نئی دہلی ،12اگست :۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں سیاسی بحران کے بعد پیدا ہوئی افرا تفری کی صورتحال کا فائدہ ملک کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے لئے اٹھایا جا رہا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی دائیں بازو کے نظریات کی حامل تنظیمیں ہمہ وقت مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں اور یہ موقع ان کے ہاتھ لگ گیا ہے اور اس کا بھر پور استعمال کر رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر چلنے والی فرضی اور غیر مصدقہ خبروں کو بنیاد بنا کر ملک کے ہندو اکثریت کو مسلمانوں پر حملہ کے لئے اکسایا جا رہا ہے اور اس کا اثر بھی ملک بھر میں نظر آنے لگا ہے۔گزشتہ دنوں دہلی اور اتر پردیش کے غازی آباد کے بعد اب ملک بھر سے ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں جس میں غریب ، مزدور اور جھگی جھوپڑی بنا کر رہنے والوں کو بنگلہ دیشی بتا کر مارا پیٹا جا رہا ہے۔اس طرح وہ بنگلہ دیش میں ہو رہے ہندوؤں پرمبینہ حملوں کا بدلہ لینے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق آسام اور اڈیشہ سے متعلق ایسی متعدد ویڈیوز سامنے آئی ہیں جہاں ہندو شدت پسند پھیری کرنے والوں اور مزدوری کرنے والے مزدوروں کو مار پیٹ رہ ہیں اور انہیں بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں ۔ خاص طور پر اڈیشہ اور آسام میں بنگالی بولنے والے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، انہیں ’بنگلہ دیش کے درانداز‘ بتا کر حملہ کیا گیا۔
بی جے پی کے یوتھ ونگ، بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے کئی ارکان نے گزشتہ دنوں ہفتہ کو اڈیشہ کے سمبل پور ضلع میں ایک تعمیراتی مقام پر 34 لوگوں کو بنگلہ دیشی شہری ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر پکڑ لیا۔حراست میں لیے گئے افراد کے ساتھ مار پیٹ ک گئی اور انہیں مقامی پولیس کے حوالے کر دیا گیا لیکن بعد میں حکام کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے بعد رہا کر دیا گیا کہ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں تھا۔انتھا پلی پولیس نے تصدیق کی کہ سمبل پور میں حراست میں لیے گئے 34 افراد اصل میں مغربی بنگال کے مرشد آباد علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ کئی مہینوں سے بدھراجہ میں تعمیراتی سائٹ پر کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح آسام میں ایک پھیری کرنے والے غریب مسلمانوں کو پکڑ کرمارا پیٹا گیا اور اس سے آدھار کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا گیا۔وہ کہتا رہا کہ یہیں کا لوکل ہے لیکن شدت پسند گروپ کے لوگ اس کی آئی ڈی مانگتے رہے اور پٹائی کرتے رہے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم چار ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہیں، جن میں مبینہ طور پر اڈیشہ میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں پر حملوں کو دکھایا گیا ہے۔یہ واقعات جاج پور، کیندرا پاڑا، جگت سنگھ پور اور سمبل پور کے اضلاع سے رپورٹ ہوئے، جہاں مقامی باشندوں نے بنگالی بولنے والے مسلم مزدوروں سے ان کی ہندوستانی شہریت کے ثبوت کا مطالبہ کیا۔مزدوروں نے ویڈیو بیان جاری کر کے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے نہیں بلکہ بنگال کے مرشد آباد کے رہنے والے ہیں ۔ ہم اڈیشہ میں کام کرتے ہیں، ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر مارا پیٹا جا رہا ہے، اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ بنگال جا کر ممتا سے کام مانگیں، ہم میں سے ایک ساتھی کومار مار کر ہاتھ توڑ دیا
دریں اثنا مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اتوار کے روز مداخلت کرتے ہوئے اپنے پارٹی ممبر موہن چرن ماجھی کو فون کر کے اپنی ریاست کے مزدوروں پر مبینہ حملوں کی تحقیقات کی درخواست کی۔بنگال مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈ نے ایسے حملوں کا سامنا کرنے والوں کے لیے ایک ہیلپ لائن (18001030009) شروع کی ہے۔ راجیہ سبھا ایم پی سمیر الاسلام، جو بورڈ کے سربراہ ہیں، نے متاثرہ افراد سے ہیلپ لائن کے ذریعے مدد لینے کی اپیل کی۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے موہن چرن ماجھی کو فون کیا اور ان سے وہاں ریاست کے مزدوروں پر حملے کے مبینہ واقعات پر غور کرنے کی درخواست کی ۔