ڈاکٹر محمد فاروق
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کا کردار ہمیشہ سے اردو زبان کے فروغ اور علمی سرپرستی میں کلیدی رہا ہے۔ اس ادارے نے ملک بھر میں اردو تعلیم‘ادبیات اور تحقیق کو پروان چڑھانے کیلئے متعدد اقدامات کئے‘مختلف اسکیمیں متعارف کرائیں اور اب تک دو ہزار سے زائد عناوین شائع کئے جن میں کلاسیکی ادب‘جدید تحقیق اور اہم تراجم شامل ہیں۔ حال ہی میں کونسل نے ایک اہم اور متنازع کتاب ’’ویر ساورکر اور تقسیم ہند کا المیہ‘‘ شائع کر کے ادبی حلقوں کے ساتھ سیاست کے ایوانوں میں بھی نئے مباحث کو جنم دیا ہے۔
وزیر اعظم میوزیم‘نئی دہلی میں اس کتاب کے اجرا کی تقریب میں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف اور پارلیمانی امور ارجن رام میگھوال نے ساورکر کو عظیم مجاہد آزادی قرار دیا اور کہا کہ ساورکر کی قربانیوں کی بدولت آج ہندستان آزاد فضا میں سانس لے رہا ہے۔ میگھوال نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ساورکر قومی اتحاد کے علمبردار اور تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے‘اگر ان کی تجویز پر عمل کیا جاتا تو برصغیر کا المناک بٹوارہ روکا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ساورکر کے افکار کو دانستہ طور پر پس پشت ڈالنے کی کوشش کئی دہائیوں تک ہوتی رہی‘اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے حقیقی نظریات اور تاریخ کو سامنے لایا جائے۔
سینٹرل انفارمیشن کمشنر رہ چکے کتاب کے مصنف اودے ماہورکر اور شریک مصنف چرایو پنڈت نے اپنے خیالات میں کہا کہ اس کتاب کا مقصد ساورکر کے بارے میں اب تک پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور ان کی شخصیت کو ایک غیر جانبدار‘سائنسی اور تحقیقی روشنی میں پیش کرنا ہے۔ ان کی رائے میں‘اگر ساورکر کے ہندوتوا نظریے کو ٹھیک سے سمجھا جائے تو وہ نہ صرف قومی ترقی‘بلکہ تمام مذاہب اور طبقات کے درمیان ہم آہنگی کے بڑے داعی تھے۔ کتاب کے مترجم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے بھی اس امر پر زور دیا کہ اس کتاب میں دلائل‘شواہد اور تاریخی حوالوں کے ذریعے ساورکر کی فکری میراث کو اجاگر کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ ان پر لگائے گئے بہت سے الزامات کس حد تک حقائق سے بعید ہیں۔
ڈاکٹر شمس اقبال‘ڈائریکٹر قومی اردو کونسل‘نے افتتاحی کلمات میں واضح کیا کہ اردو قارئین کیلئے مستند اور غیرجانبدار علمی ذخیرے کی دستیابی کونسل کی اولین ترجیح ہے۔ ان کے بقول ’’ویر ساورکر اور تقسیم ہند کا المیہ‘‘ اردو حلقہ میں تحقیقی اور نصابی کمی کو پر کرنے کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی اور اس کے اجرا سے اردو جاننے والا طبقہ ساورکر کے حوالے سے پھیلائے گئے خیالات و نظریات کا براہ راست اور اصل ماخذ سے مطالعہ کر سکے گا۔اس تقریب میں جامعات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ‘ریسرچ اسکالرز‘ادبا‘صحافی اور بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی‘جس سے اس موضوع کی اہمیت اور اردو سماج میں گہری دلچسپی کا اظہار ہوا۔
کتاب کے اجرا کے بعد ادبی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ آیا ساورکر کو واقعی تقسیم ہند روکنے والا ہیرو قرار دیا جا سکتا ہے یا یہ تعبیر تاریخ کو نئے سیاسی بیانیے کے مطابق ڈھالنے کی ایک منظم کوشش ہے۔ یہ سوال محض ایک فرد یا کتاب تک محدود نہیں، بلکہ اس پورے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں تاریخ کو نظریاتی ترجیحات کے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں اردو قارئین کیلئے یہ بات مزید اہم ہو گئی ہے کہ وہ ساورکر اور ہندوتوا کے نظریے کو محض بیانیاتی تعبیرات اورسیاسی رنگ میں رنگی گئی تشریحات کے بجائے اصل ماخذ‘پرائمری سورسز اور دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب اقتدار کے ایوانوں سے بلند ہونے والی صدائیں صرف سیاسی نہیں ہوتیں‘وہ اجتماعی حافظے کو مسخ کرنے کی منظم کوشش کا اعلان ہوتی ہیں۔ آج ہندوستان میں ’’ویر‘‘ ساورکر کا نام جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے‘وہ صرف ایک فرد کی تقدیس نہیں بلکہ تاریخ کے چہرے پر مصنوعی نور پھیلانے کی ایک مکارانہ تدبیر ہے۔ اور یہ تدبیر اسی طبقے کے ہاتھوں میں ہے جو کبھی آزادی کی تحریک کے دوران انگریزوں کے سایے میں سانس لیتا تھا۔ بی جے پی حکومت جس نے اپنی ہندوتوا فلسفے کو ریاستی نظریہ بنا لیا ہے‘اب ساورکر کو قومی جدوجہد آزادی کے عظیم رہنماؤں کے شانہ بہ شانہ کھڑا دکھا کر نہ صرف اپنے نظریاتی ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے بلکہ اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ایک متنازع پوسٹر میں ساورکر کو گاندھی‘بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کے اوپر مرکزی مقام دینااوروزیراعظم نریندر مودی کالال قلعہ کی فصیل سے ساورکر اور سنگھ کی توصیف اسی سیاسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ مگر سوال باقی ہے کہ کیا ایک ایسا شخص‘جس نے سیلولر جیل سے برطانوی حکومت کو رحم کی درخواستیں لکھیں‘واقعی آزادی کے عظیم رہنما کہلانے کا مستحق ہے؟
ساورکر کے مرکزی کردار پر یہ اشتعال انگیزی کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نےہندوتوا کا فلسفہ لکھا‘جس کے اثرات آج کی سیاست میں نمایاں طریقے سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ 4 جولائی 1911 کو انڈمان کی سیلولر جیل میں قید ہونے کے محض چھ ماہ بعد ساورکر نے ’’اثباتی کارروائی‘‘ کے تحت اپنی پہلی درخواست معافی برطانوی حکومت کو دی۔ اس کے دو سال بعد‘14 نومبر 1913 کو انہوں نے ایک اور رحم نامہ لکھا‘جس میں وعدہ کیاکہ وہ حکومت کی کسی بھی حیثیت میں خدمت کرنے کیلئے تیار ہیں۔یہ اس وقت کی بات ہے جب گاندھی ابھی جنوبی افریقہ میں تھے اور ہندوستان واپس بھی نہیں آئے تھے‘اس لئے راج ناتھ سنگھ یا موجودہ سنگھ پریوار کی یہ دلیل کہ ساورکر نے گاندھی کے کہنے پر معافی مانگی‘کھلی تاریخ کشی ہے۔ سرکاری ریکارڈ اور مورخین کے مطابق‘ساورکر نے خدمت گزاری اور وفاداری کا اقرار کر کے رہائی حاصل کی۔ یہ حقیقت بی جے پی اور نہ سنگھ پریوار آج تک جھٹلا سکتے ہیں۔
ساورکر کے ہندوتوا نظریے نے دراصل وہ فکری بنیاد فراہم کی جس سے ’’ٹو نیشن تھیوری‘‘ (دو قومی نظریہ)نے جنم لیا۔ یہ نظریہ‘جس کے مطابق مسلمان اور عیسائی چونکہ اپنی ’’پونیہ بھومی‘‘ (مقدس سرزمین) ہند کے بجائے مکہ و مدینہ مانتے ہیں‘اس لئے ہندوستان میں سیاسی طور پر ’’دوسرے‘‘ ہیں یہی سوچ بعد میں تقسیم کے نظریاتی جواز کے طور پر ابھری۔
قومی اردو کونسل کی جانب سے ’’ویر ساورکر اور تقسیم ہند کا المیہ‘‘ نامی کتاب کے اجرا کے موقع پر بھی اسی تضاد نے سر اٹھایا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ تقسیم ہند کو روکنے کیلئے سب سے موثر کردار ساورکر کا تھا‘جبکہ اصل تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ’’ٹو نیشن تھیوری‘‘ یعنی دو قومی نظریہ کا تصور سب سے پہلے ساورکر ہی نے پیش کیا تھا‘جب کہ جناح اور اقبال کے بیانات کئی سال بعد آئے۔ ساورکر کے فلسفہ ہندوتوا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کیلئے سرزمین ہند میں کوئی خاطر خواہ گنجائش نہیں تھی بلکہ ساورکر نے واضح طور پر کہا کہ مسلمان چونکہ اپنی ’’پونیہ بھومی‘‘ یعنی مقدس زمین مکہ اور مدینہ کو مانتے ہیں‘اس لئے ان کیلئے یہاں کوئی سیاسی حق نہیں بنتا۔
تاریخی حقائق سیاسی ایجنڈے کے تابع نہیں ہوتے۔ ماضی کو بدلنے کی کوششیں وقتی فائدے تو دے سکتی ہیں‘مگر قوموں کے شعور میں زہر آلودگی پیدا کر دیتی ہیں۔ آج کی بی جے پی حکومت ساورکر جیسے کردار کو قومی بیانیے کا حصہ بنا کر اصل جدوجہد‘قربانی اور مزاحمت کے معنی ہی الٹ رہی ہے۔ مورخین‘صحافی اور دانشور اس ذمےداری سے کسی بھی طور غافل نہیں رہ سکتے کہ وہ اس بدنیتی کو بے نقاب کریں۔