Wednesday, October 29, 2025
homeاہم خبریںکیا اردو اکیڈمی کا پروگرام منسوخ ہونا چاہئے تھا؟ --کیا کوئی فردِ...

کیا اردو اکیڈمی کا پروگرام منسوخ ہونا چاہئے تھا؟ –کیا کوئی فردِ واحد کسی پروگرام کے لئے ناگزیر ہوتا ہے؟

عبدالعزیز
جنتا پارٹی کی حکومت کا زمانہ تھا ،کلکتہ کی روسی قونصلیٹ جنرل کے انفارمیشن سکریٹری نہایت عمدہ کار میں سوار ہوکر میرے دفتر ہفتہ وار ’تحریک ملت‘ (15نمبر رپن اسٹریٹ، کلکتہ 16-) میں تشریف لائے۔ انفارمیشن سکریٹری کا نام اب مجھے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میاں بیوی نے پندرہ سال تک اردو زبان ہندستان میں رہ کر سیکھی تھی۔ پہلی بار ان کو گرانڈ ہوٹل میں محترم علقمہ شبلی کی ایک کتاب کی رسم رونمائی کی تقریب میں دیکھا تھا۔ موصوف آتے ہی میرے ہفتہ وار اخبار کی تعریف و توصیف کرنے لگے اور یہ جاننا چاہا کہ اتنے اچھے کاغذ میں اور نہایت بہتر چھپائی کے ساتھ آپ کیسے اخبار نکالتے ہیں؟ میں نے ان کو بتایا کہ اخبار کا ایڈیٹر، چپراسی اور ہاکر میں خود ہی ہوں اس لئے کسی طرح سے اسی نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں۔ انھوں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے اخبار کی مدد کروں۔ حقیقت کو جاننے کے لئے میں نے پوچھا کہ آپ کیسے اور کیونکر مدد کر سکتے ہیں؟ جواب میں انھوں نے کہاکہ مہینے میں دو چار مضامین آپ کے اخبار کے لئے بھیجا جائے گا۔ جب میں نے پوچھا کہ کس نوعیت کا مضمون ہوگا تو انھوں نے بتایا کہ جیسے ”روس میں عید میلاد النبی“، ”روس میں اسلام“، ”روس میں مسلمانوں کی حالت“۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ اگر آپ کے اخبار میں مضمون شائع ہوتے ہیں تو ہر مضمون پر آپ کو پانچ سو روپئے دیئے جائیں گے ۔

میں نے ان سے کہاکہ آپ کمیونزم کے مبلغ اور پرستار ہیں اور اپنے اس نظریے کے لئے ہندستان میں رہ کر ہر طرح کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔ کیا آپ کے اس نظریے کے خلاف کوئی مضمون شائع ہوتا ہے تو اس کے لئے بھی آپ شائع کرنے والوں کو مدد کرتے ہیں؟ تو انھوں نے کہاکہ نہیں۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ جس طرح آپ اشتراکیت کے مبلغ ہیں اسی طرح میں اسلام کا مبلغ ہوں۔ روس میں اس وقت اسلام آزاد نہیں ہے اور نہ وہاں کے مسلمان آزاد ہیں بلکہ وہاں ہر مذہب کی تبلیغ بشمول اسلام منع ہی نہیں ہے بلکہ جو کوئی اپنے مذہب کی تبلیغ کرتا ہے ا اسے کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے۔
ہمارے اور آپ میں فرق صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور اسلام کو دنیا کے لئے نجات دہندہ تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کمیونزم یا سوشلزم کو دنیا کے لئے سود مند سمجھتے ہیں، لہٰذا ہمارے اور آپ کے اندر زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میں اپنے آپ کو خدا کا بندہ تسلیم کرتا ہوں جبکہ آپ خدا کے وجود کو سرے سے مانتے نہیں۔ ”کارل مارکس مذہب کو افیون سمجھتے ہیں“ اور لینن یہ کہتے ہیں کہ ”جب خدا بویا ہی نہیں گیا تو کاٹا کیسے جائے گا؟“ یہ کہتے ہی انفارمیشن سکریٹری میری بات سمجھ گئے اور کھڑے ہوگئے۔ کھڑے ہوکر کہنے لگے کہ ”کیا میں آپ کے دفتر میں آسکتا ہوں؟“ میں نے ان کو جواب دیا کہ ”آپ ضرور آسکتے ہیں مگر آپ اس قسم کی باتیں نہیں کرسکتے ہیں۔ آپ اپنے ازم اور نظریے کے لئے جس طرح قربانی دے رہے ہیں اسی طرح میں بھی اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہوں“۔ رشین قونصلیٹ جنرل کا انفارمیشن سکریٹری جب تک کلکتے میں رہے وہ میرے دفتر کے پتے پر اپنا لٹریچر بھیجتے رہے۔ جب اس کا دہلی ٹرانسفر ہوگیا تو بھی اشتراکی لٹریچر میرے پاس آتا رہا۔

مجھے یاد ہے کہ اسرائیل کا ایک موسیقار ہندستان آیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ موسیقیت اس کا فن تھا لیکن موسیقی کے ساتھ ساتھ وہ یہودیت کا بھی اپنے انداز سے پرچار کرتا تھا۔ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت نہیں بلکہ 90فیصد سے زائد لوگ ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن وہ نہ اسلام کی مکمل پیروی کرتے ہیں، نہ ہر معاملے میں اسلام کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہاں وہ عید قرباں کے موقع پر جانوروں کی قربانی دیتے رہتے ہیں۔ نہ اس کا مقصد سمجھتے ہیں اور نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان مثالی قربانی سے کماحقہ¾ واقف ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے سیکھنا چاہئے جو اپنے ازم یا اپنے نظریے کے لئے ہر طرح کی قربانی دیتے ہیں۔ جاوید اختر کے والد محترم جاں نثار اختر ہوں یا کیفی اعظمی ہوں ان لوگوں نے ہر طرح کی اشتراکیت کے اپنے نظریے کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ جاوید اختر انہی کے خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اپنے والدین کی طرح نہیں ہیں بلکہ کم و بیش انہی کی طرح آرام و آسائش کے ساتھ قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں۔ ان کو کوئی خوف یا کوئی ڈر نہیں ہے کہ اگر وہ خدا و رسول کے خلاف توہین آمیز یا گستاخانہ کلمات بیان کرتے ہیں تو مسلمان ناراض ہوجائیں گے۔ ان کو اپنے ازم اور نظریے سے لگاو¿ ہے، اس کے لئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں اور موقع بموقع کرتے رہتے ہیں۔

جہاں تک مسلمانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی بات ہے تو وہ برسوں سے یا مدتوں سے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام ان کا ایک ایسا مذہب ہے، ایک ایسا دین ہے جو حق و انصاف کی بات کرتا ہے اور مسلمانوں کو حق و انصاف کا علمبردار بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہر معاملے میں دنیا کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے کی تلقین کرتا ہے۔

اردو ادب یا اردو زبان ایک ایسی زبان اور ایک ایسا ادب ہے کہ اگر کوئی سچا اور پکا مسلمان ہوگا تو زبان و ادب کی خدمت کرتے ہوئے اسلام کو اولیت کا درجہ دے گا۔ وہ ہمیشہ یہی چاہے گا کہ اس کے قلم اور اس کی زبان سے اسلام کی ترقی ہو اور دنیا میں امن و امان قائم ہو۔ اردو کے دو بڑے شعراءعلامہ اقبال اور فیض احمد فیض ہیں۔ اقبال کا اوڑھنا بچھونا اسلام تھا۔ وہ اسلام کے بہت بڑے مبلغ تھے۔ اسی طرح فیض احمد فیض بھی اشتراکیت کے بہت بڑے مبلغ تھے۔ دونوں نے اپنے شعر و ادب سے اپنے نظریے کی تبلیغ و اشاعت کا کام کیا ہے۔ دونوں کے نظریے میں فرق ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے قریب تھے۔ فیض احمد فیض علامہ اقبال کا احترام کرتے تھے اور ان کی شان میں ایک نظم بھی کہی ہے۔ فیض احمد فیض مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے احترام میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔ جب وہ لاہور میں ایک کالج کے پرنسپل تھے تو انھوںنے مولانا کو لکچر دینے کے لئے کالج کے سالانہ اجلاس میں مدعو کیا تھا۔

کلکتہ کے مسلمانوںکا بہت بڑا حصہ بلکہ 95% سے زائد نے جاوید اختر کی مخالفت اس لئے نہیں کی کہ وہ دہریہ ہیں بلکہ مخالفت اس لئے کی کہ انھوںنے اللہ کو چیلنج کیا اور اللہ کی شان میں گستاخانہ کلمات بیان کئے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جاوید اختر بہت بڑے نغمہ نگار ہیں، شاعر ہیں وہ خدا، رسول اور اسلام کے خلاف جو کچھ بکواس کرتے ہیں، توہین آمیز باتیں کرتے ہیں ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ وہ در اصل بھول جاتے ہیں کہ اگر ان کے ماں باپ، ان کے بھائی بہن کو کوئی گالیاں دے، ان کی شان میں گستاخی کرے تو کیا وہ ایسے شخص کی میزبانی کرنا پسند کریں گے؟ اور اسے ذاتی مسئلہ سے تعبیر کریں گے؟
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو سب کی زبان ہے وہ صحیح کہتے ہیں۔ ہر زبان سب کی زبان ہے، لیکن ہر زبان کا ایک کلچر ہے۔ اردو جس زبان کی نمائندگی کرتی ہے وہ اسلام ہے۔ اسلام کے عناصر خمسہ میں محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی اور سرسید ہیں۔ ان سب کی تحریروں میں اللہ و رسول کے خلاف کوئی بات نہیں ملے گی۔ جہاں تک غیر مسلم بھائی بہن اردو ادب کے شاعر و شاعرہ ہیں ان کے یہاں بھی اللہ و رسول کی شان میں گستاخی کے کلمات نہیں ملیں گے بلکہ برادرانِ وطن میں کچھ ایسے شعراءہیں جنھوں نے حمد کہی ہے اور نعتیں بھی کہی ہیں۔
اردو ایک ایسی زبان ہے جو عربی کے بعد اردو میں سب سے زیادہ لٹریچر ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ اس زبان کی ترقی اور تحفظ فرض عین ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ ”جولوگ بھی اردو کے تحفظ اور ترقی کے لئے جد و جہد کرتے ہوئے مارے جائیں گے وہ شہید کہلائیں گے“۔اردو زبان کو، اس کے کلچر کو، اس کی تہذیب کو، اس کی خصوصیت کو مرنے اورمرجھانے سے بچانے کا کام یوں تو ہر اہل اردو کا ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کا ہے، اس لئے مسلمانوں کو شرم محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ شرم محسوس کرتے ہیں ان کا حال تو یہ ہے کہ داڑھی، ٹوپی اور اسلام کا نام لینے سے بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ اردو کے مقابلے میں انگریزی زبان کو ترجیح دیتے ہیں اور جو لوگ انگریزی نہیں جانتے یا نہیں بول سکتے ان کو کمتر سمجھتے ہیں۔

اردو اکیڈمی کا پروگرام کی مسلمانوں نے مخالفت نہیں کی صرف جاوید اختر کی شرکت کی مخالفت کی۔ ان کی پذیرائی اور عزت افزائی کی مخالفت کی۔ ایک شاعر یا ایک نغمہ نگار کی عدم شمولیت سے نہ آسمان گرجاتا اورنہ زمین پھٹ جاتی۔ پروگرام آسانی سے ہوسکتا تھالیکن اردو اکیڈمی کے ذمہ داران یا ریاستی حکومت جاوید اختر کی محبت کی کچھ اس طرح شکار ہوگئی کہ سارے پروگرام کو اسے رد کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ؒخدانخواستہ جاوید اختر بیمار ہوجاتے یا دنیا کو خیر باد کہہ دیتے تو کیا پروگرام کا انعقاد نہیں ہوتا؟ دنیا میں آنے جانے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، لیکن دنیا کا کام جاری و ساری رہتا۔ ناگزیر شخصیات سے قبریں بھری ہوئی ہیں، لیکن دنیا کا کام رکا نہیں ہے بلکہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔

چند سال پہلے ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے ”اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑنے والے فی الواقع کیا ہیں؟ مومن ہیں یا منافق؟“کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے اس مضمون کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے:

” آج (3مارچ) صبح صبح میرے پاس پٹنہ سے منصور صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے کہاکہ آج میں نے ایک اردو روزنامہ میں آپ کا کانگریس پر مضمون پڑھا۔ مجھے بیحد پسند آیا۔ پھر انھوں نے اپنا تعارف کرتے ہوئے کہاکہ میں بی جے پی کے اقلیتی سیل کا چیئرمین ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ میری زبان سے ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ نکلا، تب انھوں نے کہاکہ آپ کیا مجھے مسلمان نہیں سمجھتے ہیں۔ میں نے جواب میں کہاکہ کوئی مسلمان جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے وہ مسلمانوں اور اسلام کی دشمن پارٹی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ کو میری بات سمجھ میں نہ آئے تو ’سورہ المجادلہ‘ کی آیت 22پڑھ لیجئے۔
”تم کبھی یہ نہ پاو¿گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان“۔ اگر یہ بھی سمجھ میں نہ آئے تو ’سورہ الممتحنہ‘ کی پہلی آیت پڑھ لیجئے۔
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کیلئے اور میری رضا جوئی کی خاطر نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناو¿۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اور اللہ پر ایمان لائے ہو“۔

آیتوں کا حوالہ دینے کے بعد ہم نے ان سے کہاکہ اگر یہ آیتیں بھی آپ کی سمجھ میں نہ آئیں تو سورہ المجادلہ کی آیت 22 کی تشریح کسی بھی تفسیر قرآن میں خاص طور پر ’تفہیم القرآن‘ کے حاشیہ 37 کو غور و خوض کے ساتھ پڑھ لیں۔ صاحب تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں یہ لکھا ہے:
اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنانِ خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہوجائیں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہرگز لاحق نہیں ہونی چاہئے کہ وہ شاید اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہوگا۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پہ اچھی طرح غور کرلیں کہ وہ فی الواقع کیا ہیں مومن ہیں یا منافق؟ اور فی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں۔

مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق۔ اگر ان کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے اور وہ کچھ بھی احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسا ن کیلئے ذلیل ترین رویہ ہے تو انھیں بیک وقت دو کشتی میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہئے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کردیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہے۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتہ کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔ یہ تو ہے اصولی بات مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیانِ ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انھوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر اور اُحد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرامؓ ہجرت کرکے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ ……..اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص گرفتار ہوکر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھایا جاچکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے۔

دَیلمی نے حضرت معاذؓ کی روایت سے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی ہے: ”خدایا؛ کسی فاجر (ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کیلئے کوئی محبت پیدا ہو،کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاو¿گے“۔

منصور صاحب کو جب میں سورہ الممتحنہ اور سورہ المجادلہ کا حوالہ دے رہا تھا تو وہ مجھ سے سورہ نمبر پوچھ رہے تھے۔ اتفاق سے مجھے اس وقت سورہ کا نمبر یاد نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہاکہ آپ ان سورتوں کے ذریعے نمبر دیکھ لیجئے گا۔ انھوں نے کہاکہ شاہنواز تو مجھ سے بڑے بھاجپائی ہیں۔ میں ان کی بات پر خاموش تو ہوا لیکن مجھے خشونت سنگھ کا ایک انٹرویو یاد آگیا جو انھوں نے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے لیا تھا۔ خشونت سنگھ سے بھٹو صاحب نے پوچھا تھا کہ ”آپ شراب پیتے ہیں؟“ تو اس کا انھوں نے دو جواب دیا۔ ایک جواب میں کہا تھا کہ ”میں شراب ضرور پیتا ہوں مگر یحییٰ خان سے زیادہ نہیں پیتا“۔ دوسرا جواب یہ دیا تھا کہ ”میں شراب ضرور پیتا ہوں مگر ….کسی کا خون نہیں پیتا“۔ بھٹو نے اپنے آپ کو غالباً مطمئن کرلیا ہوگا کہ مجھ سے بھی بہت زیادہ شراب پینے والے مسلمانوں میں موجود ہیں۔ شاید اسی طرح منصور صاحب نے اپنے آپ کو مطمئن کر رکھا ہوگا کہ بی جے پی میں مجھ سے بھی بڑے بڑے لوگ اس ذہنیت کے حامل ہیں۔ میں اس پارٹی میں تنہا نہیں ہوں“۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین