کلکتہ:
وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد آج کلکتہ کے سیون پوائنٹ میں مختلف تنظیموں کے اعلان پر ہزاروں نوجوانوں نے احتجاج کیا۔مظاہرین میں بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔مگر اس احتجاج سے کلکتہ شہر کے روایتی مسلم قائدین غائب تھے۔ان روایتی مسلم قائدین کے مظاہرے سے غائب رہنے پر کئی سوالات کھڑے ہونے لگے ہیں۔
مظاہرے سے غائب رہنے والوں میں جمعیۃ مغربی بنگال کے صدر و ریاستی وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری، امام عیدین قاری فضل الرحمن، ناخدا مسجد کے نائب ائمہ قاری شفیق اور قاری نور عالم، جمعیۃ علما الف کے جنرل سیکریٹری قاری شمس الدین بھی مظاہرے میں نظر نہیں آئے۔کوآرڈی نیشن کمیٹی کے ایک ممبر نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ کلکتہ شہر کے نوجوانوں نے قائدین کے بغیر پرامن احتجاج کیا اور کسی قسم کی کوئی گڑبڑی نہیں ہوئی۔
مظاہرے میں شامل ایک بزرگ شہری نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ کلکتہ میں نئی مسلم قیادت ابھر رہی ہے اور ہ چہرے غائب ہورہے ہیں جو حکومتی درست خوان کے اردگرد گھومتے رہے ہیں۔
اس احتجاج کی وجہ سے کلکتہ میں ٹریفک نظام مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ۔تاہم احتجاج کے منتظمین اور پولس انتظامیہ کے درمیان بہتر تال میل کی وجہ سے جلد ہی ٹریفک نظام بحال ہوگیا۔یہ احتجاج جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہوا اور 4بجے سہ پہر تک یہ احتجاج ختم ہوگیا۔احتجاج کے اسٹیج سے اعلان کیاگیا جلد ہی کلکتہ شہر میں ایک بڑا احتجاج کیا جائے گا جس میں ریاست بھر کے عوام شریک ہوں گے۔اس احتجاج میں ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی و ریاستی وزیر جاوید احمد خان بھی نظر آئے۔
احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی بنگال کے سیکریٹری شاداب معصوم نے کہا کہ وقف ترمیمی بل دراصل ایک سیاہ قانون جس سے مسلمانوں کے مساجد و مدارس اور خانقاہ متاثر ہوں گے۔ہم آخری سانس تک اس بل کی مخالفت کریں گے۔جمہوری طریقے سے ہم ہرایک پلیٹ فارم سے اس کی مخالفت کریں گے۔اس موقع پر خطاب کرنے والوں میں سماجی کارکن عمر اویس، جمعیۃ علما مغربی بنگال کے سیکریٹری مولانا اشرف علی قاسمی اور مختلف مساجد کے ائمہ کرام نے خطاب کیا۔
وقف ترمیمی بل پاس ہونے کے بعدچوں کہ اگلے سال مغربی بنگال میں اسمبلی انتخاب ہونے والیے ہیں اس لئے سیاسی جماعتیں وقف بل کو سیاسی نفع و نقصان کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔؎بنگال میں مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ اس بل کے بعد مذہبی پولرائزیشن مزید واضح اور شدید ہو جائے گی۔ کچھ پارٹیوں کے لیڈر کھل کر بول رہے ہیں، کچھ پارٹیوں کے لیڈر نہیں ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار مان رہے ہیں کہ اقلیتوں میں پیدا ہونے والے ”خوف“کا انتخابی سیاست میں ترنمول کانگریس کو فائدہ ہوگا۔ اس کے برعکس بی جے پی وقف بل کو لے کر ہندؤں کو متحد ہونے کا پیغام دینے کی کوشش کریں گے۔بنگال کے سیاسی کیمپ کے بہت سے لوگ جو ترنمول کانگریس اور بی جے پی سے تعلق نہیں س رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ پولرائزیشن کے علاوہ وقف ترمیمی بل کے پیچھے ملک کی ”رئیل اسٹیٹ لابی“ کے مفادات بھی کام کر رہے ہیں۔ یعنی اس کا مقصد اگر سیاسی ہے تو اس کا ایک مقصد معاشی منافع بھی ہے۔
بنگال کی سیاست پچھلے کچھ سالوں سے پولرائزیشن کے ارگرد رہی ہے۔ ایک طرف بی جے پی ہندو ووٹ کو مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری انتخابات سے ایک سال پہلے وقف بل کو لے کر جارحانہ بیانات دینا شروع کردیا ہے۔دوسری طرف ترنمول کانگریس نے نہ صرف اقلیتی ووٹوں کو اپنے ساتھ مربوط رکھنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ بکھرے ہوئے ووٹوں کو بھی اپنے خانے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نو سال بعد ممتا بنرجی کے فرفرشریف کے حالیہ دورے کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
بنگال کی 294 اسمبلیوں میں سے 74 اسمبلیوں پر اقلیتی ووٹروں کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ 20-25 دیگر اسمبلی کی سیٹیں ہیں جہاں اقلیتی ووٹ ‘فیصلہ کن’ پوزیشن میں ہے ہیں۔ مجموعی طور پر کم از کم 100 سیٹیں اقلیتی ووٹ حاصل کرنے کے لیے ‘کلید’ ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کا ووٹ کم و بیش 30 فیصد ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے مطابق، اس ووٹ میں گزشتہ دہائی کے دوران چند فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے لوگ درست اعدادوشمار کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ کیونکہ، گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے مردم شماری نہیں ہوئی تھی۔
ترنمول قائدین نجی بات چیت میں اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وقف ترمیمی بل ان کے سیاسی ایجنڈے میں اہم ہے۔اس سے خصوصی طور پر مسلمانوں کے ووٹوں کو مضبوط کرنے کا کام کرے گا۔ حکمراں پارٹی پارلیمنٹ میں بل کو روکنے میں ترنمول ممبران پارلیمنٹ کے کردار کو بھی اجاگر کرے گی۔ اس کے جواب میں بی جے پی ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کرے گی کہ وہی وقف ترمیمی بل لا کر اقلیتوں کے مذہبی قوانین میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ بی جے پی کے ایک فرسٹ لائن لیڈر کے الفاظ میں، ”اقلیتوں میں وقف کی سمجھ بنگالی ہندوؤں میں نہیں ہے۔ مہم میں اس بات کو اجاگر کیا جانا چاہیے کہ ہم اسے بھی توڑ سکتے ہیں۔’بی جے پی کی امید ہے کہ مخلوط آبادی والے علاقوں میں وقف بھی ہندوؤں کو متحد کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ یعنی ایک طرف بی جے پی اسے ‘وقف نام’ ایکٹ کے طور پر فروغ دے گی۔ مسلمانوں کو ‘محرومیت’ دکھانا چاہیں گے، وہ یہ بھی کہیں گے کہ جب تک ممتا بنگال میں ہیں، وقف کی جائیداد کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا۔
مرکز نے دلیل دی کہ یہ بل مجموعی طور پر مسلمانوں کی بہتری کے لیے ہے۔ مرکزی بی جے پی قائدین تین طلاق کو منسوخ کرنے کے موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بدھ کو لوک سبھا میں کہاکہ ہمارے ملک میں وقف املاک کی کل تعداد 4.9 لاکھ سے بڑھ کر 8.72 لاکھ ہو گئی ہے۔ اگر وقف املاک کی اس رقم کا صحیح طریقے سے انتظام کیا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف مسلمانوں کی زندگی میں بہتری آئے گی، بلکہ پورے ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ ساتھ ہی، انہوں نے کہاکہ نئے بل کا تعلق صرف جائیداد سے متعلق ہے۔
بی جے پی مخالف پارٹیاں بنیادی طور پر دو چیزوں کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ ایک، کوئی حکومت کبھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے۔ ریاستی حکومت کے ایک سینئر افسر جو وقف کے بارے میں اچھی طرح سے واقف ہیں دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے، ان کے الفاظ میں، ”مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ یہاں حکومت کبھی کنٹرول نہیں کر سکتی۔ دوسری بات، وقف ایکٹ طویل عرصے سے پرسنل لاء کا حصہ رہا ہے۔اب حکومت فیصلہ کرے گی کہ کس کو دینا ہے۔ یہ سیکولر ڈھانچے میں کبھی نہیں ہوتا۔” کلیان بنرجی جو ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ میں نمبروں کے زور پر بل پاس ہوا تو مجھے لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ میں پھنس جائے گا۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی جو کچھ کر رہی ہے وہ براہ راست آئین کی خلاف ورزی ہے۔
واضح طور پر دلائل اور جوابی دلائل میں، بنگال کی سیاست اس وقت پولرائزیشن کے چکر میں پھنسی رہے گی۔ اٹہار کے ترنمول ایم ایل اے، حکمراں پارٹی کے اقلیتی سیل کے چیئرمین اور ریاست کے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے چیئرمین مشرف حسین نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک بنیاد پرست مسلم مخالف پارٹی ہیں، بی جے پی کوئی مذہبی جماعت نہیں ہے، وہ مذہبی تاجر ہیں۔ یہ سب کرکے وہ ہندو ووٹوں کا پولرائز کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس سوال کیہ کیا اس بل سے ترنمول کانگریس کو مسلم ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے فائدہ مند ہوگا؟“ مشرف نے جواب دیا کہ ”اقلیتی ووٹ پہلے ہی ترنمول کے ساتھ ہیں۔ بنگال کے اقلیتی لوگ سمجھتے ہیں کہ ممتا بنرجی ان کی جمع پونجی ہیں۔ مشرف نے یہ بھی کہا کہ وہ وزیر اعلی نے کہا کہ ریاستی حکومت ان لوگوں کو الیکشن کمیشن کی فہرست سے خارج کرے جو مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسمبلی میں تجویز پاس کی جائے گی۔
سابق ریاستی بی جے پی صدر دلیپ گھوش کا کہنا ہے کہ ”ترنمول نے صرف مسلمانوں کے ساتھ سیاست کی ہے۔ بنگال میں وقف املاک کی رقم سے غریب مسلمانوں کو فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن مذہبی رہنماؤں اور نچلی سطح کے لیڈروں کو فائدہ ہوا ہے۔ غریب مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کانگریس کے رہنما ادھیر چودھری نے وقف کے بارے میں کہاکہ ‘ایک طرف، بی جے پی ہندوؤں کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف، ترنمول کانگریس نے ریاست کی 1 لاکھ 48 ہزار 200 رجسٹرڈ جائیدادوں کا مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا۔ بہت سی جائیدادیں ویران ہو چکی ہیں۔” سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم نے کہا کہ ملک میں بہت سے مندروں کے انتظام کے لیے اپنے بورڈ ہیں۔ وہ اس مندر کا انتظام کرتے ہیں۔ پھر اچانک وقف کے لیے ایسا قانون کیوں؟ مقصد واضح ہے۔ آج وقف کر رہا ہے۔ کل مدرسہ کریں گے۔ بی جے پی دراصل خوف پھیلانا چاہتی ہے۔ اور ترنمول بی جے پی کی گرم تھالی میں روٹی پکانا چاہتی ہے۔
لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد بی جے پی کو اپنی آستین سے ایک نیا ‘ہتھیار’ نکالنا پڑا۔ وقف بل، یکساں سول کوڈ اسی کا عکاس ہے۔ یہ بی جے پی کے اعلان کردہ پروگراموں میں شامل ہیں۔ جیسے جموں و کشمیر سے خصوصی آئینی درجہ واپس لینے کا فیصلہ یا تین طلاق کے رواج کو ختم کرنے کے لیے قانون لانا۔ سیاست میں وقت کی اہمیت ہوتی ہے۔ بی جے پی اسی وقت وقف بل کو بھی قانون بنا رہی ہے۔ کیونکہ اگلے سال بنگال کے علاوہ کیرالہ اور آسام میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی بنگال میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ وہ آسام میں حکمران ہیں۔ اور اگرچہ کانگریس کیرالہ میں حکمراں سی پی ایم کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے، بی جے پی وہاں بھی پچھلے چند انتخابات میں بڑھ رہی ہے۔ تینوں ریاستوں میں اقلیتی ووٹوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔