جاوید نقوی
باوقار انداز میں شکست تسلیم کرنے کی صفت ایسی کمزور جمہوری حکومتوں میں نہیں پائی جاتی جن کا جھکاؤ آمرانہ رجحانات کی جانب ہوتا ہے۔ اس کی موزوں ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی ہیں۔
البتہ نریندر مودی کو ایک اور اضافی مسئلہ درپیش ہے اور وہ اس صورت میں ہے کہ ان کا مقابلہ لگا تار تین مدتِ اقتدار کے لیے منتخب ہونے والے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو کے ساتھ ہے۔ اس مقابلے بازی سے اس صورت حال کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ جب ایک ناتجربہ کار نوجوان شاعر کو ایک محفل میں تجربہ کار نامور شاعر کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
فراق گورکھپوری ایک مشاعرے میں اپنی باری کے انتظار میں تھے کہ انہیں محسوس ہوا کہ ایک نوجوان شاعر مبینہ طور پر ان کی شاعری کی نقل کرکے برے اشعار بنا کر سنا رہا تھا۔ نوجوان شاعر نے نقل کے الزام کی تردید کی البتہ وہ نامور شاعر کے ساتھ ایسے واقعے میں ملوث ہونے پر مسرور ہے۔ اس پر فراق گورکھپوری نے طنزیہ ردعمل دیا، ’کسی نے سائیکل کے بیل گاڑی سے ٹکرا جانے کے حوالے سے تو سنا ہوگا لیکن کیا سائیکل جہاز سے ٹکرا گئی؟‘
تاہم بھارتی صدر دروپدی مرمو کو بھی نریندر مودی کی ہٹ دھرمی میں ان کا ساتھ دینا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’دنیا دیکھ سکتی ہے کہ بھارت کے شہریوں نے تیسری بار مستحکم اور پورا مینڈیٹ دے کر حکومت بنائی ہے۔ یہ 6 دہائیوں بعد ہوا ہے۔ لوگوں نے میری حکومت پر تیسری بار اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے‘۔ دروپدی مرمو واضح طور پر تقریر کے لیے تیار کیا جانے والا ایسا مواد پڑھ رہی تھیں جوکہ مودی کے دفتر سے نئی پارلیمنٹ کو بھیجا جانا تھا جس کی حکومتی بینچز کی جانب سے خوب تالیاں بجا کر پذیرائی کی گئی۔
مضبوط مینڈیٹ؟ مستحکم حکومت؟ اگر ایسا تھا تو معاشی منڈیاں جنہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ملک کی معاشی استحکام کے اشاریے بتاتی ہے، وہ 4 جون کو نتائج آنے کے بعد کریش کیوں کرگئیں؟ اس سے بھی تشویش ناک یہ تھا کہ ایسا اس وقت ہوا کہ جب نریندر مودی اور ان کے وزیرِ داخلہ نے ٹی وی انٹرویوز میں سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ ان کی جیت پر سرمایہ لگائیں۔ منڈی میں اس وقت تیزی آئی کہ جب دو علاقائی جماعتوں کی جانب سے مدد آئی جن کا بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے زیادہ سروکار نہیں۔
یہ وہ بات ہے جس کے بی جے پی کے علاوہ سب معترف ہیں۔ پارلیمنٹ کی 63 نشستیں کھونے کے بعد 240 نشستوں کے ساتھ بی جے پی اکثریت کھو چکی ہے۔ 1989ء میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ راجیو گاندھی کو 1984ء کے انتخابات کی طرح 400 سے زائد نشستوں کی اکثریت نہ مل سکی تو انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
راجیو گاندھی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی انفرادی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت بنا سکتے تھے لیکن وہ جمہوریت پسند تھے تو انہوں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔
تیسری مستحکم مدتِ اقتدار؟ اگر ایسا تھا تو مودی حمایت کی غرض سے بہار اور آندھرا پردیش کے دو رہنماؤں کے پاس کیوں پہنچ گئے وہ بھی ایسے لیڈر جن میں سے ایک حال ہی میں اپوزیشن اتحاد کا کنوینر بننے کی کوششوں میں تھا جبکہ دوسرے کو سیاست میں عروج ہی نوجوان کانگریس رہنما کی حیثیت سے حاصل ہوا۔
نریندر مودی نے ان سے حمایت کی درخواست کی جسے دونوں رہنماؤں نے اپنی ریاست کے لیے چند مالیاتی مطالبات کے پورے ہونے سے مشروط کیا۔ ان مطالبات کو پورا کرکے موجودہ اور مستقبل کے ٹیکس دہندگان پر بوجھ پڑے گا۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جو اتحاد اس طرح کی صورتحال پیدا کرے وہ کتنے دنوں تک چل سکتا ہے؟
کرسی اپنے پاس ہی رکھنے کی عجلت میں مودی نے ایک انتہائی اہم اور معتبر جمہوری کنوینشن پامال کیا۔ انہوں نے اپنی جماعت کے منتخب اراکین پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر ان سے منظوری نہیں لی جوکہ ضروری جمہوری عمل ہے۔ صدراتی نظام کے برعکس وزیراعظم کو صدر کی جانب سے منظوری حاصل کرنے سے قبل اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے منتخب ہونا ضروری ہوتا ہے۔
وسیع پیمانے پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو اپنی جماعت بی جے پی کے اراکین کے اجلاس پر ترجیح دے کر نریندر مودی اپنی جماعت میں کھڑے ہونے والے ممکنہ تنازعات کو ٹالنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ انتخابات میں اکثریت کھو دینے کی الزام تراشی کو بھی موخر کررہے ہیں جس کا پنڈورا باکس کسی بھی وقت کھلنے کو تیار ہے۔
بی جے پی کے علاوہ سب انتخابی نتائج کو نریندر مودی کی فرقہ وارانہ سیاست اور انتخابات کے دوران مسلم مخالف بیان بازی کو مسترد کرنے کے معنوں میں لے رہے ہیں۔ راجستھان کے حلقے بانسواڑہ سے وزیراعظم مودی کی جانب سے خود منتخب کیے جانے والے امیدوار کی شکست سے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ جہاں مودی نے ہندوؤں کو مسلمانوں پر اعتماد نہ کرنے کی تلقین کی تھی اور دعویٰ کیا کہ وہ تمہاری عورتوں کے منگل سوتر اور بھینسیں چوری کرلیں گے۔ انہوں نے وہاں یہ زہر اگلا تھا کہ مسلمان درانداز ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مودی کی جانب سے چنے جانے والے الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ عدالت نے محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے بنائے گئے انتخابی پوڈیم کو استعمال کرنے پر وزیراعظم اندرا گاندھی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
اس سب کے باوجود حالیہ انتخابات نے مساوات کی ایک اچھی صورتحال پیدا کی۔ ایودھیا سے بی جے پی کے امیدوار کو اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے دلت رہنما نے شکست دی جس نے وہاں بھگوان رام کے مندر کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے افتتاح کے پیچھے مودی کی تقسیم کی مہم کا مذاق اڑایا۔ اسی طرح ہندو مذہب کے لیے معتبر ایک اور خطے چتراکوٹ سے مودی کے امیدوار کو شکست ہوئی۔ رامائن ہمیں بتاتی ہے کہ سیتا اور لکشمن نے جلاوطنی کے اپنے سال چتراکوٹ (موجودہ اتراپردیش اور مدھیا پردیش) کے جنگلات میں گزارے۔
حقائق معتبر ہوتے ہیں جبکہ نقطہ نظر آزاد ہوتا ہے۔ اور حقائق یہ ہیں کہ موجودہ وزیراعظم کی اخلاقیات کے برعکس، 1958ء میں جواہرلال نہرو نے عوامی سطح پر اپنی پارٹی سے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم کے امیدوار کی حیثیت سے انہیں دستبرادر کردیں۔ انہوں نے یہ مقام اور وزیراعظم کی کرسی 9 سال جیل میں گزار کر اور بھارت کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرکے حاصل کیا تھا۔ گاندھی کے لیفٹیننٹ کے طور پر کام کرکے نہرو نے خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے تیار کیا تھا۔
29 اپریل 1958ء کو کانگریس پارٹی کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ جواہرلال نہرو نے 4 دہائیوں تک ملک کی رہنمائی کرنے کے بعد وزیراعظم کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے لیے اپنی جماعت کی اجازت طلب کی۔
نہرو کی سوانح عمری لکھنے والے ایم جے اکبر نے حوالہ دیا کہ نہرو نے اپنے ساتھی اراکین پارلیمان کو بتایا کہ ملک کی خدمت کرنا ان کے لیے اعزاز تھا۔ لیکن اب وہ ’روزانہ کے اس بوجھ‘ سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں اور ’سکون سے سوچ بچار‘ اور ’خود کو وزیراعظم نہیں بلکہ بھارت کے عام شہری کے طور پر‘ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔
اس پر ایک کانگریس رکنِ پارلیمنٹ نے مؤقف اپنایا، ’جواہرلال نہرو نے دنیا کو ہائیڈروجن بم سے بچانے کے لیے وقت مانگا لیکن وہ فیصلہ کرتے ہوئے کانگریس پر ہائیڈروجن بم گراتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائے‘۔
جب نہرو کی جماعت نے ان کے ریٹائر ہونے کی درخواست مسترد کردی تو ایم جے اکبر نے 2011ء میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یاد کیا، ’واشنگٹن میں ڈوائٹ آئزن ہاور اور ماسکو میں نکیتا خروشیف دونوں کی طرف سے خطوط آئے جن میں مبارکباد دی گئی اور راحت کا اظہار کیا گیا‘۔
نریندر مودی شاید اپنے پیش رو کی راہ پر چلتے ہوئے عالمی رہنماؤں کی ان سے عقیدت اور محبت کا امتحان لینا چاہیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ استعفٰی دینے کی پیشکش کرسکتے ہیں اور اگلے فیصلے اپنی پارٹی پر چھوڑ دیں۔