Tuesday, April 29, 2025
homeاہم خبریں"ہندوستانی زبانوں کےلیے ہندی اردو اکیڈمی کی پٹنہ میں بڑی پیش رفت--...

“ہندوستانی زبانوں کےلیے ہندی اردو اکیڈمی کی پٹنہ میں بڑی پیش رفت– شمیم احمد کی سرپرستی میں بہار شاخ کے قیام کیلئے چار جوائنٹ کنوینر مقرر

پٹنہ (نمائندہ خصوصی)

ہندی-اردو اکادمی کے زیر اہتمام 27 اپریل 2025 بروز اتوار بہار چیمبر آف کامرس کے وسیع ہال میں ’’ہندوستانی زبانوں کا تحفظ: اردو، ہندی، سنسکرت اور دیگر ریاستی زبانوں کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم الشان اور تاریخ ساز ریاستی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس بامقصد اور بصیرت افروز اجلاس میں ملک کے طول و عرض سے ممتاز ادیبوں، محققین، صحافیوں اور لسانیات کے ماہرین نے پرجوش شرکت کی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ہندوستانی زبانوں کے تحفظ، فروغ اور بقا کے لیے ٹھوس اور دور رس نتائج پر مبنی حکمت عملی مرتب کرنا تھا۔

اجلاس کی صدارت معروف سماجی رہنما، انسانی حقوق کے علمبردار اور قائد اردو جناب شمیم احمد نے کی۔ اپنے ولولہ انگیز، بصیرت افروز اور وجد آفریں صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ اردو محض ایک زبان نہیں، بلکہ ہندوستان کی روح، اس کا تہذیبی ضمیر اور تاریخی ورثہ ہے۔ اردو نے نہ صرف مختلف ثقافتوں، مذاہب اور زبانوں کے درمیان ایک پل کا کام کیا ہے بلکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو دوام بخشا ہے۔ اردو اور ہندی جڑواں بہنوں کی مانند ہیں، جو صدیوں سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اس سرزمین کی مٹی میں محبت، رواداری اور اخوت کی خوشبو بکھیرتی چلی آ رہی ہیں۔ موجودہ دور میں زبانوں کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اگر ہم نے بروقت سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو ہماری تہذیب کا چراغ بجھ جائے گا۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور عوامی حلقوں سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زبانوں کے تحفظ کو محض رسمی نہیں، بلکہ قومی فریضہ سمجھ کر اپنایا جائے، کیونکہ زبانوں کا تحفظ دراصل اپنی تہذیب، تاریخ اور قومی شناخت کا تحفظ ہے۔

تقریب کی نظامت معروف شاعر اور ادبی شخصیت سید عفیف سراج نے کی، جنہوں نے اپنی شائستہ گفتار، برجستگی اور سلیقہ مندی سے اجلاس کو انتہائی وقار اور دلکشی کے ساتھ مربوط رکھا۔ ان کی نپی تلی اور سحر انگیز نظامت نے نہ صرف سامعین کو متوجہ رکھا بلکہ اجلاس کے وقار میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔

مہمان اعزازی کی حیثیت سے روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید نے شرکت کی۔ اپنی پرمغز اور جذبات سے لبریز تقریر میں انہوں نے کہا کہ زبان کسی قوم کا محض ذریعۂ اظہار نہیں بلکہ اس کی روح اور ضمیر کا عکس ہوتی ہے۔ اردو جیسی زبان نے جہاں ایک عظیم تہذیب کی آبیاری کی، وہیں لاکھوں دلوں کو جوڑ کر ایک سنہری باب رقم کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو وہ گلدستہ ہے جس میں ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور مقامی بولیوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ یہ زبان محبت کی دھڑکن اور صدیوں پر محیط گنگا جمنی تہذیب کی آبرو ہے۔ اردو نہ صرف شاعری کی زبان ہے بلکہ انسانیت کے عالمی خواب کی تعبیر بھی ہے۔ ایس ایم اشرف فرید نے زور دے کر کہا کہ تعلیمی اداروں، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر مادری زبانوں کے فروغ کے لیے سنجیدہ عملی کوششیں کی جانی چاہئیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تہذیب اور شناخت سے جڑی رہیں۔

اجلاس میں متعدد دانشوروں نے مدلل اور بصیرت افروز تقاریر میں زبانوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین میں ڈاکٹر محمد احسان (بی این منڈل یونیورسٹی مدھے پورہ)، پروفیسر ڈاکٹر سید آل ظفر (صدر شعبہ اردو، بی آر امبیڈکر یونیورسٹی مظفر پور)، پروفیسر ڈاکٹر منوج کمار (صدر شعبہ سنسکرت، بی آر ایم امبیڈکر یونیورسٹی مظفر پور)، ڈاکٹر سشانت کمار (شعبہ ہندی، بی آر امبیڈکر یونیورسٹی مظفر پور)، ڈاکٹر سید عباس شاہ (شعبہ فارسی، بی آر ایم امبیڈکر یونیورسٹی مظفر پور)، اور ڈاکٹر گیانیندر کمار (بی این منڈل یونیورسٹی) شامل تھے۔ ان تمام اکابرین نے متفقہ طور پر کہا کہ زبانیں صرف رابطے کا وسیلہ نہیں، بلکہ تہذیبی ورثے کی امین ہوتی ہیں۔ اگر زبانیں مر جاتی ہیں تو تہذیبیں بھی دم توڑ دیتی ہیں۔

ممتاز محقق اور قلمکار ڈاکٹر قاسم خورشید نے اپنی ولولہ انگیز تقریر میں کہا کہ زبانیں انسانی شعور اور تمدنی ارتقاء کا خمیر ہیں۔ اردو جیسی ہمہ گیر زبان نے ہندوستان کے دلوں کو محبت کے دھاگے میں پرویا ہے۔ انہوں نے مادری زبانوں کی بقا کے لیے تعلیمی نصاب میں ان کی شمولیت، مقامی زبانوں پر مبنی ادبی میلوں کے انعقاد اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ان کے فروغ کی تجاویز پیش کیں۔ ان کی دلیل سے بھرپور تقریر نے شرکائے جلسہ کو بے حد متاثر کیا۔

تقریب میں جن دیگر اہل قلم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں بابر امام، ڈاکٹر افشاں بانو، کاظم رضا، حسن امام رضوی، فروغ جامی (چکیا)، حسن امام، کاظم رضوی، اشفاق احمد، حیات الدین، وسیم اختر اور خالد حسین شامل تھے۔ ان تمام اہل قلم نے متفقہ طور پر کہا کہ زبانیں کسی مخصوص قوم یا مذہب کی میراث نہیں بلکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی وراثت ہیں۔ ہمیں کسی تعصب کے بغیر اپنی زبانوں کو پروان چڑھانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

اجلاس کے اختتام پر ڈاکٹر انوار الہدی نے اپنی شستہ اور پرتاثیر زبان میں تمام مہمانانِ خصوصی، مقررین اور سامعین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس ہندوستانی زبانوں کے تحفظ کے سفر میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے اثرات دیرپا ثابت ہوں گے۔

اس بابرکت موقع پر ہندی-اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر محمد فاروق نے ریاست بہار میں اکادمی کی سرگرمیوں کو مزید فعال بنانے کے لیے چار جوائنٹ کنوینرز کے ناموں کا اعلان کیا: سید عفیف سراج، ڈاکٹر محمد احسان، پروفیسر ڈاکٹر منوج کمار اور ڈاکٹر گیانیندر کمار۔ ان احباب پر یہ بھاری ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ ریاست میں ہندی، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے فروغ و تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔

کانفرنس کا اختتام اس پُرعزم اور حوصلہ بخش عہد کے ساتھ ہوا کہ ہندوستان کی تمام زبانیں اپنے رنگوں اور خوشبوؤں کے ساتھ ہندوستانی تہذیب کی باغ میں ہمیشہ بہار بکھیرتی رہیں گی اور ہم سب اپنی تمام علمی، فکری اور عملی توانائیاں ان کے فروغ کے لیے وقف کردیں گے

متعلقہ خبریں

تازہ ترین