Tuesday, October 28, 2025
homeاہم خبریںجاوید اخترتنازع۔۔ سلیکٹیوالحاد اور سیاسی موقع پرستی

جاوید اخترتنازع۔۔ سلیکٹیوالحاد اور سیاسی موقع پرستی

اسد اشرف

جاوید اختر کولے کر تنازع کھڑا ہونے کے بعد کلکتہ میںاردو اکیڈمی کا پروگرام رد ہوناصرف اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ منتخب الحاد(Selective atheism)) کے تضادات اور اس کے ذریعہ ممکن ہونے والی سیاسی موقع پرستی کو عیاں کرتا ہے۔ اگرچہ جاوید اختر خود کو تمام مذاہب کے سخت ناقد کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن ہندو قوم پرست علامات، نعروں جیسے ’’وندے ماترم‘‘ اور’’ بھارت ماتا کی جے‘‘، اور’’ ثقافتی علامات ‘‘کو قبول کرنے میںوہ ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے ہیں بلکہ آسانی سے اکثریتی مذہب کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرتیے ہیں جو اسلام پر ان کی مسلسل تنقید کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے ساتھ ہی جاوید اختر کے پروگرام کو رد کئے جانے کو سیاسی عناصر اور میڈیا کے کچھ حصوں نے اس واقعے کو ممتا بنرجی پر حملہ کرنے کے لیے ایک آسان ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔یہ صورت حال جمہوری انحطاط کے گہرے بحران اور اکثریتی بیانیہ کو آگے بڑھا نے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

میڈیا میں چلنے والا بیانیہ مکمل طور پر بے نام ذرائع پر منحصر ہے۔میڈیا کے بیانیہ میں منتظمین یا متاثر افراد کی جانب سے کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا گیا ہے ۔یہ میڈیا کی ساکھ کو ظاہر کرتا ہے۔درحقیقت جن دو تنظیموں پر الزام لگایا گیا ہے، ان میں سے ایک نے عوامی پریس بیان جاری کرکے اپنی شمولیت سے انکار کیا ہے۔اس سے پورا معاملہ مزید شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں ۔

سیاسی بائیں بازو اور آزاد خیال دانشوروں کے ایک گروپ نے اس تنازع کو ممتا بنرجی پر حملہ کرنے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اس واقعے کو بنیاد پرستوں کے سامنے جھکنے اور بی جے پی کےمشہور’’مسلمانوں کی خوشامد‘‘والے بیانیہ کو تقویت پہنچادینے والے قدم کے طور پر پیش کیا۔یہ ایک معمولی واقعہ تھا، اسے اخلاقی جرم کی سطح پر اٹھا دیا گیا ہے، اس سے اصل تضادات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

بہت سارے تبصروں میں جاوید اختر کو آزادیِ رائے کا بہادر محافظ کے طور پیش کیا گیا ہے، جسے عدم برداشت کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں نے خاموش کر دیا۔ لیکن یہ فریمنگ ان کی اپنی سیاست کے تضادات کو چھپاتی ہے۔

جاوید اختر کا منتخب الحاد (Selective atheism)

جاویداختر خود کو ایک ملحد کہتے ہیں جو تمام مذاہب کی مخالفت کرتا ہے، لیکن عملی طور پر ان کی تنقید زیادہ تر اسلام پر مرکوز ہوتی ہے، جب کہ وہ ہندو ثقافتی علامات کی آزادانہ طور پر تعریف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی میں راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا کے زیر اہتمام ایک دیپوتسو میں جاوید اختر شرکاء کو ’’جے شری رام ‘‘ کا نعرہ لگانے کی ترغیب دیتے ہوئے اسے محبت اور اتحاد کی بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اس پروگرام میں زور دے کر کہا کہ بھگوان رام ہندوستان کی ثقافت اور تہذیب کا حصہ ہیں، اور رام اور سیتا نہ صرف ہندو دیوی دیوتا ہیں بلکہ ملک کے ثقافتی ورثے کا بھی لازمی حصہ ہیں۔

اسی پروگرام میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ ملحد ہیں، لیکن وہ’’ مریادا پوروشوتم رام‘‘ کی بہت عزت کرتے ہیں، اور رامائن ثقافتی ورثہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندو فیاض اور وسیع القلب ہوتےہیں اور ہندو ثقافت اور روایت کی وجہ سے ہندوستان میں جمہوریت زندہ ہے۔

ہندو علامتوں اور نعروں کو اپنانے میں جاوید اختر کی نظر آنے والی سہولت اور مذہب اسلام پر ان کی بے لگام تنقید کے بالکل برعکس ہے۔ یہ ایک منتخب الحاد (Selective atheism)ہے۔ جس سے معاشرتی تعصبات کو تقویت دینے کا خطرہ ہے۔

وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے کی تعریف

جاوید اختر نے قومی گیت وندے ماترم کا بھی دفاع کیا ہے۔ 2009 کے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس پر مسلمانوں کے اعتراضاتکو غیر اہم قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے متعدد فلموں میں اس جملے کو استعمال کیاوہے۔ بشمول ’’سزائےکالا پانی‘‘ اور’’ پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘‘، اور یہاں تک کہ دہرادون کے ایک فوجی اکیڈمی میں پیش کیے گئے ایک پروڈکشن میں بھی انہوں نے اس کو استعمال کیا ہے۔

جب کہ’ وندے ماترم‘کو لے کر مسلمانوں کے اعتراضات کوئی بے وجہ نہیں ہے ۔19ویں صدی میں بنکم چندر چٹرجی کی طرف سے لکھا گیا یہ گیت دیوی کی پوجا کی تصویر کشی سے جڑا ہوا ہے، جس میں مادر وطن کو درگا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے ہندوؤں کے لیے یہ قوم پرستی اور روحانیت کا امتزاج ہوسکتا ہے۔لیکن مسلمانوں کے لیےیہ ایک نظریاتی تنازع کھڑا کرتا ہے، کیونکہ یہ گیت قوم کو دیوی کے روپ سے جوڑتا ہے۔ اسے وطن پرستی کے طور پر گانے کا مطالبہ غیر ہندوؤں کو ایسے عمل پر مجبور کرتا ہے جو ان کے اپنے عقیدے سے متصادم ہے۔

اسی طرح ’بھارت ماتا کی جے ‘‘جسے اب ایک محب وطن نعرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہےبھی اسی ثقافتی چشمے سے نکلتا ہے۔ بھارت ماتا، یا ’’مادر ہندوستان‘‘ صرف ایک شاعرانہ استعارہ نہیں ہے بلکہ ایک ہندو دیوی کے طور پر تصور کی گئی ہے۔اس کے ساتھ تاج، ترشول اور شیر کی علامات ہیں۔ اس کا واضح مذہبی مفہوم ہے جو قوم پرستی سےسے کہیں زیادہ ہے۔اس نعرے کو نہ ماننے والوں کے لیے، مسئلہ ملک سے وفاداری کی کمی نہیں ہے بلکہ قوم پرست لباس میں ملبوس مذہبی علامت کے سامنے جھکنے کا ضمناً مطالبہ ہے۔

ان علامات کو قبول کرنے اور معمول بنانے سے جاوید اختر مؤثر طور پر ان کے مذہبی علامات کو نظر انداز کرتے ہیںاور خود کو ثقافتی اکثریت کے ساتھ ارجیسٹ کرلیتے ہیں۔اسلامی طریقوں پر ان کی بار بار تنقید ہندو عقیدت کے مطابق تصویر کشی میں جڑے نعروں کے دفاع کے ساتھ مل کر ان کے نام نہاد الحاد میں عدم توازن کو واضح کرتا ہے۔ مذہب کے سیاسی اثر کو ختم کرنے کے بجائے یہ منتخب قبول اکثریتی مذہب کے بیانیہ کو مضبوط کرتا ہے۔

سیاسی اور سماجی اثرات
جاوید اختر کے منتخب(Selective atheism)کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک ایسی فضا میں جہاں مسلمان پہلے ہی امتیازی سلوک کے شکار ہیں، جاوید اختر کی اسلام پر تنقید وزن رکھتی ہے۔ رہائشی علاحدگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ خود کمیونٹی اس کیلئے ذمہ دار ہے، نہ صرف حقیقت سے دور ہے بلکہ بلکہ خطرناک حد تک انتظامی تعصب کے الزامات بھی متاثرین پر لگاتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی وہ اکثر امبانی خاندان سے منسلک کارپوریٹ حمایت یافتہ اشرافیہ کے ثقافتی پلیٹ فارمز پر نظر آتے ہیں۔ یہ ان کے اعلان کردہ بائیں بازو کے نظریات کے ساتھ کسی بھی طرح سے میل نہیں کھاتا اور ایک واضح موقع پرستی کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ رویہ مغرب میں رچرڈ ڈاکنز کی یاددلاتی ہے ۔جنہیں مذہب کے سخت نقاد کے طور پہچان کی جاتی تھی مگر بعد میں ڈاکنز نےاپنی پوری تنقید اسلام پر مرکوز کردیا۔اکثر ایسے ایشوز میں جو انتہائی دائیں بازو کی بات کرنے والے نکات اور تارکین وطن مخالف بیان بازی کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کا الحاد جو کبھی عالمگیر تھاوہ سلیکٹیوتنقید کی وجہ سے کھوکھلاہوگیا۔تعصابات کو ختم کرنے کے بجائے وہ تعصبات کو تقویت دینے لگا۔جاوید اختر کی پوری ثقافتی پوزیشننگ بھی اسی طرح کی ہے۔نہ وہ الحاد کے معاملے میں مخلص ہے اور نہ ہی یکسو۔اخلاقی بلندی کا دعویٰ کرنے کے بجائے وہ اکثر’’غالب اکثریتی بیانیہ‘‘ کو تقویت دیتے ہوئے نظر آتےہیں۔

بنگالی اردو اکیڈمی کے پروگرام رد ہونے کا تنازع

اس تناظر میں کلکتہ کا واقعہ ایک نئی رنگت اختیار کرگیاہے۔ جاوید اختر کے تضادات کی جانچ پڑتال کرنے کے بجائےبائیں بازو نے اس معاملے کو سیکولرزم،مسلمانوں میں عدم رواداری اور مبینہ طور پر کمزور حکمراں جماعت کے بارے میں ایک اخلاقی ڈرامے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی ممتا بنرجی پر تنقید میں شدت ،غیر تصدیق شدہ افواہوں کو میڈیا کی طرف سے بڑھاچڑھاکر پیش کئے جانے کے بعد یہ تاثر کیا جارہا ہے کہ یہ صورت حال ’ہندو اکثریتی ‘قوتوں کے ہاتھوں جمہوری اصولوں کی پامالی اور اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے۔

طنز واضح ہے بائیں بازو جو اکثریت پسندی کی مخالفت کا دعویٰ کرتا ہے، نے ایک ایسی داستان کو بڑھاوا دیا ہے جو ہندو قوم پرست اسٹیریوٹائپس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جاوید اختر جو خود کو ترقی پسند ملحد کے طور پر پیش کرتے ہیں اپنے منتخب ثقافتی قبول کے ذریعے انہی اسٹیریوٹائپس کو تقویت دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ہمدردی کے طور پرخود کو متاثرہ شخص کے طور پر پیش کرکے ہمدردی بھی حاصل کرتے ہیں۔

آخری تجزیہ یہ واقعہ اظہاررائے کی آزادی کے بارے میں کم اور سیاسی سہولت کے بارے میں زیادہ ہے۔ جہاں جاوید اختر نے جواز اور توجہ حاصل کی، بائیں بازو والے اس واقعے کو ممتا بنرجی کے خلاف ایک آلے کے طور پر استعمال کیا،اور بی جے پی خاموشی سے مسلمانوں کو ایک بار پھر عدم برداشت کا شکار دیکھ کر فائدہ اٹھاتی ہوئی نظرآئی۔ دریں اثنا حقیقی بحران جمہوریت کے امکانات میں کمی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔

اسد اشرف دہلی میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ سیاست، انسانی حقوق، اور سماجی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں، اور کبھی کبھار فیچر اسٹوریز بھی لکھتے ہیں۔
یہ مضمون پہلے ’’انگریزی ویب سائٹ مکتوب انڈیا ڈاٹ کام پر شائع کیا گیا تھا۔ویب سائٹ کے شکریہ کے ساتھ اس کا ترجمہ شائع کیا جارہا ہے۔اردو جملے کو وضاحت کرنے کیلئے معمولی حذف و اضافہ کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین