انصاف نیوز آن لائن :
کلکتہ ہائی کورٹ نے مئی میں 2010کے بعد جاری تمام اوبی سی سرٹیفکٹ کو منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا تھا ۔بنگال حکومت اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کررکھی ہے۔اس معاملے میں اگلے سماعت اگلے ہفتے ہونے کی توقع ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد او بی سی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء کو مختلف کورسز میں داخلے یا پھر نوکریوں کے لیے درخواست دینے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔
22 مئی کو کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس تپوبرتا چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا کی قیادت والی ڈویژن بنچ نے اپنے فیصلے میںریاست کی طرف سے 2011 سے 2024 تک جاری کردہ تمام او بی سی سرٹیفکیٹس کو منسوخ کر دیاتھا ۔ تاہم ہائی کورٹ نے کہا کہ 2010 سے پہلے رجسٹرڈ او بی سی کی فہرست برقرار ہے گی۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے بتایا کہ وہ تمام لوگ جنہیں او بی سی ریزرویشن لسٹ میں نوکری ملی ہے یا وہ بھرتی کے عمل میں ہیں، انہیں پرانی ریزرویشن لسٹ کے مطابق ملازمتیں یا پھر داخلہ میں ریزرویشن کا فائدہ ملے گا۔
OBC A میں درج زیادہ تر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے اور OBC B میں درج زیادہ تر کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ مجموعی طور پر، دونوں برادریوں کے پسماندہ طبقے کے طلباء خاص طور پر ملازمت یا پھر مختلف کورسز میں داخلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ریاست کے کچھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء حلف نامہ جمع کرا کر داخلہ حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم میڈیکل کورسز میں داخلےمیں سب سے زیادہ اوبی سی طلبا متاثر ہورہے ہیں ۔
ریاست کے سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں میرٹ کی بنیاد پر ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، آیوش وغیرہ کورسز کے لیے آل انڈیا میڈیکل انٹرنس ٹیسٹ نیٹ داخلہ کا عمل جاری ہے۔ مغربی بنگال میڈیکل کونسلنگ کمیٹی پہلے ہی مشاورت کے پہلے دور میں کامیاب امیدواروں عارضی فہرست جاری کر چکی ہے۔ کونسلنگ کے پہلے دور کے لیے درخواست دینے کی آخری تاریخ 23 اگست تھی۔ رجسٹریشن کی صورت میں، دیگر معلومات جمع کرانے کے ساتھ، مرکزی او بی سی اندراج کرنے والوں کا نان کریمی لیئر سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی تھا۔ جیسا کہ داخلہ کے عمل کے قواعد میں ذکر کیا گیا ہے، ریزرویشن کا فائدہ حاصل کرنے والوں طلباء کو 1 اپریل 2024 کو یا اس کے بعد اپنا نان کریمی لیئرسرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا۔ اگر وہ جمع کرانے میں ناکام رہے تو انہیں جنرل کیٹیگری میں منتقل کر دیا جائے گا۔
یو جی نیٹ (UG)امتحان کے نتائج آنے کے بعدNET پاس کرنے والے بہت سے طلباء نان کریمی لیئر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے متعلقہ سب ڈویژنل آفیسر کے دفتر گئے۔لیکن انہیں کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے کر سرٹیفکٹ دینے سے منع کردیا گیا ہے۔ متعلقہ SDO دفاتر سے او بی سی سرٹیفکیٹ کے درخواست دہندگان کو واپس کیا جارہا ہے۔جب کہ کلکتہ ہائی کورٹ نے خود 2010تک جن برادری کی اوبی سی کے تحت شناخت کی گئ تھی کو باقی رکھا ہے۔اس کے باوجود ان برادریوں کے طلبا کو نان کریمی لیئر کا سرٹیفکٹ نہیں دیا جارہا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے کہا تھا کہ جن لوگوں ملازمت کیلئے فارم بھرمدئیے ہیں یا پھر داخلے کیلئے درخواست دیدی ہے ان کے سرٹیفکٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔اس فیصلے کے تحت میڈیکل جوائنٹ انٹرننس کیلئےطلبا نے مئی سےقبل فارم پر کیا تھا انہیں ریزرویشن کا فائدہ ملنا چاہیے تھا۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ 2011 سے قبل رجسٹرڈ او بی سی کے سرٹیفکیٹ اہل ہیں۔ اس کے باوجودایس ڈی او کسی بھی اوبی سی برادری سے تعلق رکھنے والے کو نان کریمی لیئر سرٹیفکٹ نہیں دے رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں سرٹیفکٹ جاری کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔
اب اقلیتی طلبا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں ۔تاہم سپریم کورٹ میں بھی اس فیصلے پر تاخیر ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ میڈیکل کورسز میں داخلے کے لیے او بی سی ریزرویشن کا فائدہ حاصل کرنے والوں کے لیے نہ صرف ریاستی او بی سی کی فہرست میں درج ہونا ضروری ہے بلکہ مرکزی او بی سی کے فہرست درج ہونا بھی ضروری ہے۔ مرکزی او بی سی فہرست کا تجزیہ کے دوران معلوم ہوتھا ہےکہ 2010سے قبل ریاست کی تمام رجسٹرڈ اوبی سی برادری مرکزی حکومت کے اوبی سی فہرست کا حصہ ہیں اس کے باوجود نان کریمی لئیر سرٹیفکٹ نہیں مل رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق 2010 یا اس سے قبل اندراج شدہ او بی سی کے این سی ایل(نان کریمئی لیئر) سرٹیفکیٹ مالدہ یا بشیرہاٹ کے دفاتر سے ملتے ہیں، لیکن مرشد آباد یا بروئی پور کے جنگی پور کے دفاتر سے سرٹیفکیٹ نہیں مل رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ریاست کے سب سے پسماندہ ضلع مرشد آباد میں پسماندہ او بی سی کمیونٹی کے بہت سے ہونہار طلباء این سی ایل سرٹیفکیٹس نہیں ملنے کی وجہ سے پہلی میڈیکل کونسلنگ میں شرکت نہیں کر سکے ہیں۔ ان کے پاس جنرل کیٹیگری میں درخواست دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اوبی سی ریزرویشن کافائدہ نہیں مل رہا ہے۔
مرشد آباد کے سوتی تھانہ علاقے کے ہاتھی لڈا گاؤں کے رہنے والے طارق الاسلام کی مثال دی جا سکتی ہے۔ NEET میں 601 نمبر حاصل کرنے کے بعد طارق نے آیوش کورس میں داخلہ کے لیے درخواست دی تھی۔ لیکن میڈیکل کونسلنگ میں این سی ایل(نان کریمی لیئر) سرٹیفکیٹ نہیں ہونے کی وجہ سے اب انہیں جنرل گٹیگری میں جانا ہوگا۔
24 ستمبر 2010 کو مغربی بنگال حکومت نے پینچی کمیونٹی کو او بی سی کے طور پر درج کیا گیا۔طارق مرشدآبادکا تعلق جنگی پور کے سب ڈویژن سے ہے
محکمہ اوبی سی سے این سی ایل سرٹیفکیٹ نہیں ملنے کی وجہ سے جنرل زمرے میں درخواست دینی پڑی ہے۔ پسماندہ افراد کی اس فہرست میں سب سے زیادہ متاثر مسلم طلبا ہیں۔ کیونکہ او بی سی اے میں درج زیادہ تر مسلمان ہیں، اسی طرح او بی سی بی کی فہرست میں بھی بہت سے مسلمان ہیں۔ تاہم کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں او بی سی بی کیٹیگری میں ہندو طلبہ کی اکثریت بھی متاثر ہورہی ہے۔
27 اگست کو مغربی بنگال میڈیکل کونسلنگ کمیٹی نے پہلے راؤنڈ کاؤنسلنگ کی فہرست شائع کی ہے۔چوں کہ محکمہ کی جانب سے نان کریمی لیئر کا سرٹیفکٹ نہیں مل رہا ہے اس لئے میڈیکل میں ملسم طلباء کی تعداد ایک ہزار تک نہیں پہنچ سکے گی ۔پہلی لسٹ جو جاری ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے
ریاست میں سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں ریاستی کوٹے میں کل نشستیں: 4030
جنرل کلاس: 1699
او بی سی میں: 393
OBC-B: 276
ایس سی: 839
ST: 231
ای ڈی ڈبلیو ایس: 397
ماخذ:
https://wbmcc.nic.in/