Monday, August 18, 2025
homeاہم خبریںممتا بنرجی کی نرم ہندوتوا اور بنگالی قوم پرست ۔ مسلم اقلیت...

ممتا بنرجی کی نرم ہندوتوا اور بنگالی قوم پرست ۔ مسلم اقلیت کا گلا گھونٹتی سیاست

آزادی کا دن محض جھنڈا لہرانے اور ترانہ گانے کا نام نہیں۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنے آئین کے بنیادی ستونوںجمہوریت‘مساوات اور سیکولرزم کی تجدید عہد کرتے ہیں۔ 79 برس قبل جب ہندوستان نے غلامی کی زنجیریں توڑیں تو اس کا خواب ایک ایسا ملک تھا جہاں مذہب ریاستی پالیسی کا پیمانہ نہ ہو اور زبان‘نسل یا عقیدے کی بنیاد پر کوئی شہری دوسرے درجے کا نہ بنے۔ لیکن 15 اگست 2025 کے آس پاس مغربی بنگال میں جو مناظر سامنے آئے ہیں‘وہ اس خواب کی بنیاد میں دراڑ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تازہ پالیسی اور اقدامات نے نہ صرف ریاستی سیکولر اقدار کو دھچکا پہنچایا ہے بلکہ زبان اور مذہب کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کا ایک خطرناک باب بھی کھول دیا ہے۔

پہلا فیصلہ سنیما گھروں اور ملٹی پلیکسز میں روزانہ پرائم ٹائم کے دوران بنگلہ فلم کی لازمی نمائش بظاہر علاقائی سنیما کے فروغ کا نعرہ لئے ہوئے ہے‘لیکن اس کے پیچھے ایک مخصوص لسانی ایجنڈے کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق‘ریاست کے ہر سنیما ہال اور ہر اسکرین پر سال کے 365 دن شام 3 بجے سے رات 9 بجے کے درمیان ایک شو صرف بنگلہ زبان میں ہوگا۔ یہ حکم فوری طور پر نافذ ہوا ہے اور مزید ہدایات تک برقرار رہے گا۔ بظاہر یہ اقدام ہندی اور دیگر زبانوں کے غلبے کا توڑ بتا کر پیش کیا جا رہا ہے‘مگر حقیقت یہ ہے کہ کولکاتہ جیسے کثیر لسانی شہر میں‘جہاں لاکھوں اردو بولنے والے شہری رہتے ہیں‘اس فیصلے کے اثرات لسانی امتیاز اور ثقافتی حاشیہ نشینی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ راجہ بازار سے لے کر گارڈن ریچ تک‘ایسے علاقے جہاں اردو بولنے والے مسلمانوں کی اکثریت ہے‘پہلے ہی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔ سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں لسانی رکاوٹیں ان کیلئے مزید دیواریں کھڑی کر دیں گی۔

دوسرا اور کہیں زیادہ متنازع فیصلہ’’درگا آنگن‘‘ کے نام سے دیوی درگا کیلئے ایک شاندار مندر کمپلیکس کی تعمیرریاستی کابینہ سے منظوری پا چکا ہے۔ کولکاتا یا اس کے مضافات میں قائم ہونے والا یہ منصوبہ محکمہ سیاحت اور HIDCO مشترکہ طور پر بنائیں گے اور اس کے انتظام کیلئے ایک وقف ٹرسٹ تشکیل دیا جائے گا۔ حکومت اسے یونیسکو کی جانب سے 2021 میں بنگال کی درگا پوجا کو ’’غیر محسوس ثقافتی ورثہ‘‘ قرار دیئے جانے کا تسلسل قرار دے رہی ہے۔اس سے قبل 300 کروڑ روپئے کی لاگت سے ممتاحکومت جگن ناتھ مندر بھی تعمیر کرچکی ہے‘لیکن سوال یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 27 کے تحت ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی مذہبی ادارے کی تعمیر پر کیوں خرچ ہو رہا ہے؟

اس فیصلے کے سیاسی پس منظر پر نظر ڈالیں تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں بی جے پی نے بنگال میں ’’ہندو شناخت‘‘ کو انتخابی ہتھیار کے طور پر پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے جلسوں میں ’’جئے ماں درگا‘‘ اور ’’جئے ماں کالی‘‘ کے نعرے اسی بیانیے کا حصہ ہیں۔ ممتا بنرجی‘جو طویل عرصے تک خود پر اقلیت نوازی کے الزامات کا دفاع کرتی رہی ہیں‘اب بظاہر ’’نرم ہندوتوا‘‘ کی راہ پر گامزن ہیںجگن ناتھ دھام‘لکشمی بھنڈار اسکیم اور اب درگا آنگن اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ محض عقیدت کا معاملہ نہیں بلکہ 2026 کے اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی زمین مضبوط کرنے کا نسخہ ہے۔

لسانی سیاست کا یہ کھیل بنگال میں نیا نہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اردو بولنے والے مسلمان دوہری اقلیت بن گئےمذہب اور زبان دونوں حوالوں سے۔ تاریخی طور پر ان کی شناخت بہار اور اتر پردیش سے آئے مہاجرین کے طور پر رہی‘جو کولکاتا کے صنعتی مراکز میں محنت کش طبقے کی شکل میں بسے۔ آج بھی ان کی بڑی تعداد راجہ بازار‘توپسیا‘مٹیابرج جیسی کثیف آبادی والی بستیوں میں رہتی ہے‘جہاں نہ تعلیمی ڈھانچہ مضبوط ہے اور نہ معاشی مواقع ہیں۔ بنگالی زبان پر عبور نہ ہونے کے باعث سرکاری نوکریاں اور ترقی کے دروازے ان کیلئے مزید محدود ہو چکے ہیں۔ ایسے میں فلمی پردے پر لسانی اجارہ داری قائم کر دینا اور سرکاری خزانے سے مذہبی کمپلیکس تعمیر کرنا دونوں فیصلے اس کمیونٹی کو مزید حاشیے پر دھکیلنے کا کام کریں گے۔
ریاست مذہب یا زبان کی بنیاد پر جب ایک گروہ کو ترجیح دے اور دوسرے کو نظرانداز کرے توسیکولر ہندوستان کا خواب چکنا چور ہوجاتا ہے۔ آزادی کے 79 ویں سال میں ہمیں یہ سوال ضرور اٹھانا چاہئے کہ کیا یہ وہی ہندستان ہے جس کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں؟ کیا بنگالی وقار کے نام پر لسانی اجارہ داری اور مذہبی علامتوں کی سیاست کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟ اور کیا ایک آئینی عہد رکھنے والی حکومت اپنے ہاتھ سے سیکولرزم کی بنیاد میں شگاف ڈالنے کی مجاز ہے؟

ممتا بنرجی کو یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ میں حکمرانوں کی سیاسی کامیابیاں نہیں بلکہ ان کے اصول یاد رکھے جاتے ہیں۔ اگر بنگال واقعی اپنی زبان‘اپنے تہذیبی ورثے اور اپنے ثقافتی تنوع پر فخر کرتا ہے تو اسے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہےچاہے وہ بنگلہ بولنے والا ہو یا اردو‘ہندو ہو یا مسلمان۔ بصورت دیگر‘ہم ایک ایسے راستے پر بڑھیں گے جہاں جشن آزادی محض رسم رہ جائے گا اور ہندوستان کا سیکولر جمہوری خواب قصہ پارینہ۔

بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا

متعلقہ خبریں

تازہ ترین