ریحان فضل
آج سے تقریبا 266 سال قبل برصغیر میں پلاسی کے مقام پر ہونے والی جنگ نے یہاں انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی لیکن صدیوں بعد بھی اس جنگ میں شامل کرداروں کی بازگشت اس خطے کی سیاست میں سنائی دیتی ہے۔ اس ضمن میں آج یہ تحریر دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
23 جون 1757 کو پلاسی کی جنگ ہارنے کے بعد سراج الدولہ اونٹ پر بھاگ نکلے اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی مرشد آباد پہنچے۔ اگلے ہی دن رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کو ایک نوٹ بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ ’میں آپ کو اس فتح پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ فتح میری نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو نواب بنانے کا اعلان کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوگا۔‘
اس سے پہلے صبح سویرے گھبراہٹ اور تھکاوٹ کا شکار لگنے والے میر جعفر برطانوی کیمپ میں اپنی موجودگی درج کر رہے تھے تو برطانوی فوجی انھیں کرنل کلائیو کے خیمے میں لے گئے۔
کلائیو نے میر جعفر کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر دارالحکومت مرشد آباد کی طرف کوچ کر جائیں اور اس پر قبضہ کر لیں۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ میر جعفر کے ساتھ اُن کے کرنل واٹس بھی جائیں گے۔
کلائیو مرکزی فوج کے ساتھ ان کے پیچھے آ گئے اور انھیں مرشد آباد تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ راستے میں سڑکوں پر چھوڑی گئی توپیں، ٹوٹی ہوئی گاڑیاں اور سراج الدولہ کے سپاہیوں اور گھوڑوں کی لاشیں ملیں۔
سر پینڈرل مون اپنی کتاب ’دا برٹش کونکویسٹ اینڈ ڈومینین ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ کلائیو کو 27 جون کو مرشد آباد پہنچنا تھا لیکن جگت سیٹھ نے انھیں متنبہ کیا کہ ان کو مارنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، لہذا 29 جون کو کلائیو شہر میں داخل ہوئے۔ میر جعفر نے شہر کے اہم داخلی دروازے پر ان کا استقبال کیا۔ یہ رابرٹ کلائیو ہی تھے جنھوں نے میر جعفر کو تخت پر بٹھایا اور انھیں سلامی دی۔ پھر انھوں نے اعلان کیا کہ کمپنی میر جعفر کے اقتدار میں کسی بھی طرح مداخلت نہیں کرے گی اور صرف تجارتی معاملات پر نگاہ رکھے گی۔‘
انگریزوں نے اس جنگ کے 180 سال بعد تک یکطرفہ طور پر ہندوستان پر حکمرانی جاری رکھی۔
مشہور مورخ ولیم ڈار لمپل اپنی کتاب ’انارکی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس فتح کے لیے کلائیو کو ذاتی طور پر 34 ہزار پاؤنڈ کی رقم ملنے جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ وہ اس جاگیر کے مالک بھی بننے والے تھے جو سالانہ 27 ہزار پاؤنڈ کما کر دینے والی تھی۔ اگر انھیں ساری رقم مل جاتی تو رابرٹ کلائیو اچانک 33 سال کی عمر میں یورپ کے سب سے امیر لوگوں میں شامل ہونے والے تھے۔
اگلے کچھ دن بہت تناؤ میں گزرے۔ کلائیو کو خوف تھا کہ میر جعفر اپنے وعدے سے مُکر نہ جائیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح عذاب دینے کی کوشش کر رہے تھے جیسے دو بڑے غنڈے بڑی لوٹ مار کے بعد اس کو بانٹنے کے لیے بیٹھ گئے ہیں۔
سراج الدولہ صبح تین بجے چھپ کر بھاگ گئے
جب کلائیو اس لوٹ مار میں سے اپنا حصہ لینے کے منتظر تھے تو میر جعفر کے بیٹے میران نے سراج الدولہ کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو بنگال کے دارالحکومت سے فرار ہو چکے تھے۔
مشہور مورخ سید غلام حسین خان نے اپنی فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب ’سیار المتاخری‘ میں لکھا ہے کہ ’سراج الدولہ عام لوگوں کا لباس پہن کر بھاگے تھے۔ اس کے ہمراہ ان کے قریبی رشتے دار اور بعض خواجہ سرا بھی تھے۔ صبح تین بجے انھوں نے اپنی اہلیہ لطف النسا اور بعض قریبی رشتہ داروں کو احاطہ دار گاڑیوں میں بیٹھا دیا، جتنا سونا اور زیورات اپنے ساتھ لے سکے اپنے ساتھ لے گئے اور محل چھوڑ کر بھاگ نکلے۔‘
وہ پہلے بھاگوان گولہ گئے اور پھر دو دن بعد کئی کشتیاں بدل کر محل کے کنارے پر پہنچے۔ یہاں وہ کچھ کھانا کھانے کے لیے ٹھہرے۔ انھوں نے کھچڑی بنوائی، وہ اس لیے کی کہ انھوں نے اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے لوگوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
مواد پر جائیں
اسی علاقے کے ایک فقیر شاہ دانا نے مخبری کرتے ہوئے سراج الدولہ کے دشمنوں کو اُن کے وہاں پہنچنے کی خبر دے دی۔ وہ دشمن جو انھیں ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کر رہے تھے۔ یہ خبر ملتے ہی میر جعفر کے داماد میر قاسم نے دریا عبور کیا اور سراج الدولہ کو اپنے مسلح افراد کے ساتھ گھیر لیا۔
سراج الدولہ کو 2 جولائی 1757 کو گرفتار کر کے مرشد آباد لایا گیا۔ اس وقت رابرٹ کلائیو مرشد آباد میں موجود تھے۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی انھوں نے فورٹ ولیم میں اپنے ساتھیوں کو خط لکھ دیے تھے۔
اس میں سے ایک خط میں انھوں نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ میر جعفر نواب کو تخت سے ہٹائے گئے نواب کے ساتھ اسی محبت کا اظہار کریں گے جو ان حالات میں ممکن ہے۔‘
دو دن بعد انھوں نے ایک اور خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ ’سراج الدولہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ نواب میر جعفر نے شاید ان کو بچا لیا ہوتا لیکن ان کے بیٹے میران نے سوچا کہ ملک میں امن کے لیے سراج الدولہ کو مرنا ہو گا۔ انھیں کل صبح خوش باغ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔‘
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے رابرٹ اورمے نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف ملٹری ٹرانزیکشن آف دی برٹش نیشن ان ہندوستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’تخت بدر نواب کو آدھی رات کو اسی محل میں میر جعفر کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس میں کچھ دن پہلے تک وہ رہا کرتے تھے۔ سراج نے میر جعفر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے، کانپتے ہوئے اپنی جان کی امان مانگی۔ اس کے بعد سپاہی ان کو محل کے ایک دوسرے کونے میں لے گئے۔‘
اسی دوران میر جعفر اپنے درباریوں اور اہلکاروں سے یہ مشورہ کرتے رہے کہ سراج الدولہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس کے پاس تین متبادل راستے تھے۔ یا تو سراج الدولہ کو مرشد آباد میں قید کر دیا جائے یا ملک سے باہر قید کیا جائے یا پھر انھیں سزائے موت دے دی جائے۔
بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ سراج کو جیل میں زندہ رکھنا چاہیے۔ لیکن میر جعفر کا 17 سالہ بیٹا میران اس کے سخت خلاف تھا۔ اس پورے معاملے میں جعفر کی اپنی نہ تو کوئی رائے تھی اور نہ ہی کوئی دخل۔
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’پلاسی دا بیٹل: دیٹ چینجڈ دا کورس آف انڈین ہسٹری‘ کے مصنف سدیپ چکرورتی لکھتے ہیں کہ ’میران نے اپنے والد کی خاموشی کو ان کی رضامندی سمجھا۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ آپ آرام کریں، میں ان کو سنبھال لوں گا۔ میر جعفر نے سمجھا کہ کوئی تشدد نہیں ہو گا۔ انھوں نے دیر رات تک لگنے والے اپنے دربار کو بند کیا اور اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔‘
تلواروں اور خنجروں سے مارا گیا
سید غلام حسین خان لکھتے ہیں کہ ’میران نے اپنے ایک ساتھی محمدی بیگ، جس کا دوسرا نام لال محمد بھی تھا، کو سراج الدولہ کو مارنے کا حکم دیا۔ جب میران اپنے ساتھیوں کے ساتھ سراج الدولہ کے پاس پہنچا تو سراج کو اندازہ ہوا کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اس نے التجا کی کہ اسے مارنے سے پہلے اسے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔
اپنا کام جلد ختم کرنے لیے قاتلوں نے سراج کے سر پر پانی سے بھرا برتن اونڈیل دیا۔ جب سراج الدولہ کو احساس ہوا کہ انھیں سکون نے وضو نہیں کرنے دیا جائے گا تو انھوں نے کہا کہ اسے پیاس بجھانے کے لیے پانی پلایا جائے۔
رابرٹ اورمے لکھتے ہیں کہ ’پھر تبھی اچانک محمدی بیگ نے سراج الدولہ پر خنجر سے حملہ کیا۔ جیسے ہی خنجر نے اپنا کام کیا دوسروں نے اپنی تلواریں سونت لیں اور وہ سراج الدولہ پر پِل پڑے، وہ منھ کے بل گر پڑے۔‘
لاش کو ہاتھی پر رکھ کر گھمایا گیا
اگلے دن سراج الدولہ کی مسخ شدہ لاش کو ہاتھی کی کمر پر لاد دیا گیا اور مرشد آباد کی گلیوں اور بازاروں میں گھومایا گیا۔ یہ ان کی شکست کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔
سید غلام حسین خان اس بربریت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس درندگی کے سفر کے دوران اس ہاتھی کے مہاوت نے جان بوجھ کر حسین قلی خان کے گھر کے سامنے ہاتھی کو روکا۔ دو سال قبل اسی حسین قلی خان کو سراج الدولہ نے قتل کروا دیا تھا۔ یہاں پر سراج الدولہ کی لاش سے خون کے کچھ قطرے اسی جگہ گرے جہاں قلی خان کا قتل کیا گیا تھا۔‘
مرشدآباد کے پاس خوشباغ میں سراج الدولہ کی قبر انہیں تین جولائی 1757 میں دفنایا گيا۔
لطف النسا کا میر جعفر سے شادی سے انکار
کرم علی نے ’دا مظفر ناما آف کرم علی‘ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’تقریبا 70 بے گناہ بیگموں کو ایک کشتی میں بیٹھا کر دریائے ہوگلی کے وسط میں لے جایا گیا تھا اور کشتی کو وہاں ڈبو دیا گیا۔‘ سراج الدولہ خاندان کی باقی خواتین کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ انھیں زیر آب مار دی جانے والی خواتین کے ساتھ دریائے ہگلی کے قریب ہی خوش باغ نامی باغ میں دفن کر دیا گیا۔‘
صرف ایک عورت کی جان بخشی گئی۔ یہ سراج الدولہ کی بہت خوبصورت اہلیہ تھیں۔ میران اور اس کے والد میر جعفر دونوں نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا۔
میر جعفر کا زوال
پلاسی کی جنگ جیتنے کے ایک سال کے اندر ہی میر جعفر کا جلوہ کم ہونے لگا۔
کچھ عرصہ قبل تک میر جعفر کی وکالت کرنے والے کلائیو نے انھیں ’دی اولڈ فول‘ یعنی بیوقوف بوڑھا اور ان کے بیٹے میران کو ’دا ورتھ لیس ینگ ڈاگ‘ یعنی ایک بیکار نوجوان کتا قرار دیا۔
سستی، نااہلی اور افیون نے میر جعفر کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔
11 نومبر 1758 کو کلائیو نے جان پین کو ایک خط لکھ کر کہا تھا جس شخص کو ہم نے تخت پر بٹھایا وہ مغرور، لالچی اور بات بات پر گالی دینے والا شخص بن گیا ہے۔ اپنے اس رویہ کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے دلوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔‘
کلائیو کے انگلینڈ واپس آنے سے پہلے میر جعفر اپنی فوج کے 13 ماہ کے باقی کرائے کی صرف تین قسطیں ہی ادا کر پائے تھے۔ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے فوجی بغاوت کے موڈ میں آ گئے تھے۔
سر پینڈیرل مون اپنی کتاب ’وارین ہیسٹنگس اینڈ برٹش انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میر جعفر کے فوجیوں کی گھوڑے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے۔ ان پر سواری کرنے والے ان سے تھوڑے سے ہی بہتر تھے۔ یہاں تک کہ اس کے افسر بھی پھٹے پرانے کپڑے پہن رہے تھے۔
پلاسی کی لڑائی کے تین سال کے اندر ہی اندر انڈیا کے سب سے امیر شہروں میں ایک مرشد آباد غریبی کی دہلیز پر آن کھڑا ہوا تھا۔
غلام حسین خان لکھتے ہیں کہ ’میر جعفر ہمیشہ مہنگے جواہرات پہننا پسند کرتے تھے۔ لیکن نواب بنتے ہی انھوں نے ایک ہی کلائی میں مختلف جواہرات سے بنی چھ، سات بریسلیٹ پہننا شروع کر دیں۔ اس کے گلے میں تین چار لڑیوں کی مالا لٹکی رہتی تھی۔ اس کا سارا وقت موسیقی سننے اور خواتین کا رقص دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔‘
کچھ ہی دن میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ میر جعفر میں بنگال پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ ایک ان پڑھ عرب سپاہی کی طرح تھے جن کا راج پاٹ سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
سر پینڈرل اپنی کتاب ’دا برٹش کونکویسٹ اینڈ ڈومینین آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کلائیو نے خود انگلینڈ جانے والے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے کہا تھا کہ میر جعفر میں حکمرانی کا دم نہیں ہے۔ ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی محبت اور ان کا اعتماد حاصل کر سکیں۔ ان کے بدانتظامی نے بنگال کو انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے۔‘
دوسری جانب ان کے بیٹے میران کا ہمددری اور رحم دلی سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ ان کی سب سے بڑی تشویش یہ تھی کہ کیسے علی وردی خان کے بقیہ کنبے کو ختم کیا جائے تاکہ مستقبل میں بغاوت کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔
غلام حسین خان لکھتے ہیں کہ ’علی وردی خان کے پورے حرم کو دریا میں ڈبونے کے بعد اس کی توجہ سراج الدولہ کے پانچ قریبی رشتہ داروں پر مرکوز ہو گئی۔ اس نے سراج الدولہ کے چھوٹے بھائی مرزا مہدی کو لکڑی کے دو تختوں کے درمیان رکھ کر پسوا دیا۔ بعد میں میران نے اس قتل کو سعدی کی کہاوت کو دہراتے ہوئے جائز قرار دیا کہ سانپ کو مارنے کے بعد اس کے بچے کو چھوڑنا کوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے۔‘
دوسرے حریفوں اور سابق انتظامیہ کے اہم اہلکاروں کو میران نے دربار کے اہم دروازے پر اپنے ہاتھوں سے چھرا گھونپ کر ہلاک کیا یا انھیں زہر پلوا دیا۔
غلام حسین خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’میران سراج الدولہ کے خاندان کے مارے گئے لوگوں کی ایک فہرست رکھتا تھا اور اسے ایک خاص نوٹ بک میں اپنی جیب میں رکھتا تھا۔ جلد ہی اس فہرست میں مرنے والوں کی تعداد 300 ہو گئی۔‘
جب وارن ہیسٹنگز نے سراج خاندان کے لوگوں کے قتل کے بارے میں سنا تو اس نے کلکتہ بھیجی جانے والی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’کوئی بھی دلیل اس ولن کے کرتوتوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کے لیے معاف کیا جائے کہ ایسے شخص کی ہماری حمایت کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہو سکتی۔‘