Wednesday, March 12, 2025
homeادب و ثقافتپاکیزہ روح ذکیہ جعفری کی یادگار جنگ:اپوروانند

پاکیزہ روح ذکیہ جعفری کی یادگار جنگ:اپوروانند

اپوروانند

ذکیہ جعفری نہیں رہیں۔ ان کے بیٹے تنویر جعفری نے بتایا کہ احمد آباد میں اپنی بیٹی کے گھر یکم فروری کی صبح اپنے سارے کام نمٹا کر گھر والوں سے بات چیت کے دوران ذکیہ جعفری کو کچھ تکلیف کا احساس ہوا۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے انھیں 11.30 بجے مردہ قرار دے دیا۔

ذکیہ 86 سال کی تھیں۔ ان کی موت قدرتی کہی جائے گی۔ اکثر لوگ اپنے لیے ایسی ہی موت کی خواہش رکھتے ہیں جس میں پریشانی کا سامنا نہ ہو اور اپنوں کو بھی اس وجہ سے تکلیف برداشت نہ کرنی پڑے۔ ان کی موت سے متعلق تفصیل پڑھ کر مجھے اپنی والدہ کی موت یاد آ گئی۔ کلیجے میں درد کی شکایت اور بس! وہ جیسے غائب ہو گئیں۔ میری دوست نویدیتا مینن نے سن کر کہا کہ ان کی ماں ایسے لوگوں کو پاکیزہ روح کہا کرتی ہیں۔

ہم ذکیہ جعفری کی طرح کی موت کی شاید تمنا کریں، لیکن کیا ہم ان کی طرح کی زندگی بھی جینا چاہیں گے؟ بچوں کے بڑے ہو جانے اور ٹھکانے سے لگ جانے کے بعد اطمینان کی سانس کے جو سال ایک عام ہندوستانی خاتون اپنے شوہر کے ساتھ بغیر کسی بھاگ دوڑ کے گزارنے کی خواہش کرتی ہے، وہ سال ذکیہ جعفری نے عرضیاں تیار کرتے ہوئے، ہندوستانی عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزارے۔ اس لیے کہ آج (یکم فروری کو) 86 سال کی جس ضعیفہ ذکیہ جعفری نے دنیا سے وداع لی، وہ جب 63 سال کی تھیں تب ان کی آنکھوں کے آگے ان کے شوہر احسان جعفری کا مشتعل ہندوؤں نے قتل کر دیا تھا۔ وہ صرف ان کا قتل نہ تھا۔

احمد آباد کی جس گلبرگ سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں وہ رہتی تھیں، اسے مسلمانوں کی خون کی پیاسی ہندو بھیڑ نے گھیر لیا تھا۔ وہ کوئی اچانک جمع ہو گئی بھیڑ نہ تھی۔ احسان جعفری بھی کوئی معمولی انسان نہ تھے۔ وہ رکن پارلیمنٹ رہ چکے تھے۔ گجرات حکومت کے ہر محکمے میں انھیں جانا جاتا تھا۔ گجرات کا ہر سیاسی لیڈر ذکیہ جعفری کے شوہر کو جانتا تھا۔ اس وقت کا وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی۔ شاید اسی یقین سے کہ ان کے نامور ہونے کی وجہ سے انھیں سنا جائے گا، اور ان کی موجودگی کے سبب وہ بھی بچ جائیں گے، گلبرگ سوسائٹی کے سارے پڑوسی ذکیہ جعفری کے فلیٹ میں پناہ لینے چلے آئے۔

پولیس کمشنر خود آئے اور کہا کہ پولیس کی مزید ٹکڑیاں آ رہی ہیں۔ لیکن بھیڑ بڑھتی گئی اور پولیس کے آنے کے کوئی آثار نہ تھے۔ احسان صاحب نے ایک کے بعد ایک سارے افسران کو فون لگانا شروع کیا۔ پولیس چیف، میئر، اپوزیشن کے لیڈر، سارے اعلیٰ افسران، سب کو۔ آخر میں ان کی پڑوسی روپا مودی نے دیکھا کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ کو فون کیا۔ فون پر وزیر اعلیٰ کا جواب سن کر احسان صاحب نے فون رکھ دیا۔ انھوں نے باہر جمع بھیڑ کے سامنے جانے کا فیصلہ کیا: مجھے مار ڈالو، باقی سب کو چھوڑ دو۔ بھیڑ ان پر ٹوٹ پڑی اور ان کے ٹکڑے کر دیے گئے۔

اس کے بعد سے ذکیہ جعفری کو احسان جعفری کی بیوہ کے طور پر جانا جانے لگا۔ وہ ایک بیچاری ہندوستانی بیوہ ہو کر رہ سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے اپنے شوہر اور باقی لوگوں کے قتل کے انصاف کی لڑائی لڑنا طے کیا۔ یہ آسان نہ تھا۔ وہ گجرات کے سب سے طاقتور انسان کے خلاف کھڑی تھیں۔ اکثریت ہندو کی نفرت کے خلاف بھی۔ انصاف کی یہ لڑائی طویل چلنے والی تھی۔ لیکن ذکیہ نے اس راہ کو منتخب کیا۔ ان کے مطابق ان کے شوہر کا قتل ایک بڑی سازش کا حصہ تھی۔ یہ بدلے کے کسی جنون میں ہو گیا قتل نہیں تھا۔ یہ قتل نظام نے ہونے دیا تھا۔ اس کی تیاری کی گئی تھی۔

گودھرا میں ٹرین میں آگ لگنے سے مرے ہندوؤں کی لاش ان کے اہل خانہ کو نہیں سونپے گئے، وشو ہندو پریشد کو دیے گئے ارو ان کا جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی۔ مسلمانوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ان کے خلاف تشدد کو منظم کیا گیا۔ احسان جعفری کی موت کسی جذباتی بھیڑ کے اشتعال کے سبب نہیں ہوئی۔

ذکیہ جعفری نے فیصلہ کیا کہ وہ احسان جعفری کے قتل کے پیچھے کی اس بڑی سازش کے سرغناؤں کے خلاف انصاف کی لڑائی لڑیں گی۔ انصاف کی یہ لڑائی طویل چلنے والی تھی۔ لیکن ذکیہ نے اس راہ کو منتخب کیا۔ وہ 22 سال اس راہ پر چلیں۔ ان کی بوڑھی ہوتی ٹانگیں کانپی نہیں۔ انھیں دہلی کی سب سے بڑی عدالت تک آنا پڑا۔ اور اس عدالت نے ذکیہ کی ہمت اور انصاف کی خاطر ان کے عزائم کے لیے ان کا ہاتھ تھامنے کی جگہ انھیں دُتکار دیا۔ کہا کہ آخر یہ کیسی عورت ہے جو 22 سال تک انصاف مانگتے ہوئے تھکی نہیں! یہ تو ہندوستانی خاتون نہیں۔ یہ کیسی عورت ہے جو پورے نظام کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہے۔ عدالت نے ذکیہ جعری کے انصاف کی جنگ کو حیرانی سے دیکھا۔ اسے انصاف کی ان کی ضد کو دیکھ کر شبہ ہوا کہ ضرور اس کے پیچھے کوئی سازش ہے۔ انصاف کی گزارش تو ہندوستانی خوبی نہیں۔ اور عدالت نے ذکیہ جعفری کی عرضی کو پھینک دیا۔

آج ذکیہ جعفری کی موت کے اس لمحے میں ہم یاد کریں کہ وہ ہندوستان کے نظام اور اس کی عدالتوں کے ذریعہ ٹھکرائی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ انصاف کی اس پیاس کے ساتھ اس دنیا سے گئی ہیں۔ جیسے کربلا میں شہادت کے ساتھ پانی کی ایک ایک بود کی پیاس کی یاد جڑی ہے، ویسے ہی ہم سب کو ذکیہ جعفری کی موت کے ساتھ انصاف کی ان کی نہ بجھ سکی پیاس کی یاد رہنی چاہیے۔

ذکیہ جعفری پاکیزہ روح تھیں، لیکن صرف اپنی موت کے انداز کے سبب نہیں، بلکہ اس سے زیادہ اپنی زندگی کے انداز کے سبب۔ اپنی زندگی کے بھی پچھلے 22 سال میں انصاف کی اپنی جدوجہد کے سبب۔ اس وجہ سے کہ ہر قدم پر ہندوستان کے طاقتور نظام کی طرف سے رکاوٹ اور مخالفت کے باوجود انھوں نے انصاف کی اپنی ضد نہیں چھوڑی۔ کیا ہمارے اندر ذکیہ جعفری جیسی زندگی جینے کی طاقت اور قوت ہے؟ کیا ہمیں ذکیہ کی انصاف کی پیاس کی یاد رہے گی؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں۔ یہ مضمون ہندی میں شائع ہوا تھا اور سب سے پہلے ہرکارا نیوز لیٹر میں چھپا تھا۔ بشکریہ thewirehindi.com)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین