نوراللہ جاوید
ہریانہ کے ضلع نوح اور گروگرام کے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی ہولناک تصویریں منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ ایک طرف جہاں ضلع نوح میں یک طرفہ گرفتاریاں اور انہدامی کارروائی انجام دی جا رہی ہے، وہیں تشدد کے لیے حسب سابق مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھیرایا جا رہا ہے۔ یہ واقعات کیوں ہوئے اور اس کے پیچھے عوامل کیا ہیں؟ یہ سولات کوئی پیچیدہ نہیں ہیں۔ ملک کی سیاست کے رموز سے واقف کوئی بھی شخص ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے سیاسی قوت اور سیاسی مقاصد ہی کار فرما ہوتے ہیں اور پولرائزیشن کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ چوکس، انصاف پسند ہو تو فرقہ وارانہ فسادات کے رونما ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ جب فسادات حکمراں جماعت کے لیے موقع ثابت ہوں اور پولرائزیشن کامیابی کی کنجی ہو تو اس پر کون قابو پائے گا؟ آج کل یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اچانک ملک میں فرقہ وارانہ واقعات کیوں رونما ہونے لگے ہیں؟ اس کا بھی سیدھا جواب یہ ہے کہ چونکہ اگلے چند مہینوں میں لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں اور حکمراں جماعت کا نامہ اعمال سیاہ ہی سیاہ ہے۔ عام غریب ،مزدور، کسان اور متوسط طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔’’مودی کا جادو‘‘ بھی ماند پڑ رہا ہے۔ منی پور میں جاری فرقہ وارانہ فسادات کے تسلسل نے مودی اور شاہ کی جوڑی کے رعب و دبدبہ کی پول کھول دی ہے۔ ان سب کے باوجود اسے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے فرقہ وارانہ فسادات سب سے آسان اور کامیاب فارمولا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان واقعات سے متاثرین کی بازآباد کاری کیسے اور کب ہوگی؟ فرقہ وارنہ فسادت کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں اور اس کے ذریعہ دیے گئے زخم ناسور بن جاتے ہیں۔ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے اتنے گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں کہ اس سے ابھرنے میں برسوں سال لگ جاتے ہیں۔ میڈیا متاثرین کی بحث کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہدامی کارروائی پر خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے۔ نوح میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے مگر گروگرام کے نواحی علاقے میں ہجوم نے جو تانڈو مچایا اس کا کیا جواز تھا؟ گروگرام کے دیہی علاقہ بادشاہ پور میں امن کا ماحول تھا مگر اچانک ہجوم نے حملہ کر دیا اور سیکڑوں مسلم باشندوں کو گھر باڑ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ کیا نوح کی طرح گروگرام میں ہنگامہ آرائیاں اور مسجد کے امام کا قتل کرنے والوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جائیں گے؟
عجیب اتفاق ہے کہ ملک میں کہیں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا کوئی بڑا حادثہ یا کورونا وبا جیسی مہلک وبا ہو، اس سے متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد میں بنگال کے غیر مقیم مزدور ہوتے ہیں۔ نوح اور گروگرام کے آس پاس دیہی علاقے میں ہونے والے تشدد کے واقعات کے بعد بڑی تعداد میں بنگالی مزدور اپنے ٹھکانے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ انگریز ی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گروگرام اور ہریانہ تعمیراتی کام اور دیگر غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے بنگالی مزدوروں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ اخبار کے مطابق شمالی دیناج پور، مالدہ، مرشدآباد، ندیا اور بیربھوم کے رہنے والے سیکڑوں لوگ گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔ واپسی کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یہ لوگ برسوں سے گروگرام کے آس پاس گاووں میں آباد تھے۔ گروگرام کی تعمیر و ترقی اور اسے تجارتی شہر بنانے میں ان مزدوروں کی روز وشب کی محنت اور ان کا خون پسینہ شامل ہے۔ مگر تشدد کے ایک واقعہ نے ان کی پوری محنت کو فراموش کر دیا ہے۔ مکانات کے مالکین ان سے گھر خالی کروا رہے ہیں اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس پہلے اڈیشہ ریلوے حادثے میں بھی مرنے والوں میں بڑی تعداد بنگالی مزدوروں کی تھی۔ ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں بیرون ریاست میں کام کرنے والے بنگالی مزدوروں کے اعداد وشمار کے حوالے سے گفتگو کی گئی تھی۔ تقریبا چالیس لاکھ بنگالی مزدور ملک کے مختلف حصوں میں غیر منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ حادثات میں مرنے والوں کے لواحقین کو مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں معاوضہ دیتی ہیں مگر فساد متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس حقیقت کا علم ممتا بنرجی کی حکومت کو بھی ہے مگر اس کے باوجود حکومتی سطح پر ان مزدوروں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انفرادی سطح پر ترنمول کانگریس کے چند لیڈروں نے ان مزدوروں کی واپسی میں مدد کی ہے۔
اس درمیان مغربی بنگال کی حکومت نے ’’مغربی بنگال مائیگرنٹ ورکرز ویلفیئر بورڈ‘‘ کی تشکیل دی ہے۔ چند مہینے قبل ہی اس بورڈ کی تشکیل کا اعلان کیا گیا تھا مگر تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ مغربی بنگال کی حکومت نے ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے لیے نو منتخب پروفیسر سمیرالاسلام کو بورڈ کا چیرمین مقرر کیا ہے۔ دس رکنی بورڈ میں لیبر کمشنر اور ممبران اسمبلی تاپس رائے اور مشرف حسین سمیت لیبر ڈیپارٹمنٹ کے دیگر اہلکار شامل ہیں۔ ریاستی حکومت کے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ غیر مقیم بنگالی مزدوروں کو درپیش چیلنجز منفرد اور نازک نوعیت کے ہیں اور حالیہ وبائی امراض کے دوران یہ ہمارے سامنے کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ یہ بورڈ ان حالات میں کس طریقے سے متاثرین کے لیے کام کرے گا؟ کیا اس بورڈ کے پاس قانونی اختیارات ہیں؟ ’’مغربی بنگال مائیگرنٹ ورکرز ویلفیئر بورڈ‘‘ کے چیرمین پروفیسر سمیرالاسلام ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت میں کہتے ہیں کہ بنگالی مزدوروں کے مسائل کوئی سال دو سال میں نہیں پیدا ہوئے بلکہ اس کی تاریخی وجوہات ہیں۔ آزادی سے قبل بھی ہزاروں کی تعداد میں بنگالی مزدور ملک کے دیگر حصوں میں کام کرتے تھے جو آج لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔ چونکہ بنگالی مزدوروں کو مذہبی اور لسانی دونوں طرح کے تعصب کا سامنا ہے، انہیں بنگلہ دیشی قرار دیے کر مشکوک بنانے کا عمل بھی آسان ہے اس لیے یہ خبروں میں آتے ہیں۔
سمیر الاسلام کولکاتا کے دیش بندھو انڈریو کالج میں کیمسٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق بنگال کے ضلع بیربھوم سے ہے۔ وہ بنگال کی سیاست میں نووارد ہیں مگر سماجی و فلاحی کاموں سے گزشتہ کئی سالوں سے وابستہ ہیں۔ این آر سی مخالف مہم کے ذریعہ سماجی و فلاحی خدمات میں قدم رکھنے والے سمیرالاسلام نے کورونا وبا کے دوران غیر مقیم مزدوروں کی فلاح وبہبود اور ان کی باز آبادکاری کے لیے ایک آرگنائزیشن تشکیل دی تھی۔ جولائی 2023ء میں ترنمول کانگریس کے ذریعہ راجیہ سبھا کے لیے ٹکٹ کی پیش کش کیے جانے سے قبل تک ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جولائی میں وہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ اب ممتا بنرجی نے بنگال کے باہر کام کرنے والے ورکروں کی فلاح وبہبود کی ذمہ داری انہیں سونپی ہے۔
پروفیسر سمیرالاسلام نے کہا کہ ابھی اس بورڈ کے دائرہ کار اور کام کاج کا طریقہ کار طے ہونا باقی ہے۔ چار دن قبل ہی مجھے اس کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے ان مزدوروں کی فلاح وبہبود کے کاموں سے وابستہ ہوں، اس لیے مجھے ان کی پریشانیوں کا علم ہے۔ انہیں صرف لسانیات کی بنیاد پر مشکوک شہری قرار دے کر بنگلہ دیشی اور روہنگیا کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات شناختی اور آدھار کارڈ ہونے کے باوجود غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دے کر حراست میں لے لیا جاتا ہے، اس لیے بنگال کے باہر کام کرنے والوں کو سیکیورٹی اور مصیبت کے وقت جلد سے جلد ان تک مدد پہنچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پہلے مرحلے میں دوسری ریاستوں میں کام کے لیے جانے والے افراد کے رجسٹریشن کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ انہیں شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے، قانونی مدد کے لیے سیل قائم کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں خود بنگال میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔بنگال میں کئی ایسے سیکٹرز ہیں جہاں وہ کام کرسکتے ہیں۔ بورڈ ٹریننگ کے انتظامات بھی کرے گا۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بنگال سے جانے والے ورکروں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے، انہیں اپنی ریاست میں ہی روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ پروفیسر سمیرالاسلام کہتے ہیں کہ مالدہ، مرشدآباد، بیر بھوم اور ندیا اضلاع کے راج مستری پورے ملک میں مشہور ہیں۔ وہ ہنر مند ہیں اس لیے تعمیراتی کاموں میں ملک بھر میں ان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسری ریاستوں میں بہتر روزگار اور مواقع کے لیے جانے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سوال سوشل سیکیورٹی کا ہے۔ یہ لوگ جن ریاستوں میں کام کرتے ہیں وہاں سیکیورٹی فراہم کرنا ان ریاستوں کی پہلی ذمہ داری ہے، ہم انہیں لاوارث نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔بنگال واحد ریاست ہے جس نے اپنے مزدوروں کے ویلفیئر کے لیے باضابطہ بورڈ کی تشکیل دی ہے۔ بورڈ کو فعال بنانا اور عوامی امنگوں کے مطابق کام کاج کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ نوح اور گروگرام کے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بنگال واپس ہونے والے بنگالی مزدوروں کے متعلق سمیرالاسلام کہتے ہیں کہ ہم بنگالی ورکروں سے رابطے میں ہیں اور انہیں بنگال واپسی میں مدد کر رہے ہیں۔
سمیرالاسلام کے دعوے اور ارادے اپنی جگہ ہے مگر چند بنیادی حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی بات یہ کہ ریاست میں ممتا حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان کشمکش کی وجہ سے منریگا کے تحت کام کام بند ہے، اگرچہ ممتا بنرجی نے ریاستی حکومت کے فنڈ سے اس اسکیم کی شروعات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ بنگال میں مزدوری کی شرح بہت ہی کم ہے جبکہ دوسری ریاستوں بالخصوص جنوب ہند کی ریاستوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فسادات کے باوجود بنگالی مزدور گھروں کو واپس لوٹنے کے بجائے گڑگاوں جیسے بڑے تجارتی شہر میں گزشتہ پانچ دنوں سے اس امید کے ساتھ مقیم ہیں کہ حالات معمول پر آجائیں گے۔ انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے ہاوسنگ کمپلکس میں گارڈ کا کام کرنے والا ایک بنگالی کہتا ہے کہ اسے یہاں بیس ہزار روپے تنخواہ اور چند ہزار روپے بطور اکرام مل جاتے ہیں۔ یہ رقم ہم بنگال میں نہیں کما سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممتا بنرجی کم سے کم مزدوری کی شرح طے کرنے کے لیے قانون سازی کریں گی۔ اس کے علاوہ کیا چائے کے باغات، جوٹ ملس، کل کارخانے جو بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرتے تھے ان کے احیا کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر بہتر آمدنی کے لیے بنگال سے مزدوروں کی ہجرت کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ غریب و مفلوک الحال اسی طرح اجڑتے رہیں گے البتہ ان کے نام پر سیاست کرنے والے آباد ہوتے رہیں گے۔