Saturday, October 25, 2025
homeاہم خبریںمتنازع وقف ترمیمی ایکٹ کے بعض شقوں پر سپریم کورٹ کی عبوری...

متنازع وقف ترمیمی ایکٹ کے بعض شقوں پر سپریم کورٹ کی عبوری روک۔۔مسلم حلقوں کا اظہار اطمینان

وقف قانون: ’اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہے گی‘، مولانا مدنی کا ’سپریم فیصلہ‘ پر اظہارِ اطمینان

انصاف نیوز
وقف ایکٹ پر سپریم کورٹ نے آج ایک بڑا فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے عبوری حکم سناتے ہوئے کہا کہ پورے وقف قانون پر روک نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے صرف کچھ دفعات پر ہی روک لگائی ہے۔ عدالت نے کہا کہ وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو بورڈ کا سی ای او مسلم ہونا چاہیے۔

وقف ایکٹ کو لے کر داخل کی گئی مختلف عرضیوں پر سماعت کے دوران سی جے آئی بی آر گوائی نے کہا کہ ہم نے ہر ایک سیکشن کو دیے گئے چیلنج پر غور کیا ہے۔ ہم نے پایا کہ قانون کے مکمل التزامات پر روک لگانے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا۔ حالانکہ کچھ سیکشن کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ وقف تنازعہ پر سپریم کورٹ نے کہا کہ قانون پر روک صرف نایاب سے نایاب ترین معاملوں میں ہی لگ سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وقف بورڈ میں 3 سے زیادہ غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں اور کُل ملا کر 4 سے زیادہ غیر ملکی رکن نہیں ہونے چاہئیں۔ اس معاملے میں سی جے آئی بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سی جے آئی نے کہا کہ ہم نے بحث سنی تھی کہ کیا پورے ترمیمی قانون پر روک لگائی جائے یا نہیں۔ مسٹر گوائی نے کہا کہ ہم نے مانا ہے کہ قیاس ہمیشہ قانون کی آئینی حیثیت کے حق میں ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون-2025 کے اس نظم پر روک لگا دی ہے جس کے تحت وقف بنانے کے لیے کسی شخص کو 5 سال تک اسلام کا پیروکار ہونا ضروری تھا۔ سپریم کورٹ نے کاہ کہ یہ نظم تب تک منسوخ رہے گا جب تک یہ طے کرنے کے لیے ضابطہ نہیں بن جاتا کہ کوئی شخص اسلام کا پیرو ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون-2025 کے سبھی الزامات پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دفعات کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

وقف ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضی داخل کرنے والے ایڈوکیٹ انس تنویر نے کہا، ’’سپریم کورٹ نے پہلی بار پایا ہے کہ کچھ التزامات پر روک لگانے کا پہلی نظر میں معاملہ بنتا ہے۔ انہوں نے سبھی التزامات یا پورے قانون پر روک نہیں لگائی ہے لیکن کچھ التزام پر روک لگائی ہے جیسے کہ وہ نظم جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کو 5 سال تک مسلم ہونا چاہیے، اس پر روک لگائی گئی ہے کیونکہ یہ طے کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے کہ کوئی شخص 5 سال سے مسلم ہے یا نہیں۔‘‘

وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والوں میں اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی، عآپ کے امانت اللہ خان، جمعیۃ العلما ہند کے صدر ارشد مدنی، کیرالہ جمعیۃ العلماء، انجم قادری، طیب خان سلمانی، محمد شفیع، ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا، انڈین یونین مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، آر جے ڈی ایم پی منوج کمار جھا، ایس پی ایم پی ضیا الرحمٰن برق، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایم کے شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی 15 ستمبر کی کاز لسٹ کے مطابق عدالت اس معاملے میں اپنا حکم سنائے گی۔ عبوری حکم محفوظ کرنے سے پہلے، بنچ نے متواتر تین دن تک مرکز کی جانب سے ترمیم شدہ وقف ایکٹ اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کے وکلاء کی دلیلیں سنیں۔ بنچ نے پہلے تین مسائل کی نشاندہی کی تھی جن پر درخواست گزاروں نے عبوری حکم کے ذریعے روک لگانے کی درخواست کی تھی۔

سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انھوں نے اپنے فوری رد عمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے۔‘‘

مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔ اس پوسٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ ’’جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔‘‘

مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ وہ اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ ان شاء اللہ۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے پیر (15 ستمبر) کو وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لیے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین