Thursday, November 21, 2024
homeتجزیہچیلنجز کا ادراک:محمد عرفان ندیم

چیلنجز کا ادراک:محمد عرفان ندیم

محمد عرفان ندیم
جیرڈ ڈائمنڈ مشہور سفید فام مصنف تھا، وہ ایک بار نیو گنی گیا، وہاں اس کی ملاقات ایک کالے سے ہوئی، کالے نے سوال کیا “تم سفید فام لوگ اتنے ذہین کیوں ہوتے ہو؟ تم ہر روز کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہو اور ہر روز نئی ریسرچ سامنے لاتے ہو۔ تم لوگ جب بھی یہاں آتے ہو اپنے ساتھ نئی نئی چیزیں لے کر آتے ہو، ہم کالے بہت کم چیزیں بناتے ہیں اور نہ ہمیں بنانا آتی ہیں۔

ہم نئی ٹیکنالوجی سے بھی واقف نہیں، ہمیں ریسرچ بھی نہیں آتی اور ہم تعلیم سے بھی بے بہرہ ہیں، ایسا کیوں ہے؟”جیرڈ ڈائمنڈ کے پاس اس سادہ سے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، اس نے کالے سے معذرت کی اور وہاں سے چل پڑا۔ وہ ساری زندگی اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا، وہ سوچتا رہا کہ قوموں اور ملکوں کے حالات میں اتنا فرق کیوں ہوتا ہے، ایک قوم انتہائی ترقی یافتہ تو دوسری قوم انتہائی زوال پذیر کیوں ہوتی ہے۔ وہ سوچتا رہا، آخر پچیس سال بعد اس نے کالے کے جواب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام “گنز، جرمز اینڈ سیٹل” تھا اس کتاب میں اس نے اپنی پچیس سالہ تحقیق اور جستجو کا خلاصہ لکھا۔

اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر خطے اور ہر کونے میں ماحول مختلف ہوتا ہے، لہٰذا جن قوموں اور علاقوں کا ماحول اچھا تھا یا جن قوموں نے اپنا ماحول اچھا بنا لیا وہ قومیں آگے نکل گئیں اور جن قوموں نے ماحول کی پروا نہیں کی ماحول نے ان کی پروا نہیں کی اور آج وہ قومیں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئیں۔ بظاہر یہ ایک عام سا تجزیہ ہے لیکن یہ حقیقت سے قریب تر ہے اور تاریخ اور فلسفہ تاریخ کے امام، ابن خلدون نے بھی ماحول کو عروج و زوال کے حوالے سے ایک اہم عنصر کے طور پر شامل کیا ہے۔

دراصل کسی قوم کی ترقی اور تنزلی کا معیار اس کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے اور تخلیق کاری کے لیے ماحول کا سازگار ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ سازگار ماحول، معاشرتی استحکام، باہمی تعاون، خوش اخلاقی، قوانین کی پابندی، احترام، مسکراہٹ، امن و امان، عدل و انصاف، میرٹ، منصوبہ بندی، خوشگوار فضا، تعلیمی اداروں کی کثرت، اظہار رائے، تحمل اور برداشت، وسعت ظرفی اور بلند حوصلگی یہ وہ ماحول ہے جس میں تخلیق کاری ممکن ہوتی اور جس میں کوئی تخلیق کار جنم لیتا ہے۔

مشہور مؤرخ ٹائن بی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اے سٹڈی آف ہسٹری میں لکھا ہے کہ افراد اور اقوام کی زندگی میں چیلنج اور ماحول اہم ہوتا ہے۔ یہ چیلنج اور ماحول ہی ہوتا ہے جو افراد اور اقوام کو زندہ رکھتا اور انہیں سخت محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔ اس زندگی کا سب سے بڑا روگ بغیر کسی چیلنج کے اور بے مقصد زندگی گزارنا ہے۔ یہ چیلنج ہی ہوتا ہے جو ہمیں رات سونے سے پہلے صبح اٹھنے کی پلاننگ پر مجبور کرتا ہے۔ ہم رات سوتے ہیں تو اگلے دن کی ساری پلاننگ ہمارے ذہن میں گھوم رہی ہوتی ہے۔

ہم ہر لمحہ اس چیلنج کو رسپانڈ کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور یہ چیلنج ہماری زندگی میں نظم و ضبط، اعتماد اور ترتیب پیدا کر دیتا ہے۔ چیلنج اور مقصد کا تعین کیسے کیا جائے یہ بلین ڈالر کا سوال ہے، جس دن افراد اور اقوام اپنے لیے چیلنج اور مقصد کا تعین کر لیں اس دن ان کی کامیابی کا درخت جڑ پکڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم عموماً اپنے بچوں اور سٹوڈنٹس کو وقت کی پابندی، صبح جلدی اٹھنے، نظم و ضبط پیدا کرنے اور بامقصد زندگی گزارنے کا سبق دیتے ہیں لیکن یہ ساری مغز خوری بغیر چیلنج کے ہوتی ہے اس لیے اس کا اثر نہیں ہوتا۔

اس لیے اہم یہ نہیں کہ ہم انہیں صبح جلدی اٹھنے، وقت کی پابندی اور نظم و ضبط پر مجبور کریں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم ان کی زندگی میں چیلنج کا شعور اور ادراک پیدا کر دیں۔ انہیں زندگی میں چیلنج کے تعین پر معاونت فراہم کریں۔ ہم انہیں اس قابل بنا دیں کہ من حیث الفرد، من حیث القوم اور من حیث الامہ ہمیں جو چیلنجز درپیش ہیں وہ ان میں سے کسی ایک چیلنج کو اپنے لیے منتخب کر لیں۔

اگر ہم اپنی اولاد، سٹوڈنٹس اور نئی نسل میں چیلنج کا شعور اور ادراک پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کی بقیہ زندگی از خود منظم ہو جائے گی۔ جب کسی طالب علم کے سامنے علم کی کسی تعلیمی مرحلے کو سر کرنے کا چیلنج ہوگا تو وہ از خود صبح جلدی اٹھنے کے لیے Excited ہوگا۔ جب کسی نوجوان کے سامنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا نظریہ ہوگا تو وہ از خود اتنی محنت کرے گا کہ خود کو اس کا اہل ثابت کر سکے۔ جب کسی نوجوان کے سامنے پیسے اور عہدے کے حصول کا چیلنج ہوگا تو اس کی زندگی میں محنت اور وقت کی پابندی کا شعور خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ جب کسی مذہب پسند نوجوان کے ذہن میں امت کی بہتری اور سماج کی دین سے دوری کا چیلنج ہوگا تو وہ از خود ایک مہذب زندگی کی طرف مائل ہو جائے گا۔

سماج اور نسل نو میں وقت کی پابندی، صبح جلدی اٹھنے اور نظم و ضبط کا احساس کیوں نہیں پیدا ہوتا؟ اس کا پہلا اور آخری جواب یہ ہے کہ ہم بغیر کسی چیلنج کے سماج او ر نسل نو سے سنجیدہ رویے اور سلجھے ہوئے عمل کی توقع کر رہے ہوتے ہیں جو ناممکن ہے۔ بھلا کوئی نوجوان جس کے سامنے کوئی چیلنج ہی نہیں وہ صبح کیوں جلدی اٹھے، اٹھے بھی تو کیا کرے؟ اس لیے وقت کی پابندی، صبح جلدی اٹھنے اور نظم و ضبط جیسے کھوکھلے تصورات کے بجائے نئی نسل کے ذہن میں کسی چیلنج کا شعور و ادراک پیدا کر دیا جائے تو باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین