Wednesday, March 12, 2025
homeادب و ثقافتسنگ تراش: اک چراغ، اک صدا------محمد فاروق اعظمی

سنگ تراش: اک چراغ، اک صدا——محمد فاروق اعظمی

محمد فاروق اعظمی
نور اللہ جاوید کی تصنیف “سنگ تراش” انسانی حقوق کے علمبردار شمیم احمد کی زندگی اور جدوجہد کی کہانی ہے، جو نہ صرف ادبی شان و شکوہ رکھتی ہے بلکہ تحقیق، فلسفہ، اور معروضیت کی عمدہ مثال بھی ہے۔ یہ کتاب شمیم احمد کی 25 سالہ زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جن میں ان کی سماجی خدمات، اردو زبان کی حفاظت کے لیے ان کی تحریک، اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے ان کی انتھک جدوجہد شامل ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے مصنف نے ایک ایسا آئینہ پیش کیا ہے جس میں تاریخ، انسانیت، اور قیادت کی بلندیاں جھلکتی ہیں۔
کتاب کے آغاز میں مصنف نے حقوقِ انسانی کے تصور اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ انسانی حقوق کا تصور ملت اسلامیہ کی دین ہے، جو 1400 سال قبل پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں پیش کیا۔ شمیم احمد کی جدوجہد کو اس عالمی منشور کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے مصنف نے ان کی خدمات کو ایک تسلسل کے طور پر پیش کیا ہے، جس نے جدید دور میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے ایک نیا باب رقم کیا۔

شمیم احمد کی زندگی کی کہانی ایک عام فرد سے لے کر ایک غیرمعمولی لیڈر تک کے سفر کی داستان ہے۔ ان کا تعلق بہار کے ضلع چمپارن کے ایک متوسط گھرانے سے تھا، لیکن ان کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں جرأت و بہادری، انسانیت کے لیے جدوجہد، اور قیادت کے اصولوں کی اہمیت کو نمایاں حیثیت دی جاتی تھی۔ ان کے والد مزدور یونین لیڈر تھے اور شمیم احمد نے انہی سے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور حق کے لیے لڑنے کا حوصلہ سیکھا۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل کے بعد، انہوں نے حقوقِ انسانی کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور مختلف تنظیموں کے ذریعے کئی اہم سنگِ میل عبور کیے۔

سنگ تراش میں مصنف نے شمیم احمد کی اردو تحریک پر خاص طور پر روشنی ڈالی ہے۔ مغربی بنگال میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے کے لیے ان کی قیادت میں چلنے والی تحریک اپنی نوعیت میں منفرد تھی۔ یہ تحریک نہ صرف اردو اشرافیہ تک محدود رہی بلکہ عام قارئین اور اردو زبان کے چاہنے والوں کو بھی اس میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ شمیم احمد نے اس تحریک کے ذریعے اردو زبان کے تحفظ کی جدوجہد کو نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر پہنچایا۔ اس جدوجہد میں ان کے جارحانہ مگر حکمت سے بھرپور رویے کو مصنف نے نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

کتاب میں شمیم احمد کی زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں “کھانا سب کے لیے” مہم کا ذکر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس مہم کے ذریعے انہوں نے ان افراد کی طرف توجہ دلائی جو سڑکوں پر رہتے ہیں اور جن کے پاس بنیادی حکومتی دستاویزات نہیں ہیں۔ ان کی اس مہم نے نہ صرف حکومتوں بلکہ سول سوسائٹی کو بھی متوجہ کیا اور عوامی بیداری پیدا کی۔

شمیم احمد کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو ان کی قومی یکجہتی کے لیے کی گئی کوششیں ہیں۔ مصنف نے بتایا کہ 2014 میں انہوں نے قومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے شرکت کی اور ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے عزم کیا۔ یہ کوششیں ایک ایسے وقت میں کی گئیں جب ملک فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا تھا۔ شمیم احمد کے اس عزم کو مصنف نے نہایت معروضی انداز میں بیان کیا ہے، جو ان کی جدوجہد کی سچائی کو اجاگر کرتا ہے۔

سنگ تراش” کا ایک اہم موضوع اردو زبان کی تاریخ اور اس کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ مصنف نے اردو زبان کے عروج و زوال کی کہانی کو شمیم احمد کی تحریک کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح اردو، جو برصغیر کی مشترکہ تہذیب و تمدن کی نمائندہ زبان رہی ہے، تقسیمِ ہند کے بعد تعصب اور نفرت کا شکار ہوئی۔ شمیم احمد نے اردو زبان کو اس تعصب سے نکالنے اور اسے اس کا جائز مقام دلانے کے لیے جو جدوجہد کی، وہ مصنف کے قلم سے زندہ ہو جاتی ہے۔

مصنف نے کتاب میں شمیم احمد کی جدوجہد کو عالمی منظرنامے کے ساتھ بھی جوڑا ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ حقوقِ انسانی کے عالمی چیمپئن بھی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں جن کے خلاف شمیم احمد نے جدوجہد کی۔ وہ دکھاتے ہیں کہ کیسے شمیم احمد نے مقامی سطح پر وہ کام کیے جن کی بازگشت عالمی سطح پر سنائی دی۔

سنگ تراش” کے اسلوب اور زبان کی بات کریں تو مصنف نے نہایت ادبی اور خوبصورت انداز اپنایا ہے۔ ہر لفظ ایک تصویر کی مانند ہے جو قارئین کو شمیم احمد کی جدوجہد کے سفر میں شریک کرتا ہے۔ کتاب کا اسلوب ایسا ہے کہ قارئین اسے ایک تحقیقی مقالے کے ساتھ ساتھ ایک ادبی شاہکار کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

کتاب کا نام “سنگ تراش” بھی نہایت موزوں اور علامتی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شمیم احمد نے اپنی راہیں خود تراشیں اور اپنی جدوجہد کے ذریعے ایک مثال قائم کی۔ مصنف نے اس عنوان کو کتاب کے مرکزی خیال کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے مربوط کیا ہے۔

آخر میں مصنف نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ یہ کتاب نئی نسل کو جدوجہد اور قربانی کی اہمیت کا احساس دلائے گی۔ اگرچہ شمیم احمد کی زندگی کا یہ سفر ابھی مکمل نہیں ہوا، لیکن مصنف نے ان کی اب تک کی خدمات کو قلمبند کر کے ایک اہم فریضہ انجام دیا ہے۔
سنگ تراش” نہ صرف ایک شخصیت کی کہانی ہے بلکہ ایک تحریک، ایک مشن، اور ایک خواب کی بھی عکاسی ہے۔ یہ کتاب ان تمام افراد کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو انسانیت کی خدمت اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین