اگرتلہ : انصاف نیوز آن لاین
تری پورہ میں اب حجاب کو لے کر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک حیران کن معاملہ سامنے آیا ہے جہاں کچھ ہندو تنظیم کے کارکنوں نے ایک طالبہ کو صرف اس لیے اسکول سے باہر نکال دیا کہ اس نے حجاب پہن رکھا تھا۔طالبہ کے ساتھ ہو رہی زیادتی کو دیکھ کر موجود ایک طالب علم اعتراض کیا تو ملزمین نے اسے مارنا شروع کردیا۔ اس واقعہ میں ملزمین نے طالبہ کی پٹائی بھی کی ہے۔ فی الحال پولیس نے کیس درج کرکے اپنی تحقیقات شروع کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں نے پولیس کو بتایا کہ متاثرہ لڑکی 10ویں جماعت کی طالبہ ہے، ملزم پہلے اسے گھسیٹ کر سکول سے باہر لے گیا اور پھر اس کی پٹائی کی۔ جس وقت ملزمان لڑکی اور اس کے ساتھ ایک اور لڑکے کو مار رہے تھے، اس دوران اسکول کے پرنسپل، ٹیچر حتیٰ کہ کوئی دوسرا عملہ بھی طالبہ اور اس کے ساتھ موجود لڑکے کو بچانے کے لیے آگے نہیں آیا۔ اس واقعہ کو لے کر مقامی لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس واقعہ پر مقامی لوگوں نے احتجاج کیا۔ ذرائع کے مطابق اس واردات کو انجام دینے والے باہر سے آئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ علاقے میں حالات اب قابو میں ہیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد سیپاہی ضلاع کے بشل گڑھ سب ڈویژن علاقے میں کشیدگی ضرور ہے۔
دریں اثنا اسکول کے مطابق، ایک ہفتہ قبل، ایک دائیں بازو کی تنظیم سے وابستہ سابق طالب علموں کا ایک گروپ اسکول آیا اور مسلم طالبات کو اسکول میں حجاب پہننے کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس نے پرنسپل سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنے اسکول میں روکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز کردہ اسکول ڈریس میں نہیں آتا، اس لیے اسکول میں حجاب پر پابندی لگائی جائے۔
وشو ہندو پریشد سے وابستہ سابق طلباء کے ایک گروپ نے اس اسکول کے پرنسپل سے ملاقات کی تھی۔ لیکن اس کے بعد اسکول انتظامیہ کی جانب سے حجاب پہننے یا نہ پہننے کے حوالے سے کوئی واضح ہدایات نہیں دی گئیں۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ پرنسپل نے زبانی طور پر حجاب نہ پہننے کی بات کہی تھی۔
اس پورے واقعہ کے بارے میں پولیس نے کہا ہے کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس میں جو بھی قصوروار ہوگا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔