نوراللہ جاوید
آخر وزیر اعظم نریندر مودی نے تیسری معیاد کے لیے وزارت عظمیٰ کے عہدہ کا حلف لے لیا ہے۔ نہرو کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جو لگاتار تیسری بار اس عہدہ پر پہنچے ہیں۔ نہرو اور مودی کے درمیان صرف یہی ایک چیز ہے جو مشترک ہے، باقی ان دونوں کی شخصیت، طرز حکمرانی اور فکر و نظر کے زاویے میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ علم قیافہ کے ماہرین صحیح بتائیں گے کہ پہلی دو معیادوں کے لیے حلف برداری اور اس مرتبہ کی حلف برداری کے دوران وزیر اعظم مودی کے چہرے کے تاثرات، اعتماد اور حرکات و سکنات میں کس قدر فرق رہا ہے۔ اس مرتبہ صرف وزیر اعظم مودی ہی نہیں بلکہ پوری بی جے پی قیادت کا اعتماد متزلزل نظر آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی منشا کے مطابق نہیں آئے ہیں۔ یہ کیوں نہیں آئے؟ اس پر ہفت روزہ دعوت کے پچھلے شمارہ میں گفتگو ہو چکی ہے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی منشا اور عزائم کیا تھے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔انتخابات کے آخری مرحلے کی مہم کے اختتام کے بعد کنیا کماری میں 48 گھنٹوں کے مراقبے کے بعد وزیر اعظم مودی نے ’ New sankalp from the sadhana in Kanniyakumari‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس کی شروعات انہوں نے سوامی ویویکانند کے ایک پیرائے گراف سے کی تھی اور اس میں انہوں نے عظیم اور زبردست مینڈیٹ کی توقع کا اظہار کرتے ہوئے بڑے فیصلوں کا وعدہ کیا تھا جس میں بڑی اقتصادی اصلاحات شامل ہیں۔ اگرچہ اس مضمون میں آئین میں تبدیلی کا کوئی ذکر نہیں ہے مگر انتخابی مہم کی شروعات سے قبل بی جے پی لیڈروں کے بیانات کو اگر مودی کے بڑے فیصلے اور اقدامات کرنے کے عزائم کے تناظر میں دیکھا جائے تو دراصل وہ آئین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے اشارے کر رہے تھے جس میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے، سیکولرازم اور وفاقیت کا خاتمہ کرکے ایک طاقتور مرکزی ہندو ریاست بنانے کا عزم شامل تھا۔ چناں چہ انہوں نے انتخابی مہم کے اختتام سے چند دن قبل ایک عالمی رہنما سے خود کو مافوق الفطرت اور خدا کا فرستادہ اور بھارت کی تقدیر سنبھالنے والے شخص کےطور پر پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے: (ومکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین) کے مطابق 4 جون کو جو نتائج آئے وہ مودی کے توقعات و امنگوں کے بالکل خلاف تھے ۔400 سیٹیں تو دور بی جے پی اپنے طور پر 272 کے ہندسے تک بھی نہیں پہنچ سکی، بلکہ پوری اتحادی جماعت 292 تک رہ گئی اور انہیں ایسے اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑے گا جنہیں وہ ماضی میں گالیاں دے چکے ہیں۔ چناں چہ جیت کی جشن سے لے کر حلف برداری کی تقریب تک مودی مودی کے نعرے غائب تھے۔ مودی کی گارنٹی کی جگہ این ڈی اے کی گارنٹی اور این ڈی اے حکومت جیسے الفاظ کا مودی نے بار بار اعادہ کیا گیا۔ حالاں کہ مودی نے گزشتہ دس سالوں میں کبھی بھی این ڈی اے حکومت کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔
بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو دو تہائی اکثریت سے محض 20 سیٹیں زائد ملی ہیں اور ان کے شریک کاروں میں جنتا دل یونائیٹڈ کے سربراہ اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہیں جنہوں نے 12 سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے۔ کمار ایک سیریل فلپ فلپر ہیں جو کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں۔این ڈی اے میں دوسری سب سے بڑی پارٹی جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے چندرابابو نائیڈو کی تلگو دیشم ہے جس کے پاس 16 سیٹیں ہیں۔ ماضی میں نائیڈو مودی کو ’’دہشت گرد‘‘ تک کہہ چکے ہیں۔ کمار اور نائیڈو دونوں کو مسلم دوست لیڈروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہ اتنے مسلم مخالف نہیں ہیں جتنے مودی اور ان کے با اعتماد وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں۔ اسی طرح ان کے حلیف ساتھیوں میں بہار کے چراغ پاسوان یا پھر آر ایل ڈی کے وجینت چودھری ہیں جو نظریاتی طور پر ہندتو کے حامی نہیں ہیں۔ مودی کی قیادت والی موجودہ حکومت ماضی کی حکومت سے مختلف ہے۔ اسے ایسے حلیفوں کی حمایت حاصل ہے جو ہندتو ایجنڈے یا اس کے وفاق مخالف خیالات میں شریک نہیں ہیں۔ وہ سیاسی اغراض و مقاصد کے تحت شراکت دار ہیں۔ یہ جماعتیں بی جے پی کے نظریاتی اتحادی نہیں ہیں۔نائیڈو اور نتیش کمار کی پارٹی نے اشارے بھی دیے ہیں۔چندر ابابو نائیڈو کے بیٹے نارا لوکیش نے مسلمانوں کو ریزرویشن کے سوال پر کھلے عام مودی کے نظریات وفکر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ریزرویشن سماجی انصاف کا حصہ ہے اور یہ خوشامدی سیاست کا حصہ نہیں ہے۔ جب کہ مودی پورے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو ریزرویشن کے نام پر ہندوؤں بالخصوص، پسماندہ برادری اور دلت آبادی کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔اسی طرح نتیش کمار کے قریبی ساتھی کے سی تیاگی بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت کو مسلم مخالف اقدامات کرنے نہیں دیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی کے مسلم مخالف بیانات سے چراغ پاسوان نے بھی جو خود کو مودی کے سایہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، عدم اتفاق ظاہر کر چکے ہیں۔اس کا مطلب واضح ہے کہ مسلمانوں کے لیے دس سالہ مسلسل مذہبی محکومی سے ایک مہلت ہے۔ یہ صورت حال مسلمانوں میں اعتماد بھی بحال کرتی ہے۔مسلم ووٹوں کو بے اثر بنانے کی کوششوں کے دوران حزب اختلاف کے لیے ان کے بھاری ووٹوں نے ہندتو کی زبردست فتح کو روک دیا ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں صرف 24 مسلم نمائندوں کی پہنچ ہوئی ہے، 14 فیصد آبادی ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں نمائندگی کی شرح محض 4.7 فیصد ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی غیر مساوی طور پر منقسم ہے۔ لیکن ان ریاستوں میں جہاں مسلمانوں کی نمایاں موجودگی ہے جیسے کہ اتر پردیش (19 فیصد) مغربی بنگال (27 فیصد) اور کیرالا (27 فیصد) مودی کی پارٹی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ درحقیقت بی جے پی کو اتر پردیش میں کلین سویپ کرنے، مغربی بنگال میں گزشتہ انتخاب کے نتائج کو دہرانے اور کیرالا میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کی امید تھی لیکن اسے ان ریاستوں میں سب سے زیادہ اور زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رام مندر کی تعمیر کو ہندو قوم پرستی کے عروج اور تاج کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اس کے نام پر پورے ملک میں فتح کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی گئی تھی مگر فیض آباد لوک سبھا حلقہ جس کے تحت ایودھیا آتا ہے وہاں مسلم اور دلت آبادی کے درمیان اتحاد کے بدولت بی جے پی کو شرم ناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ مسلسل بلند بے روزگاری، دیہی بدحالی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عدم مساوات سے دو چار ہندوستانی ووٹرس مودی کے ہندتو پالیسی اور رام راجیہ کے نعروں کے فریب میں نہیں آئے۔انتخابی مہم کے دوران استعمال ہونے والی گندی بیان بازی جس میں مودی نے مسلمانوں کو ’’درانداز‘‘، زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم اور مسلمانوں کے بھارتیہ ہونے کو جھٹلایا تھا، اور ڈرایا تھا کہ اگر اپوزیشن جیت گئی تو وہ ہندوؤں کی دولت چھین کر مسلمانوں کے حوالے کر دے گی۔ اس غلیظ مہم کا بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت کو میڈیا اور عدلیہ پر قبضہ اور عدالتوں اور سرکاری اداروں کو ہتھیار بناکر جمہوریت کو نکما کرکے عظیم ہندو ریاست بنانے کے عزائم سے دست بردار ہونا ہوگا۔ اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آمرانہ انداز کو ترک کرنا ہوگا اور زیادہ جمہوری بننا ہوگا۔ مودی کو ایسی معاشی پالیسی پر زیادہ توجہ دینی ہوگی جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ مودی کے ہندتو کے عزائم میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں اور ہندتو کے نظریے کو ہوشیار ووٹروں اور ایک بہادر اور مستقل اپوزیشن، انڈیا اتحاد نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ علاقائی لیڈر جیسے اکھلیش یادو، ممتا بنرجی، ایم کے اسٹالن اور شرد پوار نے راہل گاندھی کے ساتھ مل کر ہندوستان کی جمہوریت کو بچانے میں مدد کی ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک بڑی راحت اور مہلت ملی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ مسلمان اس مہلت کا کس قدر فائدہ اٹھائیں گے؟ دراصل مودی کے دس سالہ دور حکومت نے ایک طرف اپنے نفرتی نظریہ اور بے مہار انتہا پسندوں کی مدد سے بھارتی معاشرے کو جس کے لیے کبھی گنگا و جمنی تہذیب کا حامل اور تنوع میں اتحاد جیسے خوشنما اصطلاحات استعمال کیے جاتے تھے، اسے مکمل طور پر تقسیم کر دیا ہے اور یہ تقسیم ہر جگہ نظر آنے لگی ہے۔ مسلمان بالخصوص مسلم نوجوانوں کو نفسیاتی طور پر خوف زدہ کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی پالیسیوں میں مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ اقلیتی طلبا کے اسکالرشپس میں کٹوتی، اقلیتی اداروں اقلیتی کمیشن، نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن انسیٹیوشن، این سی پی یو ایل، مولانا آزاد فاونڈیشن، علی گڑہ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے فنڈز میں کٹوتی جیسے کئی اقدامات مودی حکومت نے کیے ہیں۔ان اداروں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی اور سماجی صورت حال متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ادارہ جاتی تعصب کی وجہ سے ہر ایک شعبے میں مسلمان نچلے پائیدان پر پہنچ گئے ہیں۔ (اعداد و شمار مندرجہ ذیل باکس میں دیکھے جاسکتے ہیں)
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں و اقلیتوں کو مشترکہ طور پر نتیش کمار، چندر ابابو نائیڈرو، چراغ پاسوان، وجینت چودھری یا پھر اجیت پوار، جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مسلم ووٹروں کی ناراضگی کی وجہ سے انہیں یہ خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، ان کے ذریعہ حکومت ہند کے اعلیٰ نمائندوں سے گفت وشنید کے دروازے نہیں کھولنے چاہئیں؟ جمہوریت میں گفت و شنید، ڈائیلاگ اور رابطے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا مسلمان موجودہ صورت حال میں خود کو الگ تھلگ کرکے اپنے مسائل کو اپنے بل بوتے پر حل کر سکتے ہیں؟ بلا شبہ بی جے پی اور اس کی سیاسی سرپرست آر ایس ایس کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، نہ ہی خود کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بی جے پی اترپردیش میں کراری شکست کا تجزیہ کس انداز میں کرے گی یہ وقت بتائے گا۔ اس کے باوجود حلیفوں کی سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر اپنے ارادے و عزائم سے چند قدم پیچھے تو ہٹنا ہی ہوگا۔
اس صورت حال میں چند اہم سوالات ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں کیا ملی تنظیموں اور جماعتوں کو حکومت سے مذاکرات اور اپنے مسائل کو پیش کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اس کے لیے نتیش کمار، چندر بابونائیڈو اور دیگر حلیف جماعتوں کے قائدین کس قدر مفید ہو سکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت سے بات چیت کن امور پر ہونی چاہیے، کیا اس کے لیے ملی تنظیموں اور مل جل کر مشترکہ ایجنڈا طے نہیں کرنا چاہیے؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے دیگر قائدین نے جس طرح سے نفرت انگیز مہم چلائی ہے اور اس کی وجہ سے سماج و معاشرہ جو متاثر ہوا ہے اس کے ازالے کے لیے مسلمانوں کو کیا اقدامات کرنا چاہیے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ انتخابات کے نتائج نے بھارت کی جمہوریت پر منڈلاتے خطرات کے سایے چھٹ گئے ہیں۔تاہم، اس معاملے میں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ نتیش کمار اور چندر ابابو نائیڈو ماضی میں بھی این ڈی اے حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں اور ان کی موجود گی میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، پوٹا جیسا بدنام زمانہ قانون نافذ کیا گیا جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں سے جیلوں کو بھر دیا گیا۔نتیش کمار ریلوے کے وزیر تھے اس کے باوجود انہوں نے گودھرا کا سچ سامنے لانے کی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ چناں چہ عالمی میڈیا میں مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مشہور امریکی میگزین ٹائمس نے نتائج آنے کے بعد بھارت کی جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے مودی اور اس کی بی جے پی کے عروج کو قریب سے دیکھا ہے، میں جانتا ہوں کہ اس سے لاکھوں ہندوستانیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا کیونکہ اس کا مطلب بنیادی اداروں، اصولوں اور ان آلات کو معطل کرنا ہے جو سیکولرازم اور جمہوریت کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ یہ ہندو قوم پرست ذہنیت، جس نے بظاہر پچھلے دس سالوں میں مقبولیت حاصل کی ہے، مودی کے تیسری مدت کے لیے حکومت حاصل کرنے کے بعد اس سے بھی زیادہ خطرناک ہونے کا اندیشہ ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ دیکھنے میں وقت لگے گا کہ بی جے پی اس نئی سیاسی حقیقت کی بنیاد پر پالیسی کے مقاصد اور بیان بازی کو کس طرح درست کرتی ہے۔ امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے لیکچرر سوشانت سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اگر یہ عام سیاست ہے تو ایسا لگتا ہے کہ مختلف مسائل پر ان کے اقدامات اتنے تیز نہیں ہوں گے۔ اپنی قوم پرست حمایت کی بنیاد کو پورا کرنے کے لیے بی جے پی حقیقت میں کوئی دوسرا راستہ اختیار کر سکتی ہے‘‘۔ کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کے پروفیسر پال کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت بھارت کی سب سے بڑی نرم طاقت کی روایت ہے‘‘ اور انتخابات میں اس کے دوبارہ سر اٹھانے سے لبرل اقوام میں ملک کی شبیہ بہتر ہوسکتی ہے۔ یہ بھارت کا ایک مناسب جمہوریت کے طور پر واپس آنا کئی معنوں میں عالمی نظام کے لیے اچھا ہے‘‘ لیکن سب اس پر منحصر ہے کہ مودی اس کھیل کو کیسے کھیلیں گے‘‘۔
جمہوریت میں ڈائیلاگ، رابطے کی اہمیت کے باوجود کئی دانشوروں کی رائے ماضی کے تلخ تجربے کے تناظر میں مختلف ہے۔ملی گزٹ کے ایڈیٹر و دانشور ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت نے مرکز میں اپنے دس سالہ دور میں اور اگر گجرات کو بھی جوڑ لیں تو بیس برس سے زائد عرصے کے تجربے نے بتا دیا ہے کہ مودی حکومت سے بات نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ بات کریں گے بھی نہیں۔ پچھلے دس سالوں کے دوران مودی نے کسی ذمہ دار مسلم تنظیم یا قائد سے ملاقات نہیں کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو مرکز میں اور ان تمام صوبوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے مسلمانوں کو پریشان کرنے اور سیاسی اور اقتصادی طور سے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ البتہ اب اس بات کی امید ہو گئی ہے کہ سیکولر سوچ رکھنے والی اتحادی پارٹیوں کے ذریعے ہم این ڈی اے سرکار پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ اس لیے خود نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو اور ان کی پارٹیوں سے تعلقات استوار رکھنے چاہئیں تاکہ وہ کابینہ اور حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے روکیں جو مسلمانوں کو پریشان کرنے کے مقصد سے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن اور نئے قانون شہریت جیسے مسائل پر ان لوگوں کی سوچ یقیناً وہ نہیں ہے جو بی جے پی کی ہے۔ وہ اس حکومت پر اسی طرح اثرانداز ہوں گے جیسے سی پی آئی ایم، یو پی اے سرکار پر اثرانداز ہوتی تھی یا واجپائی کی حکومت میں ان کی بعض حلیف پارٹیاں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جسمانی اور قانونی تحفظ بہت اہم ہے لیکن وقتی مسائل ہیں جن سے ہم غافل نہیں ہو سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور بزنس میں ان کی اچھی حصے داری کے لیے کوشش کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح میڈیا میں کم وسائل رکھنے کے باوجود یوٹیوب، پورٹلز اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے میڈیا کی اس کمی کو پورا کرنا چاہیے جس میں ایک طویل عمل کی وجہ سے ہم آج تقریباً صفر ہیں۔
اس معاملہ میں سکریٹری جماعت اسلامی ہند تنویر احمد کی رائے قدرے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت میں ڈائیلاگ اور رابطہ کافی اہم ہوتا ہے۔بحیثیت جماعت اور فرد ہماری سوچ یہ ہے کہ رابطہ اور ڈائیلاگ کسی سے بھی اور کسی بھی وقت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔موجود ہ صورت حال نے ڈائیلاگ اور رابطے کی گنجائش کے دروازے کھول دیے ہیں۔ یقیناً نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر یہ کس قدر متاثر ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے تاہم، اس سے قبل ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرایا جائے کہ مسلم ووٹوں کے بے اثر ہونے کے جو تاثرات دیے جا رہے تھے وہ اس انتخاب میں ختم ہوگئے ہیں۔مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اس انتخاب میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور آج جو نتائج ہمارے سامنے ہیں وہ مسلم ووٹوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے ہی ہیں۔اتر پردیش، بنگال اور دیگر مقامات پر ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔کرناٹک میں شمالی کرناٹک میں مسلمانوں نے بہتر حکمت عملی اپنائی اور اس کا فائدہ بھی ملا، لیکن جنوبی کرناٹک میں شاید بہتر کوشش نہیں ہوئی اس لیے وہاں کے نتائج بی جے پی کے حق میں رہے۔ اس لیے ملک کے آئین کے دائرے میں رہ کر سیاسی اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی ہند خالص مذہبی جماعت ہے مگر سیاست بھی مذہب کا حصہ ہے اگرچہ ملک کی موجودہ سیاست کا مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہم اپنے جماعتی دائرہ کار میں ہمیشہ سیاسی اتفاق رائے قائم کرنے کی اپنے طور پر بھی اور ملک گیر سطح پر کوشش کرتے ہیں۔سید تنویر احمد کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل کو پیش کرنے سے قبل ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے اور خود مسلمانوں کے درمیان اتفاق رائے بنانے کی کوشش ہے کہ ہمیں کن مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر بات کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ حکومت سے رابطہ کرنے والے مسلم لیڈروں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے شکار نہ بنیں۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مذاکرات کار ذاتی مفادات پر کام کرنے لگتے ہیں، اس سے ملت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
حکومت سے بات چیت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں دانشوروں کی مختلف رائے ہے۔تاہم، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حالات تبدیل ہونے سے پس منظر بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے امکانات کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ مودی اپنی تقریب حلف برداری میں بنگلہ دیش اور مالدیپ جیسے ممالک کے رہنماوں نے شرکت کی تھی مگر ان کے سامنے جس جمہوریت کی تصویر پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ ان کی 73 رکنی وزارت میں ایک بھی مسلمان لیڈر شامل نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ مودی کے دعوے اور عمل میں تضاد کا بیّن ثبوت ہے۔ یہ عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی مسلم نمائندہ جیت کر آیا ہی نہیں تو پھر نمائندگی کسے دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے پارلیمانی انتخاب میں کتنے مسلم نمائندوں کو ٹکٹ دیا تھا؟ پورے ملک میں صرف مالاپورم کے علاوہ کسی بھی حلقے سے مودی نے مسلم امیدوار کو نہیں اتارا۔ چناں چہ مشہور انگریزی صحافی اور Being Muslim in Hindu indai کے مصنف ضیا السلام موجودہ صورت حال کو For Indian Muslims like me an unshakable feeling of doom (میرے جیسے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے عذاب کا ایک غیر متزلزل احساس) سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ مایوسی سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنا چاہئیں۔ زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں رہتیں، زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ مایوسی کے دلدل میں ن پھنستیں بلکہ اپنے امراض کی تشخیص خود کرتی ہیں اور اس کے حل کے لیے بڑے اقدامات کرتی ہیں۔ چناں چہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ہمیں دو راہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے، ایک طرف مایوسی کے احساسات ہیں اور دوسری طرف امیدوں کی قندیلیں روشن ہونے کے امکانات ہیں۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہم کس راہ کو اختیار کرتے ہیں۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ مودی اور بی جے پی حکومت کے ذریعہ جو نفرت انگیزی کی گئی ہے اس کے ازالے کے لیے مسلمانوں کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں تو ڈاکٹر ظفر الاسلام کہتے ہیں کہ نفرت کی سیاست کے خلاف ہم نے بیانات اور اردو پریس میں مضامین لکھنے کے علاوہ تقریباً کچھ نہیں کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایک طرف تو انگریزی میں ایسی رپورٹیں اور کتابیں شائع ہوں جو طبقۂ اقتدار اور میڈیا تک ملک میں اور حقوق انسانی کی تنظیموں تک ملک کے باہر مؤثر انداز میں پہنچیں۔ دوسرے تمام مسلم دشمن حادثات و واقعات کے سلسلے میں عدالتی چارہ جوئی شروع سے لے کر آخر تک اچھی طرح کی جانی چاہیے۔ ان دونوں ہی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ ابھی بھی ہم جاگ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ سید تنویر احمد کہتے ہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نفرت انگیزی کوئی چند سال قبل شروع نہیں ہوئی ہے بلکہ تحریک آزادی کے دوران ہی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں تاہم، یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2014کے بعد اس میں شدت آئی ہے اور یہ ادارہ جاتی عمل میں تبدیل ہوگیا ہے۔اس لیے ہمیں اس کے ازالے کے لیے وقتی اور طویل مدتی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔دوسرے یہ کہ برادران وطن کو اس حقیقت کا ادارک بھی کرانے کی ضرورت ہے کہ نفرت انگیز مہم اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مشنری سے ملک کو کیا نقصانات ہورہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں مسلمانوں بالخصوص مسلم تنظیموں کی جانب سے حکومت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی قیادت میں ایک وفد وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کر چکا ہے۔اسی طرح جمعیۃ علمائے ہند کے دوسرے گروپ کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کی آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات ہو چکی ہے۔2023 میں مسلمانوں کے سابق بیوروکریٹ جس میں نجیب جنگ، ایس وائی قریشی اور جنرل ضمیرالدین شاہ شامل تھے، نے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کی ہے۔ظاہر ہے کہ ان ملاقاتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت ملاقات کے ذریعہ بڑی قیمت کا مطالبہ کررہی تھی۔ان کی منشا یہ تھی کہ یہ مسلم شخصیات کھلے عام ان کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کریں۔ظاہر ہے کہ ایک طرف نفرت انگیز بیانات، مسلم دشمنی بیانیہ کو مسلسل گرم رکھنے کی کوشش اور دوسری طرف مسلم شخصیات سے کھلے عام حمایت کی توقع احمقانہ عمل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں اپوزیشن جماعتیں انتہائی کمزور تھیں اور وہ بی جے پی کے طے شدہ ایجنڈے پر چلنے پر مجبور تھیں مگر اب صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔یاد رہے کہ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران مسلم تنظیموں کے وفد نے اٹل بہاری واجپئی سے ملاقات کرکے انہیں گجرات میں فوج بھیجنے پر راضی کیا تھا۔ اس لیے مایوسی کے بجائے اگر اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھ کر مثبت کوشش کی جائے تو ہمیں امید ہے کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔