بیٹے عمر خالد سے جیل میں ملاقات
تحریر: صبیحہ خانم
(8 جولائی 2025، آؤٹ لک میگزین سے ماخوذ)
اپنے بیٹے عمر خالد سے جیل میں ملاقات نے میرے دل کو نئی زندگی دی، میری ہمت کو تازگی بخشی۔
پچھلے دو ہفتوں سے عمر کی کوئی ویڈیو کال نہیں آئی تھی۔ معلوم ہوا کہ تکنیکی خرابی کے باعث آن لائن ملاقات ممکن نہیں رہی۔ دل بے چین ہونے لگا کیونکہ وہی ویڈیو کال ایک ادھوری سی ملاقات کا سہارا تھا، اور اب وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، دل بوجھل تھا۔ اچانک دل میں ایک خیال آیا — کیوں نہ سامنے سے جا کر بیٹے سے ملاقات کی جائے؟
شوہر سے بات کی تو انہوں نے ایک ضروری مصروفیت کا حوالہ دے کر معذرت کرلی۔ میں نے ہمت نہ ہاری اور خود اکیلے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس عمر میں جیل جانا آسان نہیں۔ لیکن جب انسان اللہ پر بھروسا رکھے اور ارادہ پختہ ہو تو راستے خود آسان ہو جاتے ہیں۔
کئی مہینوں بعد آج بیٹے سے روبرو ملاقات کا دن تھا۔ دل میں عجیب سی کیفیت تھی۔ یہ ملاقات بھی کیسی ہے — درمیان میں دو شیشے، ایک طرف ہم اور دوسری طرف عمر۔ نہ ہاتھ ملا سکتے، نہ چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ ایک دھندلا سا عکس اور انٹرفون پر بات چیت۔
جمعہ کی صبح 9 بجے گھر سے نکلی۔ جامعہ نگر سے تہاڑ جیل کا سفر کافی طویل اور رش بھرا ہے۔ ایک گھنٹے میں وہاں پہنچی۔ میں عمر کے لیے چمڑے کی چپلیں لے گئی تھی، لیکن چیکنگ والے نے اندر لے جانے کی اجازت نہ دی۔ بڑی منت سماجت کی، لیکن انہوں نے نہ سنی۔ مجبوراً وہ چپلیں وہیں چھوڑنی پڑیں۔
جیل کے باہر مرد، عورتیں اور بچے لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔ آج شاید عام دنوں سے زیادہ ملاقات کرنے والے آئے تھے۔ میں بھی قطار میں کھڑی ہو گئی۔ میرے پیچھے دو خواتین اپنے رشتہ داروں کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں — ایک کا بیٹا ریپ کے الزام میں ایک سال سے جیل میں تھا، دوسری کا بہنوئی آٹھ ماہ سے۔ میں خاموش رہی، سنتی رہی۔ سوچتی رہی کہ ان سے کیسے کہوں کہ میرا بیٹا بے قصور ہونے کے باوجود پانچ سال سے قید میں ہے۔
خیالات کا سلسلہ جاری تھا۔ یاد آیا کہ عمر کو دو بار 7 دن کی پیرول ملی تھی — بہن اور کزن کی شادی کے لیے۔ وہ چند دن خوشی میں گزر گئے، اور پھر وہی قید۔
آخر ایک گھنٹے بعد میری باری آئی، ملاقات کی پرچی ملی۔ لیکن آگے ایک اور لمبی قطار — اس بار عمر کے ماہانہ خرچ کے لیے رقم جمع کرانے کی۔ اس سارے عمل میں ملاقات سے زیادہ وقت قطاروں میں گزرا۔
پھر جوتے ایکسرے سے گزرے، جسمانی تلاشی ہوئی، اور آخرکار میں اندر داخل ہوئی۔ جیل نمبر 2 جہاں ملاقات ہونی تھی، وہاں تک 15 منٹ پیدل چلنا پڑا۔
ملاقات کے مقام پر ایک خاتون عملے نے پرچی لی اور کہا، ’’اوہ! آپ عمر کی امی ہیں؟ اُس کے دوستوں کو تو دیکھا ہے، آپ کو پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘ ان کی آواز میں خلوص تھا۔ انہوں نے رجسٹر میں انگوٹھا لگوایا اور انتظار گاہ میں بیٹھا دیا۔
ان کی آنکھوں میں عمر کے لیے عزت محسوس ہوئی۔ سوچا، یہ عمر کے اخلاق و کردار کی وجہ سے ہوگا۔ جیل جیسی جگہ جہاں گالیاں اور بدزبانی عام ہیں، وہاں اگر کوئی قیدی خوش اخلاق ہو، تو دل جیت لیتا ہے۔ عمر کی فطرت میں ہی عاجزی اور محبت ہے۔ وہ کبھی غصہ نہیں کرتا۔
اب جیل کا ہر عملہ جانتا ہے کہ عمر بے قصور ہے، ریاستی مظالم کا شکار ہے۔
انتظار گاہ میں پرندوں کی چہچہاہٹ دل کو بھلی لگی۔ لگا جیسے پرندے آزاد ہو کر اعلان کر رہے ہوں، ’’ہم یہاں بھی آزاد ہیں۔‘‘ اور ہم جو باہر رہ کر خود کو آزاد کہتے ہیں، اندر عمر جیسے ہزاروں قیدی بے بسی کی قید میں ہیں۔
عمر، جو یونیورسٹی کے اندر اور باہر ہر محاذ پر سرگرم تھا، جو جنتر منتر پر آواز اٹھاتا تھا، جو ملک بھر میں انصاف کی بات کرتا تھا — اُس کے لیے یہ قید بہت سخت امتحان ہے۔ پانچ سال کی قید — ایک دو دن کی بات نہیں۔
اگر اُسے مطالعے کا شوق نہ ہوتا تو نہ جانے وقت کیسے گزرتا۔ ان پانچ سالوں میں اس نے 300 سے زائد کتابیں پڑھ لی ہیں۔
اسی دوران لاوڈ اسپیکر پر مسلسل اعلانات ہو رہے تھے۔ اچانک “عمر خالد” کا نام سنائی دیا۔ میں جلدی سے ملاقات کے کمرے کی طرف دوڑی۔ شیشے کے پیچھے سے عمر نظر آیا — اُس نے ایک درخت سے توڑ کر میرے لیے چھوٹا سا پھول لایا تھا۔ وہ پھول میرے لیے کسی قیمتی تحفے سے کم نہ تھا۔
ہم نے انٹرفون پر بات شروع کی۔ عمر نے کہا، ’’امی، بہت دیر ہوگئی، میں کافی دیر سے انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’ہاں بیٹا، قطاروں میں بہت وقت لگ گیا۔‘‘
اس نے خاندان کے ہر فرد کا نام لے کر خیریت پوچھی، خاص طور پر ابو کی صحت کا خیال رکھا۔ بہنوں اور بچوں کے بارے میں پوچھا۔ وہ جیل کی زندگی کے بارے میں بتا رہا تھا، اور میں کھانے پینے، صحت، گرمی کے بارے میں سوالات کیے جا رہی تھی۔
عمر ہر سوال کا تحمل سے جواب دیتا رہا اور مسلسل گھر والوں کی فکر کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ وہ ابو کی خبروں کو روز اخبار میں پڑھتا ہے اور ابو سے کہو کہ سفر کم کریں اور صحت کا خیال رکھیں۔
ملاقات پلک جھپکتے ختم ہو گئی۔ عمر مختلف کھڑکیوں سے ہوتا ہوا اُس کھڑکی کے پاس آ گیا جو گیٹ کے قریب تھی۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتی رہی، شیشے کے پار چہرہ صاف نظر نہ آیا، لیکن شاید وہ کھڑا ہو کر مجھے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میں آہستہ آہستہ، بھاری قدموں سے واپس لوٹ آئی۔
لیکن واپسی پر میرا سر بلند تھا۔ مجھے فخر تھا کہ میرا بیٹا کسی جرم میں نہیں، بلکہ مظلوموں کا ساتھ دینے اور ظالمانہ قانون کے خلاف کھڑے ہونے کی پاداش میں قید ہے۔ اُس نے ہمارے ان بزرگوں کی وراثت کو زندہ کیا جو انگریزوں کے ظلم کے خلاف جیل گئے، مگر سر نہیں جھکایا۔
میرے بیٹے کی ثابت قدمی نے مجھے نئی طاقت دی۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
عمر کی قربانی، صبر اور استقامت ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔ جیلوں میں بند ہر اس آواز کی جدوجہد رنگ لائے گی جو صرف انصاف کے لیے بولی تھی۔ میرے دل میں اُن سب ماؤں کے لیے ہمدردی ہے، جن کے بیٹے اور بیٹیاں آج ظلم کے خلاف بولنے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے وہ بھی میرے جیسے فخر کے جذبات رکھتے ہوں گے۔
جب تاریخ لکھی جائے گی، تو ہمارے بیٹے بیٹیاں خاموش رہنے والوں میں نہیں بلکہ سچ بولنے والوں میں گنے جائیں گے۔
مجھے اس وقت فخر ہوا جب سنا کہ دنیا کے دوسرے حصے میں زہرَن مامدانی جیسے لوگ میرے بیٹے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہاں بھی بہت سے لوگ ان سالوں میں ہمارے گھر آئے — پرکاش راج، سوارا بھاسکر جیسے مشہور اداکار، بزرگ سماجی کارکنان۔
ایک دن جنوید کی ماں — وہی 17 سالہ لڑکا جو 2017 میں ہریانہ میں پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا — اچانک ہمارے گھر پہنچ گئیں۔ عمر نے اُس وقت اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ وہ ماں میری ہمت بڑھانے اور دعائیں دینے کے لیے سب مشکلات سہہ کر آئی تھیں۔
میں ان سب کا شکر ادا نہیں کر سکتی۔ وہی میرا حوصلہ ہیں۔ اور یہ حوصلہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ یہ سیاہ دور ختم ہوگا۔ آخرکار محبت، اتحاد، اور انصاف کی آوازیں ہی غالب آئیں گی۔
صبیحہ خانم(والدہ عمر خالد)
(رکن جماعتِ اسلامی ہند، نئی دہلی