۔ اس طرح یہ کتاب ایک قسم کا کارنیوال بھی ہے۔ یہ صحیح معانی میں ایک ادبی تشریح ہی نہیں بلکہ ایک ذاتی محاسبہ بھی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ Self Referential Critique کی طرف بڑھنے والی ایک انتہائی اہم کتاب ہے۔

نیا یعنی نوجوان جس کی عمر کم ہے اور اور جس کے جسم کے غبارے میں ابھی اتنی نہیں ہوا نہیں بھری ہے کہ اسے حقیقتوں کے اصل معنی کا ادراک ہو سکے۔ اس لیے سب سے پہلا کام تو یہ کتاب یہ کرتی ہے کہ تنقید کو نوجوان نقاد کے ذہن میں پیدا ہونے والے رومانی عناصر سے پاک کرتی ہے۔ یہ امر اس وقت کھل کر سامنے آتا ہے جب ان 33 خطوط میں سے ہر ایک کا غائر مطالعہ کیا جائے۔ ہر خط کسی نہ کسی ادبی، فکری، فنی، تنقیدی مسئلے کو دو الگ الگ وقتوں میں فریم کر کے پیش کرتا ہے۔

ایک وقت مسائل یا شک و شبہات کا ہے، نیم پختہ اور جذباتی ہے، جب کہ دوسرا وقت چیزوں کو ان کی اصل ماہیت میں سمجھنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ بورخیس اور وقت کے حوالے سے کتاب میں کئی جگہ گفتگو کی گئی ہے اور قدیم یونانی فلسفی زینو اور اس کے مشہور قول محال (Paradox) کے حوالے سے بھی ادبی مسائل اور فن پاروں کے اسرار کو سمجھنے کے لیے اتنا بصیرت آموز ڈسکورس میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اور جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

ایک بالکل الگ بات کہ یہ کتاب ایک طرح سے تنقید کی دفاع کے بارے میں بھی ہے۔ جیسا کہ ناصر عباس نیر نے خود اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ آج کل تنقید بطور صنف ادب، طنز و تضحیک کی زد پر ہے۔ شاید اس کتاب کو لکھنے کا بنیادی محرک یہی نقطہ ہے۔ (ویسے یہ رویہ کم و بیش ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ میں اردو کا شاید وہ واحد کہانی کار ہوں جس نے اپنے ناولوں کے پیش لفظ میں تنقید کی اہمیت اور ناقد کے رول کا بہت احترام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اس کی وجہ شاید میرا فلسفے کی طرف رجحان ہی ہو سکتا ہے۔ مگر زیادہ تر تخلیق کار ایسے ہیں جنھوں نے واقعی ہمیشہ تنقید کا مضحکہ اڑایا) ۔ اس اعتبار سے بھی یہ کتاب بہت اہم ہے اور روایتی انداز میں کہوں تو سونے میں تولنے کے لائق ہے۔ مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں کوئی بہت پڑھا لکھا آدمی ہوں، لیکن جتنا بھی پڑھا ہے اس کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ اس غیرمعمولی کتاب میں جن مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو کی گئی ہے اس کی مثال مجھے ادب یا ادبی تنقید میں نہیں ملی۔

ہاں فلسفے کے تعلق سے ایک کتاب مجھے بار بار یاد آتی رہی میری بہت محبوب کتاب ہے، جس کا نام Difference and The Power of Negative ہے۔ اس میں Deluze اور Derida کے خیالات کو ایک جدلیاتی پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ وہ فلسفے کی کتاب ہے، ادب کی نہیں۔ مگر میں ذاتی طور پر اس معیار کی بات کر رہا ہوں کہ ناصر عباس نیر کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے صرف اسی ایک کتاب کی یاد آتی رہی۔

ذاتی طور پر مجھے اس کتاب کا وہ حصہ بہت پسند آیا جس میں قول محال کے مسئلے کو ریاضی اور فلسفے کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ جہاں تک کے زینو Paradox کا حوالہ ہے، یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اسے قدیم یونانی فلسفے اور ریاضی کا کھیل سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے۔ خود بورخیس نے اکیلس اور کچھوے کی دوڑ، ایڈورڈ فنٹس جیرالڈ کا مسئلہ، اپولیزے کے قول محال پر باقاعدہ مضامین لکھے ہیں۔ یوں بھی بورخیس کا پورا فکشن جیومیٹری اور ریاضی اور عکس اور آئینہ کے چاروں طرف گھومتا ہے۔

ویسے ریاضی میں صرف زینو کا ہی Paradox نہیں بلکہ کل آٹھ پیراڈاکس ہیں، اگرچہ مشہور زیادہ تر زینو کا پیراڈاکس ہی رہا ہے۔ یہ بھی غور کرنے لائق ہے کہ بورخیس کی محبوب کتابوں میں سے ایک جیمس نیوٹن کی کتاب Mathematics and Imagination بھی ہے۔ زینو کی اس پہیلی پر بورخیس کے علاوہ بہت سے فلسفیوں اور ادیبوں نے لکھا ہے۔ مثال کے طور پر برٹنرڈرسل نے لارنس ایسٹرن کے ناول ٹرسٹم شینڈی پر زینو کے اس قول محال کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔

یہ مسائل آج کمپیوٹر سائنس تک میں موجود ہیں۔ مثلاً کمپیوٹر سائنس P اور NP کی پرابلمس، ڈوریا کے چیلنجز اور ہیملٹن گراف بھی ایک معمہ ہی بنے ہوئے ہیں۔ فن پارے کی سچائی تک پہنچنے کا جو راستہ ان پیراڈاکسز کی مثال سے ناصر عباس نیر کی یہ کتاب ہمیں دکھاتی ہے، وہ اپنے آپ میں ایک واقعہ ہے اور اس امر کی دلیل بھی کہ ناصر عباس نیر سکہ بند نقاد نہیں ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جو فن پارے کی حیثیت کو احترام اور استفہام بخشتے ہیں۔

ناصر عباس نیر خود لکھتے ہیں کہ وہ فن پارے کی پیدائش کو تاریخ کا بڑا واقعہ سمجھتے ہیں۔ وہ خود بھی فن کار ہیں اس لیے یہ کتاب صرف کسی نئے نقاد کے لیے نہیں ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ انسانوں نے اپنی وحشت میں دستیاب دنیا کو ٹھکرانے سے رفتہ رفتہ ایک تعریف مرتب کی ہے۔ ہر فن پارہ اسی تعریف کا واقعہ ہے۔ ہر فن پارہ ایک واقعہ ہے۔ اور ایسا واقعہ نہیں کہ اسے نظرانداز کر دیں۔ اسے آدمی سے زیادہ آدمی کی وحشت تخلیق کرتی ہے۔

ایسے ہی بصیرت آمیز جملوں سے یہ پوری کتاب بھری ہوئی ہے۔ یعنی یہ کسی نام نہاد نئے نقاد کے لیے نہیں پرانے نقاد کے لیے بھی اور ہر سوچنے سمجھنے والے ذہن کے لیے ہے۔ یہ بصیرت کا ایک انسائیکلوپیڈیا یا انگریزی میں کہیں تو Bible of Insight ہے۔ یہ کتاب خود بھی ادبی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ مبارکباد کے رسمی الفاظ ایسے واقعات کا حق ادا نہیں کر سکتے۔

ایک اور منفرد امر یہ ہے کہ میں نے کسی بھی تنقیدی کتاب میں ”وقت“ کے تصور پر ایسی بحث نہیں دیکھی جو فن پارے کے اسرار کو سمجھنے میں مدد کرتی ہو۔ اس کتاب میں جگہ جگہ زینو کے قول محال کے علاوہ (جو خود وقت اور فاصلے کی ایک ناممکن مساوات ہے ) بورخیس کی کہانیوں کے حوالے بھی موجود ہیں۔ مثلاً فیونیز کی یادداشت۔ مجھے اس مقام پر بورخیس کی کچھ اور کہانیاں بھی یاد آ رہی ہیں جو وقت کے Circular تصور پر بھی مبنی ہیں اور وقت کے Layered تصور پر بھی۔

مثلاً بورخیس کی کہانی شیکسپئر کی یادداشت، جس میں ایک شخص پر شیکسپئر کی یادداشت آ کر سوار ہو جاتی ہے۔ یعنی بیسویں صدی میں پندرہویں صدی کی Memory (جو ایک عذاب ہے ) یا بورخیس کی ریت کی کتاب یا پھر Aleph جس میں بورخیس ایک ایسے ناممکن ملک کی کہانی بیان کرتے ہیں جس کا Center (مرکز) ہر جگہ ہے مگر جس کا Circumference یعنی ”حلقہ“ کہیں نہیں ہے۔ بورخیس کی کہانی ”نیلے شیر“ کا مسئلہ بھی وقت ہے کہ پتھر کے ٹکڑوں کی گنتی ہر بار کچھ کم یا زیادہ ہوجاتی ہے۔

فریدالدین عطار کی منطق الطیر سے بھی بورخیس متاثر تھا کہ پرندے سیمرغ ڈھونڈنے نکلتے ہیں مگر بعد میں پتا چلتا ہے کہ سیمرغ تو دراصل وہ خود تھے۔ وقت اور دوری کے فلسفیانہ اسرار کے باوصف حقیقت کس طرح تبدیل ہوتی ہے یہ کوئی بورخیس سے سیکھے۔ یہ مسائل آج کی Artificial Intelligence تک چلے آئے ہیں۔ ایک Super Computer کے ڈیٹا یعنی Memory کو کس طرح Distribute کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب محض تخیل نہیں، یہ حقیقت کو جان لینے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے اس کا ایک دوسرا رخ ہے۔

بورخیس کی ایک کہانیOn Executed in Science میں تو عجیب مصیبت سامنے آتی ہے۔ یہ کہانی نقشہ نویسی کے بارے میں ہے کہ کسی زمانے میں نقشہ نویسی کا فن اتنا ترقی کر گیا تھا کہ کسی ملک یا صوبے کا نقشہ ٹھیک اس ملک یا صوبے کے برابر ہو جاتا تھا۔ بورخیس نے Circular Time، Refutation of Time اور وقت کے دوسرے مسائل پر بھی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ بورخیس نے ولیم فاکنر کے مشہور ناول Ahsdom اور Huxeley کے چند ناولوں پر بھی اس حوالے سے مضامین لکھے ہیں۔

کنگ کانگ اور Street Scene جیسی فلموں پر بورخیس نے جو تبصرے لکھے ہیں ان میں بھی وقت کی مختلف Layers کے حوالے موجود ہیں۔ یعنی ”وقت“ کس طرح گزرتے ہوئے وقت کے برابر ہے؟ گزرتا ہوا وقت ایک دھوکا ہے۔ دراصل ہم خود وقت میں سے ہو کر گزر رہے ہیں۔ وقت کا دوری سے کیا رشتہ ہے؟ وقت کی کون سی پرت اصل سالم ”وقت“ کی Shadow ہے؟ یہ تمام مباحث قدیم ہندوستانی فلسفے میں اپنشدوں میں اور سب سے بڑھ کر ”یوگ وشسٹ“ میں موجود ہیں اور بورخیس کو قدیم مشرق سے جو دلچسپی تھی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

اس کتاب کا یہ حصہ جو وقت اور قول محال کے بارے میں ہے، میرے لیے بہت اہم اور دلچسپی کا باعث ہے۔ آپ دیکھیے کہ زینو کے Paradoxes کس طرح بدلی ہوئی شکل میں کافکا تک چلے آئے یا وہ پہلے سے ہی Kafkasque تھے؟ کیرکیگارڈ کے Parablis بھی پہلے سے ہی Kafkasque تھے اور مجھے تو تھامس برن ہارڈ کے ناولوں مثلاً Looser اور وٹنگسٹائن کا بھتیجا میں بھی وقت اور قول محال کے تعلق سے کافکا کے اندیشے نظر آتے ہیں۔ یہی معاملہ رولاں بارت کا ہے Camera Lucida میں وہ کہتا ہے کہ آپ فوٹو کو سچ نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ فوٹو میں آپ پہلے ہی مر چکے ہیں۔

”سچ“ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی آرٹ کا جنم ہوتا ہے۔ اپنی بائیوگرافی رولاں بارت بائی رولاں بارت میں وہ لکھتا ہے کہ غم ایک Text ہے اور Text ایک Utopia ہے اور Utopia ایک سکھ ہے جو ہمیں ایک نئی دنیا دینے کا وعدہ کرتا ہے یہ اس Language Game کا سکھ ہے جو Infinite ہے۔ شاید اسی لیے بارت Seventh Fuction of Language ڈھونڈ رہا تھا۔ باقی چھ فنکشن تو رومن جیکب سن تلاش کر چکا تھا۔ معاف کیجیے گا بات کچھ طویل ہو گئی مگر اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ ناصر عباس نیر نے جس طرح فن پارے کے اسرار کو سمجھنے کی کنجی ہمیں دی ہے، وہ اپنے آپ میں نہایت اہم ہے، مگر جو ان فلسفیانہ یا نیم فلسفیانہ مسائل کو سمجھے بغیر ہم اپنی جیب میں نہیں رکھ سکتے۔

کیوں کہ سب کچھ اتنا شدید طور پر عقلیت سے جکڑا ہوا نہیں ہوتا۔ ناصر صاحب کی اس کتاب کا Essence یہ بھی ہے کہ دنیام نام کے Text اور انسان نام کے Text کے ٹکراؤ سے پیدا ہوئے بہت سے Sub۔ Text کو ہمارے سامنے لے آتی ہے اور ایسی بصیرت فراہم کرتی ہے جس کے وجود سے ہم پہلے بے خبر تھے۔ یعنی یہ بصیرت ایک طرح کی Epipheny بھی ہے، اسی لیے آرٹ کا جنم ہوتا ہے۔ دنیا کو اوقات دکھانے کے لیے۔ یہی رولاں بارت نے New Interpritation میں لکھا تھا۔ ناصر عباس نیر کی یہ کتاب بغیر ان مباحث کے پوری طرح نہیں سمجھی جا سکتی۔

مگر صرف یہ مباحث ہی نہیں، یہ کتاب ادب اور فن اور تخلیق و تنقید کے بارے میں تقریباً ہر ہر سطر میں روشنی کے جھماکے پیدا کرتی ہے۔ بقول ناصر عباس نیر ہمارے سامنے سب سے سنگین مسئلہ نوآبادیات کا ہے۔ علم اور استعمار سے ہم ایک ساتھ نبردآزما ہوئے ہیں۔ اس استعماریت کی مخالفت کرنا نقاد کا کام ہے۔ اور یہ بھی کہ ہر قسم کی شدت پسندی کے خلاف تنقید ایک ڈھال ہے۔ کبھی کبھی تنقید تخلیق سے پہلے ہوتی ہے اور تخلیق کے وجود میں آنے کا سبب بنتی ہے۔

نقاد کو ادب پارے میں قوم، اخلاق، ثقافت اور انسانی وجود کے آثار تلاش کرنا چاہئیں اور کسی بھی رنگ میں اس کی روح اور زمانے کی روح سے تعلق کو برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ بات مجھے کامیو کی یاد دلاتی ہے کہ ادیب کو اپنے عہد کے مصائب میں شامل ہونا چاہیے، مگر قالب کی تعمیر کے لیے اس سے کچھ دور بھی ہونا چاہیے۔ ناصر عباس نیر کی یہ کتاب محض ناقد کے لیے نہیں ہے، یہ ادیبوں کے لیے بھی ہے۔ یہ میرے لیے بھی ہے۔ ایک خط میں ناول کے بارے میں بہت اہم اور بصیرت آمیز گفتگو کی گئی ہے۔

آج کل ناول کا بازار گرم ہے تو کتاب کا یہ حصہ تمام ناول نگاروں کو پڑھنا چاہیے اور ناول کے ناقدین کو تو ناگزیر طور پر پڑھنا چاہیے۔ ایک خط میں عوامی ادب اور مقبول عام ادب کے فرق کو بہت باریک بینی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ خط مقبول عام ادب کے حوالے سے بہت سے مغالطے دور کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں ادب اور عہد کے حوالے سے شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جسے اس کتاب میں بیان نہ کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ Post Truth پر بھی گفتگو کی گئی ہے اور یہ بہت ضروری تھا کیوں کہ لوگ جھوٹ اور Post Truth میں کوئی فرق نہیں محسوس کرتے ہیں۔

ان سب کے ساتھ ساتھ فن پارے میں سچائی کا ادراک اور فنی سچائی کے تعلق سے جو گفتگو کی گئی ہے وہ بے مثال ہے۔ ناصر عباس نیر نے اس اہم ترین نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فنی سچائی اسلوب و تکنیک میں ہوتی ہے جب کہ فن کی سچائی پورے فن پارے میں۔ مجھے یاد آیا کہ عوامی ادب کے حوالے سے ناصر صاحب کا خیال ہے کہ وہ پرانی کہانیوں کی ہی ایک صورت ہے جو قبیلے کے افراد کو ایک جذباتی زنجیر میں جکڑے رکھتی ہے۔ ناول کے بارے میں سب سے اہم بات جو وہ ہمیں بتاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ناول ایک ”انسانی کہانی“ ہے۔

اس سے بہتر ناول کی کوئی تعریف شاید ہی میری نظر سے گزری ہو اور یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ ”نئے نقاد کے نام خطوط“ نام کی اس کتاب میں جو تنقیدی ڈسکورس پیش کیا گیا ہے، اس کے بنیادی سروکار محض فن پارہ یا اس کی سچائی اور اس کی تفہیم و تعبیر ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے تنقیدی معروضات میں ”انسان“ بھی بطور ”کل“ شامل ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ تنقید کے Epistimological دائرے سے انسان کو بے دخل کر دیا جاتا ہے، مگر ناصر عباس نیر نئے نقاد کو یا پرانے نقاد کو یا کسی بھی سوچنے سمجھنے والے ذہن کو جس تنقید کی خبر یا بشارت دیتے ہیں وہاں انسان کا وجود ہی مرکز میں ہے۔ ناصر عباس نیر کے یہاں فن پارے اور اس کی سچائی یا معنی کے درمیان انسان موجود ہے۔ ایک خاموش شہادت کی طرح یا ایک Testimony کے مانند۔

میں نے محسوس کیا کہ اس کتاب میں بڑی سے بڑی عالمانہ بحث بھی انسانی ٹھیکے داروں کے بغیر قائم نہیں ہوتی، جن کے رشتے آگے چل کر بڑے فطری طور پر ثقافتی، سیاسی اور اخلاقی داروغوں میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا Sum of Philosophical Literary Critique بھی کہا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں پہلی بار فن پارے کی پیچیدگی، اس کے اسرار یا ابہام یا رمز کو اس انداز میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ زینو کے Paradox بورخیس کے حوالے سے اسی پس منظر میں پیش کیے گئے ہیں۔

اور مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہیرالڈ بلوم نے لکھا ہے کہ جب کسی نظم کی تشریح کی جاتی ہے تو وہ تشریح ایک دوسری نظم بن جاتی ہے اور پھر اس تشریح کی تشریح ایک تیسری نظم۔ یعنی فن پارے کی سچائی کو محض کچھ فنی Tools کے ذریعے نہیں سمجھایا جاسکتا۔ یہ سچائی دھند میں لپٹی ہوتی ہے۔ پردے کے پیچھے ایک پراسرار دنیا کی پرتیں۔ ”سچ“ کے چہرے پر ماسک ہی ماسک ہیں۔ جس طرح بورخیس نے فلسفے اور ریاضی کی دنیا کو Story Telling ”کہانی کہنے“ میں بدل دیا اسی طرح ناصر عباس نیر نے ادبی تنقید کے تمام دبستانوں یا عناصر کی تفتیش و تحقیق کر کے فلسفیانہ تنقید کا ایک ماڈل پیش کیا ہے۔

واضح رہے کہ فلسفیانہ تنقید سے میری مراد وہ تنقید نہیں ہے جس میں فلسفے کے مجرد تصورات پیش کیے گئے ہوں، بلکہ جب تمام تنقیدی ڈسکورسز، جو مروجہ رہے ہیں، ان کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے تو میں اسے فلسفیانہ تنقید کا نام دیتا ہوں اور یہ کام اس کتاب میں اتنی آہستگی اور کمال خوبی کے ساتھ ہوا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ یہ خطوط تخلیقی عمل کی اس بلندی پر لکھے گئے ہیں جہاں تخلیق اور تنقید ایک دوسرے کے Complimentry بن کر آپس میں ہاتھ ملاتے ہیں۔

صرف ہاتھ ملاتے ہیں، ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہوتے کہ وہ تو بہت آسام کام تھا۔ ادبی تنقید کا یہ انداز یہ تیور ناصر عباس نیر سے پہلے ہمارے یہاں کہاں تھا؟ میرے خیال میں نہ صرف اردو بلکہ برصغیر کی کسی زبان میں ایسا Powerful تنقیدی ڈسکورس نہیں ملے گا کیوں کہ یہ تنقید ہمیں وہ دکھانے کا وعدہ کرتی ہے جو ہم نے پہلے نہیں دیکھا ہے۔ مجھے ہندوستان کے مایۂ ناز مصور جگدیش سوامی ناتھن کی ایک بات یاد آتی ہے جو انھوں نے اپنی بنائی ہوئی تصاویر کے حوالے سے کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں دکھانا چاہتا ہوں کہ جب ایک گوریا مرتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ جب ایک چیونٹی مرتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ جب زمین کے دھنسنے پر چیونٹیوں کی پوری بابی مر جاتی تو کیا ہوتا ہے۔

فن پارے کی سچائی اور اس کے رمز کے حوالے سے ناصر عباس نیر بھی ہمیں نادیدہ جہانوں کی سیر کراتے ہیں۔ فن پارہ ہمارے سامنے ہے مگر ہم اسے نہیں جانتے۔ ناصر عباس نیر ہمیں بتاتے ہیں کہ اسے کیوں نہیں جانا جا سکتا اور اگر جانا جاسکتا ہے تو کیسے؟ مجھے جگہ جگہ یہ Visuals میں لکھی گئی تنقید محسوس ہوتی ہے۔ اور جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان کئی سوالات بھی اٹھاتی ہوئی۔ اگرچہ کتاب میں ظاہری طور پر اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر مجھے نہ جانے کیوں بار بار ہیبرماس کے Unfinished Project of Modernism کی یاد آتی رہی۔

ویسے Modernity اور Modernism میں بہت فرق ہے اور خاص طور سے اردو والی جدیدیت سے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ کہ یہ ایسی کتاب نہیں جسے سرسری طور پر پڑھ کر اس پر کچھ اظہار خیال کر دیا جائے، کیوں کہ یہ بہت کچھ کہنے کے ساتھ بہت کچھ دکھاتی بھی ہے۔ اس لیے ہمیں وٹنگسٹائن کی Picture Theory of Language کو بھی سمجھنا ہو گا۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ مبارکباد کے رسمی الفاظ اس کتاب کے لیے ناکافی ہیں۔ بس ہمیں اس کتاب کا جشن منانا چاہیے اور مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس کی پہل کر دی ہے، مگر میری خواہش ہے کہ یہ سلسلہ اور دراز ہو۔

میں غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس کتاب کے جشن کے موقع پر مجھے بھی کچھ کہنے کی دعوت دی گئی۔ شکریہ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین