Friday, October 18, 2024
homeاہم خبریںکلکتہ شہر کے مشہور ادارہ انجمن مفید الاسلام کےسالانہ آڈٹ رپورٹ میں...

کلکتہ شہر کے مشہور ادارہ انجمن مفید الاسلام کےسالانہ آڈٹ رپورٹ میں کئی تضادات اوراعداد وشمار کی ہیرا پھیری

14جولائی 2024کوانجمن مفیدالاسلام کے سالانہ جنرل باڈی کی میٹنگ میں ایک سال پرانی 2022-23کی رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔2021-22کی رپورٹ اور 2022-23کی رپورٹ کوئی مطابقت نہیں ہے۔اعداد وشمار میں ہیرا پھیری۔کئی اہم سوالات کے جواب انجمن مفیدالاسلام کو دینی چاہیے

کلکتہ : انصاف نیوز آن لائن

کلکتہ شہر کا سوسالہ قدیم ادارہ انجمن مفیدالاسلام جسے مغربی بنگال میں خواتین میں تعلیم کو فروغ کیلئے قائم کیا گیا تھا مگرگزشتہ ایک دہائی سے مخصوص گروپ انتظامیہ پر حاوی ہے چناں چہ ادارے کے کام کاج میں شفافیت کا فقدان ہے۔عدم شفافیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔14جولائی 2024کو انجمن مفید الاسلام کی جنرل باڈی کی میٹنگ ہورہی ہے اور اس میٹنگ میں اپریل 2022سے مارچ 2023کا سالانہ رپورٹ پیش کیا جائے گا۔یعنی ایک سال پرانی رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔دوسرے یہ کہ2021-2022کی سالانہ رپورٹ اور 2022-23کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر جب ہماری ٹیم نے جب موازنہ کیا تو حساب و کتاب میں کئی ہیرا پھیری کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

انصاف نیوز آن لائن نے 2019-2020کے سالانہ رپورٹ میں آڈیٹر کی رپورٹ اور ان کے آبزرویشن کو سامنے رکھ کر19اپریل 2021کو’’انجمن مفید الاسلام کے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں بدعنوانیوں کا انکشاف رپورٹ منظر عام پر آنے کے باوجود انتظامیہ کا احتساب نہیں کیا گیا‘‘ ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ۔ مالی گڑبڑی کی نشاندہی خود آڈیٹرنے اپنے آبزرویشن میں کیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2020-21، 2021-2022اور 2022-23کے سالانہ رپورٹوں میں آڈیٹرکے آبزرویشن کو شائع کرنے کے سلسلے کو ختم کردیا گیا ۔صرف حساب کتاب شائع کئے گئے۔

سوسائٹی ایکٹ کے اصول و ضوابط کےمطابق ہر سال اکتوبر تک تمام رجسٹراداروں اور تنظیموں کو اپنے سالانہ آڈٹ اینڈ بیلنس رپورٹ کو سوسائٹی رجسٹرار اور انکم ٹیکس کے پاس جمع کرانا لازمی ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 2022-23کے آڈٹ رپورٹ کو گزشتہ سال اکتوبر2023 میں ہی رجسٹرار کے سامنے پیش کیا جاچکا ہے۔جب کہ قواعد کے مطابق سوسائٹی رجسٹرار کے دفتر میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے سے قبل اس رپورٹ کو جنرل باڈی سے منظور کرانا لازمی ہے۔مگر انجمن مفید الاسلام میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔سوسائٹی رجسٹرار اور انکم ٹیکس آفیس میں رپورٹ جمع کرانے کے دس مہینے بعد یہ رپورٹ جنرل باڈی سے منظور کرائی جارہی ہے۔

گزشتہ دو سالانہ رپورٹ میںمالی حساب و کتاب میں تضادات!

2021-22اور 2022-23کی سالانہ رپورٹ کا موازنہ کرنے کے دوران کئی مالی گڑبڑی کی نشاندہی ہوتی ہے۔جیسے2021-22کی رپورٹ جسے 18جون 2023کو پیش کیا گیا اس میں2022-2023کیلئے فنڈ کی منظوری بتاتے ہوئے بتایا گیا کہ 31مارچ 2023tتک کہ ایکزوئیل پنجز (Actual Expenditure) کو پیشکیا گیا ہے ۔2021-22کی سالانہ رپورٹ می ایکزوئیل ایکسپنجر31-3-23کے کالم میں بتایا ہے کہ 31/3توپسیا روڈ سائوتھ کے رکھ رکھائو پر 90,773روپے خرچ کیا گیا ہے مگر 2022-23کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ توپسیاروڈ سائوتھ کے رکھ رکھائو پر محض 8 ,000روپے خرچ کئے گئے ہے۔اسی طرح لاوارٹ لاشوں کی تدفین سے متعلق 2021-22کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاوارث مردو کی تدفین پر 31مارچ2023میں حقیقی خرچ 10,23,839روپے خرچ ہوئے ہیں ۔مگر اب جو نئی رپورٹ کی جارہی ہے اس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ 31-3-2023 تک7 ,33,335روپے خرچ ہوئے ہیں ۔یعنی 3لاکھ روپے کم ۔اس رپورٹ میں یہ نہیںبتایا گیا ہے کہ ایک سال میں کتنے لاوارث لاشوں کی تدفین کی گئی ہے ۔ایک لاش کی تدفین میں کتنے روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ایک سال میں تدفین کیلئے متعین عملہ کی تنخواہ میں 6,41520روپے کی کثیر رقم خرچ کردی گئی ہے۔


2021-22کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیاانجمن مفید الاسلام گرلس ہائی اسکول میں 31-3-2023تک روپے خرچ نہیں کئے گئے مگر تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 31مارچ 2023تک 9,64,240روپے خرچ ہوئے۔اسی طرح انجمن گرلس ہائی اسکول سے متعلق پرانی رپورٹ میں کہا گیا کہ 31-3-2023تک 4,68885روپے خرچ کئے گئے مگر تازہ رپورٹ 2022-23میں کہا جارہا ہے کہ 4,76,340روپے خرچ ہوئے ہیں ۔

لوک سبھا انتخابات سے قبل گوبرا قبرستان میں لاش کو رکھنے کیلئے ’’منزل سکون ‘‘کا افتتاح کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مقامی ممبر پارلیمنٹ سدیپ بندو پادھیائے اور کارپوریشن کے تعاون سے یہ سب کیا جارہا ہے مگر 2022-23کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’سکون منزل‘‘ پر انجمن نے 5لاکھ روپے خرچ کئے ۔سوال یہ ہے کہ جب فنڈنگ کارپوریشن اور مقامی ممبرپارلیمنٹ کے فنڈ سے ہوا ہے تو پھر انجمن نے اتنی بڑی رقم کہاں خرچ کی ۔اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔

ایک اور سوال اہم جس کا جواب انجمن مفیدالاسلام کے انتظامیہ کو دینا چاہیے کہ انجمن مفیدالاسلام ایک فلاحی ادارہ ہے ۔اس کا کوئی اپنا تعلق نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ مالی سال2022-23کی سالانہ رپورٹ میں sundry debtors and creditorsکی اصطلاح کا استعمال کیا گیا ہے۔یہ تجارتی اداروں کے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں اس اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہےکہ کوئی کمپنی کریڈٹ پر سامان خریدتی یا فروخت کرتی ہے۔اگر کمپنی کو اپنے پارٹنرس سے کوئی رقم آنی ہوتی ہے تواس کیلئے sundry debtors کی اصطلاح استعمال کی جاری ہے اور اگر کمپنی کو کسی پارٹی رقم ادا کرنی ہے تو اس کیلئے sundry creditorsکی اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ انجمن کونسا کاروبار کرتا ہے کہ آڈیٹر نے اپنی رپورٹ میں اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔

2022اپریل سے مارچ 2023انجمن مفیدالاسلام کے اسیٹ نقدکی شکل میں 11,00311.25روپے ہے ۔جب کہ انجمن پر واجب الادا 25,236,35ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم کیوں واجب الادا ہیں ۔یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ میرے سامنے 2017-18کی سالانہ رپورٹ ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ انجمن مفیدالاسلام کے پاس 92لاکھ روپے بینک ڈپوزٹ ہیں ۔سوال یہ ہے کہ بینک ڈپوزٹ کی رقم خرچ کہا ں ہوئی اور اب یہ قرض کیوں ہوگیا۔حال ہی میں انجمن مفیدالاسلام کی عمار ت تعمیر ہوئی ہے اس سے متعلق کہا گیا تھا مقامی ممبر پارلیمنٹ کے فنڈ اور مقامی کائونسلر نے اپنے والد کےنا م پر تعمیر کرائی ہے۔

ملازمین کے پی ایف کی رقم بھی ادا نہیں کی گئی ہے ۔یہ رقم 9لاکھ روپے کے قریب ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر پی ایف کی ادائیگی میں تاخیر کیوں برتی جارہی ہے۔

اس موقع پر ایک اہم بات گوش گزار کردینا لازمی ہے کہ انصاف نیوز آن لائن کا مقصد واضح ہے کہ ملی اداروںکے مالی لین دن کے نظام شفافیت کو لازمی بناناہے۔اگر مالی گڑبڑی باقی رہی تو عطیہ دہندگان کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔ہرسال لاکھوں روپے بطور زکوۃ اور چرم قربانی سےرقم آتی ہے۔یہ رقم اللہ کی امانت ہے اس میں معمولی خیانت قابل گرفت ہے اور اس پر خاموش رہ جانا یا پھر نظرانداز کردینا بھی گناہ ہے۔

دراصل کلکتہ کے ملی اداروں کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ مٹھی بھر افراد ہیں جو تمام اداروں پر قابض ہیں اور اس کے عہدیدار ہیں ۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ ادارے شفافیت ، اعتماد اور بلند مقاصد سے عاری ہوچکے ہیں ۔یہاں صرف مقصد اداروں پر قبضہ کرکے اپنی سماجی اور سیاسی وقار کو آگے بڑھانا ہے۔گزشتہ پانچ چھ سالوں میں انجمن مفیدالاسلام ا اسمبلی، کارپوریشن اور لوک سبھاانتخابات کے موقع پر حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچنانے کیلئے استعمال کیا گیا ۔طاقت کا ارتکاز چند ہاتھ میں کس طرح ہوگئے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال امیرالدین بابی ہیں۔جو کائونسلر ہیں، میئر ان کائونسل ؤبھی ہیں ،محمڈن اسپورٹنگ کلب کے صدر ہیں ، اسلامیہ اسپتال کے جنرل سیکریٹری ہیں اور انجمن مفید الاسلام کے صدر بھی ہیں اور ملی ایجوکیشن ٹرسٹ کے صدر بھی ہیں ۔یتیم خانہ اسلامیہ کے غیر اعلانیہ باس ہیں اور مسلم انسی ٹیوٹ سے بھی وابستہ ہیں۔۔اس کے علاوہ وہ کئی ہوٹلس اور کاروبار بھی چلاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایک شخص ایک ساتھ ایماندارانہ طریقہ سے ذمہ ادری ادا کرسکتا ہے۔کائونسلر اور میر ان کونسل کی ذمہ داری ہی وقت طلب ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین