Wednesday, March 12, 2025
homeاہم خبریںپٹنہ میں منعقد پروقار تقریب میں ”سنگ تراش“ کا اجرا۔ممبر پارلیمنٹ منوج...

پٹنہ میں منعقد پروقار تقریب میں ”سنگ تراش“ کا اجرا۔ممبر پارلیمنٹ منوج جھا اور مشہور دانشور محمد ادیب کی شرکت — سیکولر ازم کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی نہیں: منوج جھا– حقوق کی بازیابی کیلئے مسلمانوں کو جذبہ شہادت پیدا کرنا ہوگا: محمد ادیب

پٹنہ(انصاف نیو ز آن لاین)
اس دلیل کے ساتھ کہ سیکولرازم کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں کی نہیں ہے۔راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ منوج جھا نے آج ملک کی سیکولرازم، جمہوریت او ر انسانی اقدار کی حفاظت کیلئے ملک کے تمام طبقات کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔
اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز،گاندھی میدان، پٹنہ کے کانفرنس ہال میں حقوق انسانی کے سرگرم کارکن اور قائد اردو شمیم احمد کی 25 سالہ جدو جہد پر مشتمل کتاب ”سنگ تراش“ کے رسم کے اجرا کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے منوج سنہا نے آج ملک میں سیکولرازم اور جمہوریت کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی حفاظت کیلئے صرف انتخابات ہی واحد ذریعہ نہیں ہے بلکہ سول سوسائٹی کو بیداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا جمہوریت کی کامیابی نہیں ہے بلکہ جمہوری اقدار، روایات کی حفاظت کرنا یہ اصل مقصد ہے۔مگر آج خود کو سیکولر کہنے والے مفادات کی خاطر سیکولرازم کے ساتھ دھوکہ دی کررہے ہیں۔ایسے افراد سے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

منوج جھا نے کہا کہ انہوں نے سنگ تراش کا تبصرہ پڑھا اس کی وجہ سے ہمیں ان کی خدمات اور کارنامے سے واقفیت ہوئی۔انہوں نے شمیم احمد کی جدوجہد کو محض ایک لسانی تحریک سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر روایات سے جوڑتے ہوئے کہاکہ یہ کتاب ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ہندوستان کے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زبان، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو دراصل وہ پورے جمہوری ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔ اردو کے تحفظ کی یہ تحریک صرف ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر اقدار کا بھی امتحان ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں اردو کا کردار محض ایک زبان کا نہیں بلکہ ایک مشترکہ ثقافت کا ہے، جو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کی وراثت ہے۔ردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کہنا، ایک تاریخی اور سماجی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ میر، غالب، کبیر، تلسی، اور راہول سانکرتیاین کی زبان ہے، یہ ایک تحریک ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہندوستان صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔

راجیہ سبھا کے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے ملک کے موجودہ حالت اور مسلمانوں کے رویے پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک نازک دور سے گزررہا ہے۔بھارت کے مسلمان تاریخ کے اسی لمحے پر کھڑے ہیں جب مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی کیلئے گاندھی کی تلاش کی تھی اور پھر گاندھی کی قیادت میں بھارت کو آزادی دلائی۔انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمن لہر کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ایسے گاندھی کی ضرورت ہے جس کے پاس فکر و نظریات ہو او ر قربانی دینے کا جذبہ بھی ہو۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کے دلوں سے احساس زیاں ختم ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں ایمان و صداقت اور قربانی کے جذبے کے ساتھ بھارت کی حفاظت کیلئے قربانی پیش کریں۔انہوں نے سنگ تراش کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ہندوستان کے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زبان، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو دراصل وہ پورے جمہوری ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔ اردو کے تحفظ کی یہ تحریک صرف ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر اقدار کا بھی امتحان ہے۔
قائد اردو شمیم احمد نے اردو اور حقوق انسانی کے شعبے میں کام کرنے کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو تحریک کا تجربہ بہت ہی اہم رہا ہے انہیں ان لوگوں کا ساتھ ملا جن سے ہمیں کوئی امید نہیں تھی۔ہمارے ساتھ مہم میں برادرن وطن کی بڑی تعداد موجود تھی۔انہوں نے کہا کہ اردو کی یہی تاریخ رہی ہے کہ اردو کیلئے جان دینے والے نارئن پانڈے تھے جنہوں نے اردو کے حقوق کیلئے جدو جہد کرتے ہوئے کانپور میں شہادت پیش کی۔شمیم احمد نے کہا کہ بہار میں اردو اورہند ی کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کیلئے وہ تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلیں گے۔انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی کا یہی مقصد ہے۔
آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی نے اردو زبان کی ترویج و ترقی کیلئے شمیم احمدکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ شمیم احمد نے بنگال میں اردو کو انصاف دلانے کی جو جدوجہد کی وہ تاریخ کا نایاب حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چمپارن کی تاریخ میں گاندھی جی کا اہم کردار رہا ہے۔اس کی وجہ سے چمپارن کی مٹی میں انقلاب کے جذبات پوشیدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ شمیم احمد اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے گاندھی جی کے نظریات و فکر کے ساتھ مولانا آزاد کی بلند آہنگی سے سبق سیکھتے ہوئے قومی یکجہتی کی تحریک کو پروان چڑھایا۔

حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اردو کا مسئلہ صرف ایک زبان کا نہیں بلکہ پورے تہذیبی ورثے کا ہے۔ ان کے مطابق،یہ کتاب ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ زبانوں کے تحفظ کے بغیر تہذیبیں بھی دم توڑ دیتی ہیں۔ اردو محض بولنے یا لکھنے کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی روح ہے، جس کا بقا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
مشہور عالم دین مولانا شکیل احمد قاسمی نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ملک میں ایک بڑا طبقہ آج بھی دو وقت کی روزی روٹی کا محتاج ہے سوال یہ ہے کہ یہ کیوں ہے۔انہوں نے کہا کہ شمیم احمد نے ملک کے اس مسائل کی طرف توجہ دی اور انہوں نے مصنف کتاب نور اللہ جاوید کی بھی تعریف کی۔

اس موقع پر پروفیسر زین شمسی، پروفیسرڈاکٹرمحمد احسان، مولانا مشہود احمد قادری، مولانا عبد الواحد قاسمی، اشتیاق عالم، فروغ عالم جامی، پردیپ کمار مہنتی، ممبر اسمبلی سریندر رام، عرفان احمد دلکش، مولانا عادل مصباحی، مشہورصحافی محمد فاروق اور سامعین میں بہار کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے مقررین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اردو کا مسئلہ صرف ایک زبان کا نہیں بلکہ پورے تہذیبی ورثے کا ہے۔ ان کے مطابق،’یہ کتاب ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ زبانوں کے تحفظ کے بغیر تہذیبیں بھی دم توڑ دیتی ہیں۔ اردو محض بولنے یا لکھنے کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی روح ہے، جس کا بقا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔”
جلسہ کی نظامت کرتی ہوئی ڈاکٹر افشان بانو نے کہاکہ یہ کتاب انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے لیے سرگرمِ عمل شمیم احمد کی انتھک جدوجہد کی داستان ہے، جس میں ان کی 25 سالہ سماجی و لسانی تحریک، خصوصاً مغربی بنگال میں اردو زبان کے تحفظ کی کوششوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

یہ تقریب نہ صرف اردو زبان و ادب کے لیے ایک اہم موقع تھی بلکہ ہندوستانی سیکولر روایت، سماجی شعور اور انسانی حقوق کے مباحث میں بھی ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس موقع پر علمی، ادبی اور سیاسی دنیا کی کئی ممتاز شخصیات شریک ہوئیں، جنہوں نے سنگ تراش کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور شمیم احمد کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں اردو کا کردار محض ایک زبان کا نہیں بلکہ ایک مشترکہ ثقافت کا ہے، جو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کی وراثت ہے۔
مقررین نے کہا کہ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کہنا، ایک تاریخی اور سماجی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ میر، غالب، کبیر، تلسی، اور راہول سانکرتیاین کی زبان ہے، یہ ایک تحریک ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہندوستان صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔”
سیکولرزم پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں جب معاشرتی تقسیم کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں سنگ تراش جیسی کتابیں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ ہندوستان کی اصل طاقت اس کا تنوع اور کثرت میں وحدت کا اصول ہے۔اگر ہم اردو کو بچانے کی بات کر رہے ہیں تو دراصل ہم ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی روایت کو بچانے کی بات کر رہے ہیں۔ اردو کا فروغ محض لسانی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ہندوستان کے آئین کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
مقررین اور شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اردو کو محض ایک زبان کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب اور ثقافت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جس کا فروغ اور تحفظ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
تقریب کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ اردو زبان، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی جدوجہد کو مزید مؤثر اور مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔ سنگ تراش اپنی نوعیت کی ایک منفرد تصنیف ہے جو نہ صرف شمیم احمد کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اسے ایک تحریک کی شکل میں پیش کرتی ہے۔

یہ کتاب یقیناً اردو زبان کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوگی اور سماجی انصاف کے کارکنوں کو ایک نیا حوصلہ بخشے گی۔ آج کی یہ تقریب اردو زبان کے فروغ، انسانی حقوق کے تحفظ، اور ہندوستان کی سیکولر روایت کے استحکام کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین