Monday, September 16, 2024
homeاہم خبریںآرجی کار عصمت دری کا واقعہ تحریک بننے کے بجائے سیاسی کھلواڑ...

آرجی کار عصمت دری کا واقعہ تحریک بننے کے بجائے سیاسی کھلواڑ بن گیا ہے؟اہم ایشوز غائب۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش میں مصروف

کلکتہ 29اگست :

کلکتہ کے آر جی کارمیڈیکل کالج و اسپتال میںجونیئر ڈاکٹر کی عصمت اور قتل کے بعد انصاف کے مطالبے کو لے کر غیر سیاسی تحریک شروع ہوئی تھی۔جونیئر ڈاکٹروں نے کام کی جگہ پر تشدد اور ریاست کے صحت کے نظام میں بدعنوانی پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک غیر سیاسی احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔14اگست کو نصف رات میں مغربی بنگال میں خواتین، تحفظ اور انصاف کے مطالبے کے لیے ’ریکلیم دی نائٹ‘ تحریک کے تحت ریلی نکالی گئی ۔مگر اب یہ سیاسی تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے ۔

صدر جمہوریہ دروپدی مرمونے ایک دن قبل ہی اس معاملے میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے خواتین کے خلاف زیادتی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔997 الفاظ کے مضمون میں صدر نے ہندوستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد پر دکھ کا اظہار کیا۔انہوں نے اپنے مضمون میں آرجی کار عصمت دری کیس اور 2012کے دہلی میں نربھیا کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کا واقعہ کا ذکر کیا ۔انہوں نے اپنے مضمون میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں جیسے کٹھوعہ، اناؤ، ہاتھرس، یا منی پور، یا بلقیس بانو پر ہونے والے جرائم جیسے واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔انہوں نے حال ہی میں اتراکھنڈمیں نرس کی عصمت دری اور مہاراشٹر کے بدلا پور میں بچی کے ساتھ عصمت دری کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس پوری مہم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اصل ایشوز غائب ہوچکے ہیں۔

پہلا مطالبہ تھا کہ خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل معاملے میں ملوث ہرایک کردار کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

دوسرا مطالبہ تھا کہ اسپتال اور دیگر کام کی جگہوں پر خواتین کے تحفظ کیلئے قانون سازی اور سخت انتظامات کئے جائے

جنسی ہراسانی کے معاملے کو نمٹنے کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جائیں اور متعینہ وقت میں جانچ مکمل کی جائے

آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال اور دیگر اسپتال میں بدعنوانی اور غنڈہ گردی کے جومعاملات سامنے آرہے ہیں اس کی جانچ کی جائے۔

مگر جو تحریکیں چل رہی ہیں اس میں یہ مطالبے غائب ہیں۔حدتو یہ ہے کہ سی بی آئی نے اس جانچ میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں کی ہے۔آخر کیوں ؟۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا۔یہ وہ سوالات جوکافی اہم تھے۔

کام جگہوں پر جنسی ہراسانی کتنا بڑا یشو ہے کہ ملیالم سنیمااس وقت اس معاملے میں لرزاں ہےمگر بنگلہ فلموں کی کیا حالت ہے۔بنگلہ اداکارہ ریتا بھاری نے اپنے فیس بک پیج میں لکھا ہے کہ 14اگست کی ’ریکلیم نائٹ ‘ میں بنگلہ فلموں کےوہ اداکار شامل تھے جو ساتھ میں کام کرنے والوں اداکاروں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کرتے ہیں۔

27اگست طلبا کے ایک گروپ نے نوبنو ابھیان مہم کا اعلان کیا۔پہلے اس مہم کی بائیں محاذ کی طلبا تنظیم اورکانگریس نے حمایت کا اعلان کیا تھا۔مگر بعد میں حقائق سامنے آنے کے بعد بائیں محاذ اور کانگریس اس سےالگ ہوگئے اس کے بعد جونیئر ڈاکٹروں نے احتجاج سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ۔دراصل یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس کے پیچھے آرایس ایس اور بی جے پی کا ہاتھ اور بی جے پی اس ریلی کے ذریعہ خلفشار مچانا چاہتی ہے۔ایک ویڈیو بھی سامنے آیا گرچہ ہم اس کی تصدیق نہیں کرتے ہیں ۔مگراس ویڈیو میں جلوس کے دوران لاش گرانے کی بات کی گئی تھی ۔

27مارچ کو جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے آئے۔پولس کی گاڑی پر پتھر برساتے اور حملے کرتے یہ طلبا نہیں ہوسکتے ہیں ۔شام ہوتے ہوتے منظرنامہ واضح ہوگیا کہ 27مارچ کی ریلی کے پچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے۔بی جے پی نے بدھ 28اگست کو 12گھنٹے بند کا اعلان کیا۔

دی ٹیلی گراف نے ’دی ڈے آف دی لمپین‘ کی سرخی لگاکر واضح کردیا کہ 27اگست کو ہجوم نے انارگی پھیلادی ۔کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے، اور ایک کی کم از کم ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگیا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے والے پہلے سے مبہم طلبہ گروپ پچھم بنگا چھاترا سماج نے دعویٰ کیا کہ اس کا نوبنو ابھیان غیر سیاسی ہوگا۔

شام تک، ماسک گر گیا جب بی جے پی کے سرکردہ رہنماؤں نے گرفتار مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کلکتہ پولیس ہیڈکوارٹر تک مارچ کیا۔ بدھ کے روز12 گھنٹے کے بند کو نافذ کرنے کی کوشش میں بی جے پی کارکنوں کی ریاست بھر میں مختلف مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں ۔اس بند کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی2011میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بند کی مخالفت کرتی رہیں۔انہوں نے بند کو ناکام بنانے کیلئے ریاستی مشینری کا استعمال کیا۔ ریاستی سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حاضری کو لازمی قرار دیا گیا۔ ترنمول کانگریس کے طلباء ونگ کے یوم تاسیس کے موقع پر ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنایا اور اگلے ہفتے ریاستی اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے منصوبوں کا اعلان کیا جس میں عصمت دری کرنے والوں کے لیے سزائے موت کی وکالت کرنے والا بل پیش کیا جائے گا۔


احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے، اس نے ان پر زور دیا کہ وہ کام پر واپس آجائیں، انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام پر واپس آنے کا وقت ہے۔ دوسری صورت میں، سپریم کورٹ پہلے ہی ریاستی حکومت کو کارروائی کرنے کا اختیار دے چکی ہے۔ میں کارروائی نہیں کرنا چاہتی ہوں، لیکن اگر میں ایف آئی آر درج کروں گی تو ان کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ وہ پاسپورٹ یا ویزا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر میں قانونی قدم اٹھاتا ہوں تو ان کی زندگیاں تباہ ہو جائیں گی۔

اپنی حکومت کے خلاف ریاست بھر میں بڑھتے ہوئے مظاہروں کے درمیان، وزیر اعلیٰ نے اپنی پارٹی کے حامیوں کو ہر بلاک میں مظاہرے منظم کرنے کی ہدایت دے کرایک نیا سیاسی دائو کھیل دیا ۔

گزشتہ دو ہفتوں میں، متعدد سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور طلباء نے آر جی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ آر جی کار قتل اور حکومت کے ابتدائی گیگ آرڈر کو فوری طور پر واپس لے لیا گیا۔ ایک ہیڈ مسٹریس کی طرف سے لڑکیوں کو ناانصافی کے خلاف بولنے کی ترغیب دینے والی تقریر ریاست بھر میں وائرل ہوئی۔

ممتا بنرجی نے جارحانہ انداز میں بدامنی کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اعلان کیاکہ میں بدلہ نہیں لینے، صرف تبدیلی کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار میں آیا ہوں۔ آج میں ان الفاظ کو واپس لے رہی ہوں۔ اب میں کہتی ہوں، جو کرنا ہے کرو۔

ان کے ریمارکس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، بی جے پی کے ریاستی سربراہ سوکانتا مجمدار نے ان پر ’ملک دشمن‘ ہونے کا الزام لگایا۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو لکھے خط میں، انہوں نے لکھاکہ یہ کسی آئینی عہدے پر فائز شخص کی آواز نہیں ہے۔ یہ ایک ملک دشمن کی آواز ہے۔

وزیر اعلیٰ کی تقریر کوانڈیااتحادی جماعتوں کانگریس اور سی پی آئی (ایم) کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ریاست کے وزیر اعلی بیان بازی کا استعمال کرکے تشدد اور اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں۔سابق ایم پی اور بائیں بازو کی پارٹی کے سینئر لیڈر سوجن چکرورتی نےکہاکہ آر جی کار کا مطالبہ ہے کہ مجرموں کو انصاف اور سزا دی جائے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے۔ کامدونی [جہاں 2013 میں وحشیانہ اجتماعی عصمت دری اور قتل ہوا] کے کسی بھی واقعے نے انصاف نہیں دیکھا۔ آر جی کی حمایت میں پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ براہ راست تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین