منی (ایجنسیاں)
دنیا بھر سے 25لاکھ سے زائد حجاج کرام آج منی پہنچ کر اپنے حج کے اعمال کا آعاز کردیا ہے۔کل منگل کو میدان عرفات میں جمع ہوں گے جو حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔رات میدان مزدلفہ میں گزاریں گے اور بدھ کو پہلے بڑے شیطان کو پتھر ماریں گے۔اس کے بعد قربانی کریں گے اور حلق کرنے کے ساتھ ہی احرام اتار کر عام لباس میں ملبوس ہوجائیں گے۔اس کے بعد اگلے دودن منی میں ہی قیام کریں گے۔
اتوار کی رات سے ہی عازمین کی منٰی کی جانب روانگی شروع ہوگئی تھی ۔تاہم ہندوستانی عازمین حج کی یہاں بھی پریشانی کم نہیں ہوئی۔مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک عازم حج نے انصاف نیوز آن لائن کو بتایا کہ مغرب بعد ہی معلم کی جانب سے اعلان کردیا گیا تھا کہ بس آرہی ہے تیار ہوجائیں ۔مگر رات کے 3بجے کے بعد بس آئی ۔اس درمیان عازمین حج ہوٹل کے باہر بس کا انتظار کرتے رہے ۔
رواں سال کا حج کورونا وائرس کی وبا کے بعد تعداد کے اعتبار سے حالیہ برسوں میں سب سے بڑا حج قرار دیا جا رہا ہے، جو سخت گرمی کے دوران کیا جائے گا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسلام کے مقدس ترین مقام پر اس دوران 20 لاکھ سے زائد عبادت گزاروں کی میزبانی کی جائے گی جن کا تعلق 160 ممالک سے ہے۔
جمعے کی شام تک حج کے لیے سعودی عرب پہنچنے والے غیر ملکیوں کی تعداد 16 لاکھ ہو چکی ہے اور رواں سال کا حج تعداد کے لحاظ سے تاریخ ساز ہو سکتا ہے۔
اتوار کو جب طواف کعبہ کے ساتھ حج کا آغاز ہوا تو اس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’رواں سال ہم تاریخ کے سب سے بڑے حج کا مشاہدہ کریں گے۔ اس سال حاجیوں کی تعداد 25 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔‘
ایک 65 سالہ مصری عازم حج عبدالعظم نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت ترین دن جی رہا ہوں۔ میرا خواب پورا ہو گیا۔‘
عبدالعظم ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور انہوں نے 20 سال بچت کر کے حج کے لیے چھ ہزار ڈالر کی رقم اکٹھی کی ہے۔
حج کے اعمال پانچ دن پر محیط ہیں جو مکہ اور اس کے اطراف میں ادا کیے جاتے ہیں۔اتوار کی رات سے حجاج کی منیٰ کی جانب روانگی شروع ہوئی، جو مسجد الحرام سے پانچ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ جس کے بعد میدان عرفات میں خطبہ حج کے بعد حج کی عبادت کو مکمل کیا جائے گا۔
مسجدالحرام کے باہر ہزاروں کی تعداد میں بچھائے جانے والے خوبصورت قالینوں پر سادہ لباس میں ملبوس حجاج نے عبادت میں رات گزاری۔ اس دوران اس علاقے میں موبائل کلینکس، آگ بجھانے والی گاڑیاں اور ایمبولینسوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی۔
انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک عازم حج یوسف برہان کا کہنا تھا: ’میں اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اس سال حج کر سکوں گا۔‘
رواں سال گرمی کی شدت کے باعث عازمین کے لیے مشکلات کا اندیشہ ہے لیکن تپتی ہوئی دھوپ میں حج کے لیے پہنچنے والے اپنے ساتھ چھتریاں لائے ہیں، جو انہیں دھوپ کی حدت سے بچا سکیں۔
اس دوران عازمین کی خدمت کے لیے تعینات عملہ 45 ڈگری درجہ حرارت میں عازمین کو پانی سے ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔
سعودی حکام کے مطابق حجاج کو لو لگنے یا ہیٹ سٹروک کی صورت میں مدد کے لیے 32 ہزار افراد سے زیادہ پر مشتمل طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
رواں سال کا حج 2019 کے بعد سے سب سے بڑا حج ہو گا جس میں 25 لاکھ حجاج نے شرکت کی تھی۔
سال 2020 میں کرونا کے دوران صرف 10 ہزار افراد کو حج ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ 2021 میں یہ تعداد 59 ہزار اور 2022 میں آٹھ لاکھ 99 ہزار 353 تھی۔