Monday, September 16, 2024
homeاہم خبریںوقف ترمیمی بل مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کی گھناﺅنی سازش:شمیم احمد

وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کی گھناﺅنی سازش:شمیم احمد

کولکاتا:انصاف آن لاین
انسانی حقوق کے معروف کارکن قائد اردو شمیم احمد نے مرکز کے مجوزہ وقف ترمیمی بل کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کو املاک اور میراث کو حکومت کے قبضہ میں لینے کی سازش ہے ۔شمیم احمد نے یہاں نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مجموعی طور مسلمانوں کے کے مفادات کے خلاف ہے اور اس کے نفاذ سے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بل میں ضلع کلکٹر کو تمام اختیارات دے دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی وقف جائیداد پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ مساجد ، قبرستا ن، مدارس ، خانقاہیں ، مزارات اور اس طرح کے مذہبی مقامات پر قبضہ کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

یادرہے کہ شمیم احمد ہندستان میں حقوق انسانی کی تحریکوں سے عرصہ تیس برس سے سرگرم ہیں ۔ کولکاتا سے دہلی اور اگرتلہ سے عثمان آباد تک انہوں نے انسانی حقوق کی بازیابی کیلئے کئی تحریکیں چلائی ہیں۔سربجیت سنگھ کا معاملہ ہو یا پھر فساد اور آتشزنی میں بے گھر ہوئے لوگوں کی بازآبادکاری کا معاملہ شمیم احمد ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں۔بغیر کسی مذہبی ‘ نسلی اور لسانی امتیاز کے انہوں نے ضرورت مندوں کی دست گیری کی ‘ حق کی آواز اٹھائی ہے یہی آواز حق ہٹانے کی پاداش میں مغربی بنگال کی بایاں محاذ حکومت نے انہیں پابندسلاسل بھی کیا ۔
شمیم احمد نے وقف ترمیمی کی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب تک وقف کونسل اور وقف بورڈ ایک خود مختار ادارہ ہوا کرتا ہے لیکن اس بل کے نفاذ کے بعد وقف کی جائیداد کو حکومت ہند اپنے قبضہ میں لے لے گی جو آئین کے سراسر خلاف ہے ۔ یہ مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناﺅنی سازش ہے ۔مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل سے وقف بورڈ کے سی ای او کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہٹادی گئی ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کر سکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹا کر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔
شمیم احمد نے کہا کہ یہ ترمیم واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ وں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کا ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دیے ہیں۔

شمیم احمد نے حکومت سے یہ سوال بھی پوچھا کہ آج جب کہ کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ مجوزہ بل میں وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 40 کو من مانے ڈھنگ سے پوری طرح حذف کردیا گیا ہے۔ یہ سیکشن وقف بورڈ کا دائرہ، حدود اور اختیار طے کرتی ہے، جس کے تحت وقف رجسٹریشن، وقف املاک کی حیثیت وغیرہ طے کی جاتی ہے۔ اب یہ تمام اختیارات کلکٹر کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہندو ، سکھ ، عیسائی سمیت دوسرے مذاہب کے مذہبی مقامات کیلئے باضابطہ بورڈ بناہواہے جہاں تمام طرح کی ذمہ داری اس مذہب کے ماننے والوں کے سپرد ہوتی ہے حکومت کی اس میں مداخلت نہیں ہوتی ہے پھر یہاں ایسا کیوں کیا جارہاہے۔انہوں نے کہا کہ ہندو، سکھ اور دیگر مذہبی برادریوں کے مذہبی پراپرٹی کے معاملات میں حکومت کی مداخلت نہیں ہوتی، پھر مسلمانوں کے وقف املاک کے معاملات میں کیوں مداخلت کی جا رہی ہے؟

شمیم احمد نے کہا کہ این ڈی اے میں شامل جنتادل متحدہ خود کو سیکولرپارٹی کہتی ہے اور بہار میں مسلمانوں کے ووٹ پر اپناحق بھی جتاتی ہے لیکن یہی جنتادل متحدہ ہے جو پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت کررہی ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو اس پارٹی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے اس موقع پر صاف ستھری اور سیکولر ذہنیت رکھنے والے لوگوں سے یہ اپیل بھی کہ وہ اس بل کے خلاف سامنے آئیں اورا پنے اپنے طریقہ سے اس کی مخالفت کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں پر دباﺅ ڈالیں کہ یہ بل مکمل طور پر واپس لے لیاجائے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین