ابو عمار قاسمی
ایک دن قبل ہی مرکزی کلکتہ کے ایک مشہور ادارہ ’’مسلم انسٹی ٹیوٹ‘‘میں ذکر شہادت کے پروگرام کا دعوت نامہ فیس بک پر دیکھا تو چونک گیا ، کیوں کہ روایات کے مطابق ’’ذکر شہادت ‘‘ کے پروگرام محرم الحرام کے مہینے میںمنعقد ہوتے ہیںمگر ’’بعد محرم یا حسین‘ؓ‘ کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی؟۔ایک تجربہ کار بزرگ سے سرراہ ملاقات ہوگیی تو میں نےان سے پوچھا کہ مسلم انسٹی ٹیوٹ والے ’’بعد محرم یا حسین ؓ‘‘کیوں کررہے ہیں؟۔بزرگ نے فرمایا کہ انسٹی ٹیوٹ کے دستور میں شامل ہے اس لئے وہ آئینی تقاضوں اور روایات کی پاسداری میں یہ پروگرام منعقد کررہے ہیں۔جہاں تک سوال ’’بعد محرم یا حسین ؓ‘‘کا ہے تو انسی ٹیوٹ کے لوگ محرالحرام کے مہینے میں توڑ جوڑ میں مشغول تھے،ظاہر ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذکر کا وقت ان کے پاس کہاں تھا؟۔ایسے بھی ’’شہادت حضرت حسینؓ‘‘سچائی اور حق کےلئے قربانی کا مظہر ہے۔ہمارے معاشرے کو سچائی، حق اور قربانی سے کیا سروکا ر ؟یہاں تو صرف اقتدار ہی’’ مقصودِ مومن‘‘ ہے۔چاہے اس کے لئے کسی کے بھی دربار میں حاضری لگانی پڑے۔پھر اس کے بعد اس بزرگ شخصیت نے فرمایا کہ بچے یہ المیہ صرف انسٹی ٹیوٹ کا ہی نہیں ہے بلکہ ’’نام نہاد اشرافیہ ‘‘ کا المیہ ہے۔ان کی پوری زندگی’’ بعد محرم یاحسین ؓ‘‘ سے عبارت ہے۔میں نے وضاحت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ ’’آپ قاسمی‘‘ ہونے کے باوجود بے شعور اور کم فہم ہیں ؟میں نے کہا کہ یہ میرا المیہ ہے۔انہوں نے کہاکہ روایات کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کا گورکھ دھندہ کوئی نیا نہیں ہے۔نام نہاد اشرافیہ طبقہ ہمیشہ سے لوگوں کو اسی دھندے میں الجھائے رکھا ہے۔
بزرگ نے کہا کہ تم ہی دیکھ لوکلکتہ کے جن مسلم اداروں پر نام نہاد اشرافیہ کا یہ طبقہ قابض ہے وہاں کی کارکردگی کیا ہے؟ جوادارے ان اشرافیہ کے تصرف سے محفوظ ہیں وہ کیا کررہے ہیں ؟پھر اس کے بعد انہوں نےمسلم انسٹی ٹیوٹ اور بیل گچھیا میں واقع مسلم لائبریری کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ انسی ٹیوٹ 1905میں قائم ہوا ۔اس کے بعد 25سال بعد بیل گچھیا جیسی پسماندہ بستی میںمسلم لائبریری قائم ہوا۔مگر آج کی تاریخ میں ان دونوں اداروں کی کارکردگی میں آسمان و زمین کا فرق ہے؟
’’بیل گچھیا مسلم لائبریری ‘‘کا قیام 1930میں ہوا۔لائبریری مذہبی کتابوں اور جاسوسی ناولوں اور ادبی کتابوں کا مرکز تھا ۔شاہراہ کے قریب ہونے کی وجہ سے 80کی دہائی میں زیر زمین میٹرو ریلوے کےلئے بڑے پیمانے پر زمین کی کھدائی کی وجہ سے لائبریری کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور یہ عمارت زمین بوس ہوگئی۔ایک عرصے تک لائبریری بند رہی ۔طویل قانونی جنگ کے بعد میٹر و انتظامیہ کولائبریری کو عمارت کی تعمیر کرانے پڑی ۔2دہائیوں سے زاید عرصے تک عمارت کے زمین بوس رہنے وجہ سے تمام کتابیں دیمک زدہ ہوگئیں اور ریکارڈ بھی تلف ہوگئے۔ریکارڈ کے تلف ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ لائبریری کے ذمہ داروں کو لائبریری کے بانیوں کے ناموں تک کا علم نہیں ہے۔2002میں لائبری کی جدید عمارت کی تعمیر ہوئی ۔اس کے بعد لائبریری کمیٹی نے لائبریری کے اسٹکچر اور طریقہ کار میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ۔لائبری میں مذہبی کتابوں ، جاسوسی ناولوںاور ادبی کتابوں کے علاوہ نصاب کی ٹیکسٹ بک،اور دیگر معاون کتابیں بڑی تعداد میںلائبریری میں رکھا گیا۔اس کے ساتھ ہی لائبریر ی اسٹڈی سنٹر بنایا گیاتاکہ بچے اور بچیاں یہاں آکر مطالعہ اور امتحانات کی تیاریاں کریں ۔ بیل گچھیا میں زیادہ تر خاندانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔ ایک ایک گھر میں کئی کئی افرارہتے ہیں۔گھر میں جگہ کی تنگی مطالعہ اور امتحانات کی تیاریوں میں رخنہ ڈالتی ہے ۔ 2014میںمسلم لائبریری کی انتظامیہ نے ’’اکیڈمک آف کمپٹےٹیو ایگزامینشن ‘‘ کے اشتراک سےمغربی بنگال سول سروس کےلئے کوچنگ کرانے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ لائبریری کی کی کامیابی کےلئے سنگ میل ثابت ہوا۔گزشتہ 7سالوں میں 86 نوجوانوں نے کامیابی حاصل کرکے حکومت بنگال کے سول سروس، مختلف سروسیس، ریلوے، بینک اور دیگر اعلیٰ عہدوں سے وابستہ ہوچکے ہیں ۔ان میں سے کئی اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور کئی بلاک ڈیولپمنٹ کے پوسٹ پر فائز ہیں ۔اس سال بھی یہاں سے کوچنگ کرنے والے10نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی ہےان میں سے پانچ کا تعلق بیل گچھیاسے ہے۔
اس کو بھی پڑھیں
امیرالدین بابی اینڈ کمپنی بنام ثنا احمد اینڈ کمپنی – مسلم انسٹی ٹیوٹ پرامیرالدین اینڈ گروپ کا دبدبہ قائم
مسلم انسی ٹیوٹ کی شاندار عمارت گزشتہ ایک صدی سے قائم ہے۔کہنے کو یہاں مختلف شعبہ جات ہیں مگر کارکردگی کے نام پر ان کے نامہ اعمال میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکیں کہ یہ ہے میری کارکردگی! ۔شاندار تین منزلہ عمارت کے باوجود تعلیم جو اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔روایات کے نام پر گیارہویں اور بارہویں کی کوچنگ کرائی جاتی ہے ۔مگر جب یہ سوال پوچھ لیا جائےآپ کے یہاں کوچنگ کرنے والوں کے نتائج اور کارکردگی کیا ہے ؟تو وہ بھڑک جائیںگے اور اس کو مسلم انسٹی ٹیو ٹ کی دشمنی سے تعبیر کرکے ’’دیکھ لیں گے اور اٹھوالیں گے‘‘ جیسی بھاشا پر اتر آتے ہیں؟۔کہنے کو یہاں ایک لائبریری ہے۔لائبریری کو مغربی بنگال حکومت کے محکمہ لائبریری سے گرانٹ بھی مل چکاہے مگر آج تک لائبریری میں لڑکی کو پڑھنے کی اجازت ہوگی یا نہیں ۔اس کو حل نہیں کیا جاسکا۔
اس کو بھی پڑھیں
کلکتہ کے مسلم اداروں پر ’زاغوں کا تصرف ‘‘اور بے حس مسلم سول سوسائٹی
اس کے بعد بزرگ نے ان دنوں اداروں کے عہدہ پر فائز افراد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے عہدیداروں میں کئی تاریخی شخصیات رہی ہیں ، حالیہ دنوں میں اس ادارے کے عہدیداروں میںریاستی وزیر، سابق مرکزی وزیراور ممبر پارلیمنٹ جیسی شخصیات رہی ہیں۔حالیہ اور گزشتہ ٹرم کے عہدیداروں میں صدارت کے عہدہ پر راجیہ سبھا کے رکن، اعزازی جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر سابق پولس آفیسر، ایگزیکٹیو کمیٹی میں ایک مولانا آزاد کالج کے پروفیسر، ایک کلکتہ گرلس کے پروفیسر، کلکتہ کارپوریشن کے میئر ان کونسل جیسی شخصیات ہیں۔جب کہ بیل گچھیا مسلم لائبریری کے عہدیداروں میں ایسا کوئی بھی نام ورنہیں ہیں۔جنرل سیکریٹری کے عہدے پر ٹرام وے میںملاز م نصیرالدین خان جلیس فائز ہیں۔جو دن میں دھرم تلہ ۔۔بیل گچھیا کے درمیان چلنے والی ٹرام میں کنڈکٹر ہیں اور شام میں قوم کے بچوں کے مستقبل کے سنوارنے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔دوسری طرف شام کے وقت پر لطف ناشتا کا دستر خوان ہے۔
’’بیل گچھیا مسلم لائبریری‘‘کو حکومت سے نہ کوئی امداد ملتا ہے اور نہ ہی مقامی آبادی کی معاشی حالت اس قدر مستحکم ہے کہ وہ اپنے خرچ پر لائبریری کو چلاسکے۔اس لئے لائبریری کی آمدنی میں اضافہ کےلئے دو منزل کو ایک اسکول کو کرایہ پردیدیا گیا ہے ۔تاکہ اس سے ہونے والی آمدنی سے لائبریری کے اخراجات کو چلایا جاسکے ۔2014میں’’اکیڈمک آف کمپٹیٹو ایگزامینشن ‘‘ کے اشتراک سے سول سروس کے امیدواروں کی8ہزار روپے کے معمولی سالانہ فیس پر معیاری کوچنگ ہوتی ہے۔اب یہ کوچنگ سنٹر صرف بیل گچھیا کےنوجوانوں کےلئے مرکز نگاہ نہیں ہے بلکہ کلکتہ شہر کے دیگر مسلم علاقے توپسیا، مٹیابرج ، خضر پور جیسے دوردراز علاقے یہاں تک کہ جنوبی بنگا ل مشرقی اور مغربی مدنی پور کے بھی مسلم لڑکے یہاں کوچنگ کرنے کےلئے آتے ہیں ۔اتنی کم فیس پر کلکتہ شہر کا کوئی بھی ادارہ کوچنگ نہیں کراتا ہے ۔علاوہ ازیں اسی فیس میں طلبا کو کتابیں ، نوٹ بک اور دیگر ضروری سامان بھی فراہم کی جاتی ہے۔یہاں سے کوچنگ کرکے کامیابی حاصل کرنے والوں میں ڈی ایس پی احسان قادری اور اسسٹنٹ کمشنرآف ریونیوفرح سلیم جیسے ہونہار افسران شامل ہیں۔
دوسری طرف مسلم انسٹی ٹیوٹ ہے۔جس کی مستقل سالانہ آمدنی 35سے 40لاکھ کے درمیان ہے۔اس کے باوجود انسٹی ٹیوٹ والے دعوے تو ہزار کرتے ہیں مگر کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے قوم کے بچوں کو براہ راست فائدہ پہنچ سکے ۔بزرگ نے بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ والے ہر سال میٹنگ، سیمینا اور دیگر لا یعنی پروگراموں میں کھانے کے پروگرام پر جتنی رقم خرچ کرتے ہیں اتنی ہی رقم سے بیل گچھیا مسلم لائبریری والے قوم کے بچوں کو مستقبل کی راہ دکھلارہے ہیں۔
بزرگ کی تقریر کافی لمبی ہورہی تھی ۔اس لئے بریک لگانا ضروری تھا میں نے کہا کہ حضور !قصہ کو یہیں تمام کیا جائے ۔پھر کبھی قصہ پارینہ سنوں گا۔
،مگر بزرگ مرجھا چکے تھے ۔میں نے معذرت کی تو انہوں نے کہا کہ’ نہیں بچے تم سے خفا نہیں ہوں‘ بلکہ میں تھک چکا ہوں۔مداریوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔مداریوں کی ہی یہاں پوچھارت ہے۔جنہیں گردہ اور کلیجی فروخت کرنا تھاوہ ہمارے ادارے چلارہے ہیں۔تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص پروفیسرحضرات ڈگ ڈگی بجانے لگے ہیں۔
ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر چکی تھیں ۔آواز نکل نہیں رہی تھی ۔میں نے مسکرایا اور کہا کہ حضورآپ ماضی میںجی رہے ہیں۔اقدار، مروت قصہ پارینہ ہے۔یہاں وفاداری بدلنا اور طاقت ورشخص کے آگے سجدہ ریز ہوجانا ہی عقل مندوں کا شیوہ ہے۔ پھر میں نے اللہ حافظ کہا اور بزرگ شخصیت کو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا