ناہید اختر
مولانا آزاد کالج شہرکلکتہ کاایک اہم اور تاریخی کالج ہے، یہاں مختلف مضامین اور علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔کلکتہ اور بنگال ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے طلبا بھی یہاں تعلیم پاتے ہیں۔یہاں تعلیم اورناموراساتذہ کی ایک صحت مند روایت رہی ہے ،کالج کی شہرت کلکتہ اور بنگال کی سرحد وں کو عبور کرتے ہوئے ملک و بیرون ممالک میں مولانا آزادکالج کی پہچان ہے۔اس کے وقار کا ایک سبب مولانا آزاد المنائی ایسوسی ایشن ہے،جو کالج کی فلاح و بہبود کے سرگرم عمل رہتی ہے۔قدیم طلبا کی یہ تنظیم ’المامیٹر‘کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتی ہے۔اسے طلبا کی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ترجمان کہاجاسکتا ہے۔اس وقت اس شمارے کے ایڈیٹر خود کو اردو کے مایہ ناز ادیب اور نامور استاذ کہلانے کے متمنی دبیر احمد صاحب ایڈیٹر ہے۔ کالج میگزین کے چندشمارے میرے سامنے ہیں۔یہ بالترتیب 2017،2018 اور2023کے شمارے ہیں۔ایک طرف مولانا آزاد کالج کی پرشکوہ شہرت اور دوسری طرف اس میگزین کا معیار ۔دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نظر نہیں آیا۔
یہ سہ لسانی (اردو، انگریزی،بنگلہ)رسالہ ہے۔2017کے شمارے میں 10 انگریزی،11اردو،اور 4مضامین بنگلہ زبان کے شامل ہیں۔2018کے شمارے میں انگریزی کے 8،اردو کے 11اوربنگلہ کے 3مضامین شامل ہیں۔2023کے شمارے میں انگریزی اور اردو کے مضامین بالترتیب 14اور9ہیں لیکن بنگلہ کا صرف ایک مضمون شامل ہے۔مضامین کے درج بالا اعداد و شمار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسے کسی صورت سہ لسانی رسالہ نہیں کہا جاسکتا۔
۔2017اور2023کے شماروں کا Editorialحرف بہ حرف ایک ہی ہے۔سوائے پرنسپل کے نام کے کوئی بھی تبدیلی نہیں ہے،نہ مواد میں، نہ خیال میں اور نہ ہی فارمیٹ میں؛مکمل کاپی اور پیسٹ ہے البتہ 2017میں اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر کرشنا رائے کی جگہ 2023میں موجودہ پرنسپل کا نام تبدیل کردیا گیا ہے اور بس۔اس میں ممکن ہے کوئی قباحت نہ ہو لیکن اس سے رسالہ کی صحت مندی متاثرہوتی ہے بلکہ پھوہڑپن کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
۔2017کے شمارے میں پہلے انگریزی، پھر بنگلہ اوراسی ترتیب میں اردو مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ یعنی اردو کا ہر مضمون انگریزی اور بنگلہ کی طرح بائیں طرف سے شروع ہوکردائیں صفحات کی طرف کھلتا جاتا ہے جبکہ کثیرلسانی کسی بھی رسالے میں اردو مضامین کو ہمیشہ دائیں طرف سے ہی رکھاجاتا ہے۔خوشی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ 2023کے شمارے میں کرلیا گیا ہے۔
پروف کی بے شمار غلطیاں ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ پروف دیکھا ہی نہیں گیا ہے۔
2023کے شمارے میںپہلا مضمون’شمس الرحمٰن فاروقی:اردو تنقید کا استعارہ‘ ہے۔یہ مضمون خود ایڈیٹرصاحب کا ہے۔اس مضمون کے پہلے پیراگراف کو پڑھنے کے بعد ہی مایوسی ہوجاتی ہے۔کسی بھی صورت یہ مضمون ایک ایسے شخص کا نہیں لگتا ہے کہ جوتقریباً تین دہائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہے۔شمس الرحمن فاروقی جیسی شخصیت جو اپنی ذات میں انجمن ہیں جنہوں نے نصف صدی تک اردو کے گیسوئے برہم کو سنوارا اور نکھارا ہے۔اس شخصیت کے فکر و فن کو بیان کرنے کیلئے جو جملے استعمال کئے گئے ہیں اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ محترم ایڈیٹرصاحب کو فاروقی کے قد و قامت کا اندازہ نہیں ہے یا پھر وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔انہیں اپنے سامنے ہرشخص چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔مضمون کے زبان و بیان میں سلاست اور روانی تو دور دور تک نظر نہیں آتی ہے ۔جملے کی ساخت عامیانہ اور جہل پرور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔
چند عام غلطیا ملاحظہ کریں۔۔۔(۱)ص102:تیسرے پیراگراف کی پہلی لائن میں تنقیدکارناموں میں ’’ی‘‘ کے ساتھ ’تنقیدی کارناموں ہونا چاہئے۔(۲)ص 101:دوسرے پیراگراف کی تیسری سطرمیں ’افسانی کی حمایت‘ کو’ افسانے کی حمایت‘ ہونا چاہئے۔(۳)ص101:تیسرے پراگراف کی پہلی لائن میں ’اور‘ کی جگہ ’اوت‘ ہے۔(۴)ص100:آخری پیراگراف میں اخیر سطر سے پہلی والی لائن میں لفظ’اس اس‘ کی تکرار کی بہ جائے محض ’اس‘ ہونا چاہئے۔٭دوسرے مضمون کی اغلاط ملاحظہ فرمائیں:(۱)ص98:پہلے پیراگراف کی آخری سطروں میں ’مناسب مناسب‘ اور عظیم ورثہ کی بہ جائے ’عظیم ورہ‘ کسی طور مناسب نہیں ہیں۔(۲)ص97:آخری پیراگراف کی تیسری سطرمیں ’اسی‘ کی جگہ ’سی‘ ہے۔اسی پیراکی چوتھی لائن میں ’اردو شاعری میں اس ’کے‘ بغیر کی بہ جائے اس’ کو‘ بغیردرج ہے۔(۳)ص96:پہلے پیراکی چوتھی سطرمیں ’میں‘ کی بہ جائے ’مں‘ ہے۔پانچویں سطر میں ’ضرورت پرتی‘ کی بہ جائے ’ضرورت پڑتی‘ہوناچاہئے۔(۴)ص96:تیسرے پیرا میں جملہ ’اب بھی اس میںوہ تازگی و توانائی باقی ہے‘ میں۔۔’اس میںcوہ تازگی و توانائی باقی ہے‘ہوگیا ہے۔ یہ انگریزی حرف’c‘ کی بھلا یہاں کیا ضرورت ہے۔(۵)ص95: اقتباس کا اخیر حصہ ہے: ’شعرملاحظہ ہو‘ ۔۔۔لیکن کوئی شعردرج نہیں ہے۔ایسا کیوں ہے؟کیا مدیرکو اس سے یونہی صرف نظرکرنا چاہئے؟(۶)ص95:تیسرے پیرا کی آخری لائن میں’بے آب و گیاہ سحرا‘ کو ’بے آب و گیاہ صحرا‘ ہونا چاہئے۔کم و بیش یہی صورت حال دیگر مضامین میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔حتی کہ انگریزی کے مضامین بھی اغلاط سے پاک نہیں۔
اب2023کے شمارے میں شامل انگریزی مضامین کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں
page No. 25……..historian ……should be………historians
page No. 26……..Nagagopal ……should be………Nabagopal
page No. 26……..Lajpar ……should be………Lajpat
page No. 33……..Rodes ……should be………Rhodes
page No. 34……..Lalong ……should be………Langol
page No. 35……..Cauca ……should be………Causa
اس جائزے کی روشنی میں یہ نتیجہ بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے کہ میگزین کا معیارنہ صرف پست ہے بلکہ المنائی ایسوسی ایشن کے ارباب مجاز کے لمحہ فکریہ بھی۔فاضل ایڈیٹرکے پاس یا تو وقت کی کمی ہے یا یہ رسالہ ہی ان کی priority سے خارج ہے، نہیں تو ایسی فاش اور اغلاط سے پر رسالہ وہ کیوں کر نکالنے کی جرأت فرماتے۔ توقع ہے کہ اردو ، انگریزی اور بنگلہ زبان کے مضامین کا تناسب logicalہوگا۔ پروف کا خیال رکھا جائے گااور رسالہ کے معیارسے کسی قسم کی غفلت نہیں برتی جائے گی۔